انھوں نے اپنی آخری ٹویٹ میں کہا تھا: ’شکریہ وزیراعظم، میں اپنی زندگی میں یہ دن دیکھنے کا انتظار کر رہی تھی۔‘
ان کے آخری ٹویٹ نے سوشل میڈیا پر ایک بحث بھی چھیڑ دی ہے، ان کے ٹویٹ کے جواب میں لوگ اپنی ملی جلی رائے دے رہے ہیں۔
https://twitter.com/SushmaSwaraj/status/1158737840752037889?s=20
مسز سوراج وزیر اعظم مودی کی کابینہ میں 2014 سے 2019 تک وزیر خارجہ کے عہدے پر رہی ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر متحرک ہونے کے حوالےسے کافی معروف تھیں جہاں وہ بیرون ملک رہنے والے بھارتیوں کو سوالوں کے جواب بھی دیتی تھیں۔
اس کے علاوہ وہ پاکستان سے علاج کے لیے ویزہ کی درخواست کرنے والے پاکستانیوں کے ویزا مسائل بھی ترجیجی بنیادوں پر حل کروانے کے لیے کی جانے والی ٹویٹس کا براہ راست جواب بھی دیتی تھیں۔
https://twitter.com/ANI/status/1159005244275249152?s=20
سشما سوراج گردوں کے عارضے میں بھی مبتلا تھیں اور بیماری کی باعث انہوں نے 2019 میں لوک سبھا کا انتخاب بھی نہیں لڑا تھا۔
اپوزیشن رہنما راہل گاندھی نے سشما سوراج کو ایک ’غیر معمولی سیاسی رہنما‘ قرار دیا اور کہا کہ ’وہ ایک اچھی مقرر تھیں اور ان کی پارلیمانی خدمات کی تعریف ان کے دوست اور مخالف سبھی کرتے ہیں۔‘
مسز سوراج نے 1970 کی دہائی میں قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ انہوں نے 1975 میں اس وقت کی کانگریس سے تعلق رکھنے والی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی جانب سے نافذ کی جانے والی ایمرجنسی کی حمایت کی۔
بعد میں وہ بھارتی جنتا پارٹی میں شامل ہو گئیں اور اس کے صف اول کے رہنماوں میں شمار ہونے لگیں۔ وہ اندرا گاندھی کے بعد بھارت کی وزیر خارجہ رہنے والی دوسری خاتون ہیں۔ سوراج 1977 اور 1987 میں ہریانہ کی ریاستی اسمبلی کی رکن بھی منتخب ہوئیں۔ جس کے بعد وہ قومی سیاست میں داخل ہوئیں اور وزیر اطلاعات اور نشریات رہیں، اس کے علاوہ انھوں نے وزارت پارلیمانی امور اور وزارت صحت کی وزیر کے طور پر بھی کام کیا۔
https://twitter.com/smritiirani/status/1158802850715185152?s=20
1990 کی دہائی کے اواخر میں سوراج دہلی کی وزیر اعلیٰ بھی رہیں۔ وہ بھارتی جنتا پارٹی کی سب سے سینئیر خاتون رہنما تھیں۔ ان کے شوہر سوراج کوشل بھارتی سپریم کورٹ کے سینئیر وکیل اور میزورام ریاست کے سابق گورنر رہے۔
بی جے پی کے مطابق مسز سوراج کی آخری رسومات بدھ کو ادا کی جائیں گی۔