راہ چلتی لڑکی کے کپڑے پھاڑنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے کا جرم: پولیس کا کردار کیا رہا؟

راہ چلتی لڑکی کے کپڑے پھاڑنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے کا جرم: پولیس کا کردار کیا رہا؟
راولپنڈی میں اوباش نوجوانوں کی طرف سے خاتون کا لباس بیچ سڑک میں پھاڑنے کا معاملہ بالآخر میڈیا پر آ چکا ہے۔ یہ ویڈیو جو کہ کئی ماہ سے سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی تھی، اس پر کسی قسم کی کارروائی نہ ہونے کے بعد  بالآخر گذشتہ ماہ یہ واقعہ منظرِ عام پر دوبارہ آیا تو راولپنڈی پولیس نے خاتون کی ایف آئی آر درج کر لی لیکن اس پر بھی مزید کوئی کارروائی کرنے میں وہ بڑی حد تک ناکام رہے ہیں۔

راولپنڈی کے علاقہ سید پوری گیٹ میں رات کے آخری پہر مبینہ طورپر نشے میں دھت 4 نوجوانوں نے راہ چلتی لڑکی کے کپڑے پھاڑ ڈالے اور اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی۔

واقعے کوکئی ماہ گزرنے کے باوجود نہ تو مقدمہ درج ہوا نہ کوئی گرفتاری عمل میں آئی۔

متاثرہ لڑکی کا کہنا ہے کہ رات دو بجے کا ٹائم تھا جس وہ گلیوں میں چلتی جارہی تھیں، آگے  ڈھکی محلے کے باہر چار لڑکے  تھے جنہوں اس کے ساتھ زبردستی کی اور مارا  بھی۔

ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو راولپنڈی کے سٹی پولیس آفیسر نے دو ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ لیکن یہ مقدمہ درج ہوئے بھی اب قریب ایک ماہ ہونے کو ہے اور تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔ واقعے کی ویڈیو فوٹیج سوشل میڈیا پر موجود ہے جس میں ان اوباش نوجوانوں کی شکلیں اور ان کا قبیح فعل واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے لہٰذا ملزمان کی شناخت نہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

لیکن اس کے باوجود پولیس کی کارروائی کرنے میں لیت و لعل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پہلے تو یہ نوجوان مفرور رہے اور اب اپنی عبوری ضمانتیں کروا چکے ہیں۔ یہ نوجوان آج بھی عبوری ضمانت پر ہیں اور پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا رہی۔

اگر پورے معاملے کو دیکھا جائے تو واقعہ ہونے، اس کی ویڈیو بننے، خاتون کے پولیس کے پاس جا کر منت سماجت کرنے لیکن پولیس کی جانب سے بے اعتنائی برتے جانے، اس ویڈیو کے وائرل ہونے، پھر میڈیا پر آنے اور مقدمہ درج ہونے کے بعد اب تک پولیس کی جانب سے محض اتنی ہی کارروائی کی گئی ہے کہ خاتون کا بیان قلمبند کر لیا گیا ہے۔

یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ ملک کے کسی بھی حصے میں ایسا واقعہ پیش آیا ہو اور انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے غفلت کی نیند سوتے رہے ہوں۔ چند برس پہل-ے ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی بالکل ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ اس میں علاقے کی چند اہم جاگیردار اور سیاسی شخصیات ملوث تھیں لیکن انتظامیہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی تھی۔ پنجاب اور سندھ میں پنچائیتوں کی جانب سے ایسی بے رحمانہ سزائیں عام ہیں جن کے تحت خاتون کو برہنہ کر کے گاؤں کا چکر لگوایا جاتا ہے، جس کے بعد انہیں علاقہ بدر بھی کر دیا جاتا ہے۔

ایک طرف تو یہ حیوانیت ہے کہ جس سے صدیوں کے ارتقا کے باوجود اس خطے کے انسان آزاد نہیں ہو سکے بلکہ تاحال اس پر نہ صرف عمل کرتے ہیں بلکہ اکثر آپ کو اس کی حمایت میں بات کرتے ہوئے بھی نظر آئیں گے۔ دوسری جانب وہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں جن کو اب تک یہ احساس ہی نہیں ہے کہ اس ملک میں ایک عورت کی زندگی کس قدر مشکل ہے اور اس کے ساتھ ایسا برتاؤ کرنے والے کس قدر سفاک ہیں۔ یہ خاتون کس کرب سے گزری ہوگی جب اس کے ساتھ زیادتی کی گئی، اس کے کپڑے پھاڑے گئے اور اس کو مارا پیٹا بھی گیا لیکن پولیس نے اس کی شکایات پر کان نہ دھرا۔

وہ ملزمان جنہوں نے خاتون کی ویڈیو بنا کر وائرل کی، وہ ہمارے ملک کے قوانین اور ان قوانین کے محافظوں سے کس قدر اچھے طریقے سے واقف تھے کہ انہوں نے نہ صرف یہ فعل سرانجام دیا بلکہ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی ڈال دی اور انہیں ریاست کی طرف سے کسی قسم کی کارروائی کا قطعاً کوئی خوف نہ تھا۔ اور ہوتا بھی کیوں؟ حقیقت تو یہی ہے کہ خاتون کی آواز نہ سنی گئی، نہ ہی اس پر کوئی کارروائی ہوئی اور دونوں ملزمان اطمینان سے ضمانتیں کروا کر اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں۔

یہی وہ نظام ہے جس کو بدلنے کا وعدہ لے کر پاکستان تحریک انصاف حکومت میں آئی تھی۔ پولیس کا یہ فرسودہ نظام جس کے بارے میں تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کے دور کے تمام ترقیاتی کاموں کو گہنا دیتا ہے، عثمان بزدار اور عمران خان کے دور میں بھی جوں کا توں ہے۔ پولیس اصلاحات کا جو وعدہ لے کر یہ حکومت آئی تھی، اس پر تاحال عمل کرنے میں ناکام ہے۔ اور اگر معاملات یونہی آگے بڑھتے رہے تو عوام کا اعتماد بحال ہونا مشکل ہوگا۔ حکومت اور انتظامیہ کے کرتا دھرتاؤں سے گذارش ہے کہ کم از کم اس طرح کے واقعات پر یوں غفلت برتنا چھوڑ دیں۔