ہفتے کی صبح ایف آئی اے نے دو صحافیوں کو حامد میر اور وجاہت مسعود کے الفاظ میں 'اغوا' کیا۔ بعد ازاں ان کے اوپر دفعات لگا کر اس اغوا کے عمل کو گرفتاری کا نام دیا گیا۔ یہ دونوں گرفتاریاں لاہور میں عمل میں آئیں۔ صحافی سید عمران شفقت یوٹیوب پر Tellings with Imran Shafqat کے نام سے ایک یوٹیوب چینل چلاتے ہیں جن میں وہ خبریں بھی دیتے ہیں اور اپنا تبصرہ بھی کرتے ہیں۔ عمران شفقت ماضی میں مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ اپنے تبصروں میں وہ حکومت کی غلطیوں اور خامیوں کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔
دوسرے صحافی ماضی میں جنگ گروپ سے وابستہ رہنے والے عامر میر ہیں، جو کہ معروف صحافی حامد میر کے بھائی بھی ہیں۔ عامر میر گذشتہ کئی برس سے رپورٹنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں اور کچھ سالوں سے اپنا یوٹیوب چینل گوگلی ٹی وی کے نام سے چلا رہے ہیں جس کے وائس اوورز میں حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ کیا جاتا ہے اور سیاستدانوں اور اہم شخصیات کی کچھ پریس کانفرنسز بھی وہ اپنے چینل پر شائع کرتے ہیں۔
عمران شفقت اور عامر میر کو وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی FIA نے بالترتیب FIR نمبران 127/2021 اور 128/2021 زیرِ دفعہ 11، 13، 20، 24۔PECA۔2016 R/w 505، 500، 509 اور 469 تعزیراتِ پاکستان میں گرفتار کیا۔ ان دونوں پر الزام یہ عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے اعلیٰ عدالتی ججوں، پاک فوج اور خواتین سے متعلق تضحیک آمیز رویہ رکھا۔ ایف آئی اے کی جانب سے جاری کی گئی ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ''یوٹیوب پر چلنے والے دو چینل Googly اور Tellings کے نام سے ایسے پیغامات نشر کیے گئے جس سے قومی سلامتی کے اداروں اور اعلیٰ عدلیہ کی بنیاد کو کمزور کر کے عوام کے ان اداروں پر اعتماد کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی اور مزید برآں خواتین کے ساتھ بھی تضحیک آمیز رویہ رکھا گیا''۔
ویسے تو یہ وہی گھسے پٹے الزامات ہیں جو دہائیوں سے اس ملک میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کے لئے استعمال کیے جا رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ تمام دفعات موجود تھیں اور ان کی تفتیش کی خاطر صحافیوں کو گرفتار ہی کرنا تھا تو اس کے لئے ریمبو کے انداز میں گھر کے باہر ہوائی فائرنگ کرنے یا کسی دہشتگرد کو پکڑنے کے انداز میں راستے میں گاڑی روک کر اغوا کی طرح لے جانے کی کیا ضرورت تھی؟ لگتا یہی ہے کہ بس اپنے کاغذ پورے کرنے کے لئے بعد میں دفعات وغیرہ ڈال دی گئی ہیں، اصل مقصد صحافیوں کو ہراساں کرنے کا ہی تھا، جو کامیابی سے پورا کر لیا گیا۔
پھر اس میں خواتین سے متعلق تضحیک آمیز رویہ اختیار کرنے کا نکتہ ایک مخصوص سمت میں ہی اشارہ کر رہا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ کارروائی ایف آئی اے نے کی ہے جو براہِ راست وفاقی حکومت کے تحت آتی ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ اپنے گھر سے متعلق تنقید کو دبانے اور مستقبل میں ایسی تنقید سے اوروں کو باز رکھنے کے لئے ریاستی طاقت کا اندھا استعمال کیا گیا ہو۔ یوں بھی اس حکومت کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ اپنی تمام تر نااہلی اور انتقامی کارروائیوں کو ایک صفحے کے بیانیے سے جھاڑ پونچھ کر کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ یہاں بھی عین ممکن ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اور قومی سلامتی کے اداروں کی بنیادیں کمزور کر کے ان پر عوام کے اعتماد کو کم کرنے والی بھاری بھرکم اصطلاحیں کسی کم ظرف کے جرم کی پردہ پوشی کے لئے استعمال کی گئی ہوں۔
یہاں لہٰذا اعلیٰ عدلیہ کا ایک خصوصی کردار بنتا ہے۔ یہ نہ تو اس ملک میں پہلی بار ہوا ہے اور نہ ہی آخری مرتبہ۔ اس سے پہلے صحافیوں کو اغوا کرنا، ایف آئی اے یا دیگر اداروں کو انہیں ہراساں کرنے کے لئے استعمال کرنا یہاں معمول کا حصہ ہے۔ گذشتہ ایک برس ہی کے واقعات اٹھا کر دیکھ لیے جائیں تو مطیع اللہ جان، علی عمران سید کے اغوا ہوں، اسد علی طور اور ابصار عالم پر حملے ہوں یا پھر ایف آئی اے کی جانب سے نوٹسز کا ایک لامتناہی سلسلہ، حکومت کی جانب سے ہر موقع پر معاملے کو لٹکانے اور دبانے کا ہی رویہ روا رکھا گیا ہے۔ خود وفاقی وزیرِ اطلاعات صاحب ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ جرمن سفیر کو انہوں نے کہا کہ یہاں آٹھ یا نو واقعات ہی تو ہوئے ہیں۔ یہ بھی بھولا نہیں جا سکتا کہ وزیرِ موصوف نے ابھی ایک ہفتہ قبل ہی اپنے تئیں 'ملک دشمن صحافیوں' کے خلاف پریس کانفرنس کر کے انہیں بے نقاب کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت صحافت کو کس نظر سے دیکھ رہی ہے اور اس کا گلا گھونٹنے کے لئے کس حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔ یعنی پریس کانفرنس کر کے غداری اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ سرکاری سطح پر بانٹے جائیں گے۔
ایسے میں عدلیہ اگر خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہتی ہے، یا محض اپنی توہین سے متعلق کیسز کو سننے میں ہی مصروف رہتی ہے، ایک سیاسی رہنما نفیسہ شاہ کو عدلیہ کے خلاف کوئی ویڈیو موصول ہونے پر ایف آئی کے نوٹسز کا سامنا کرنا پڑتا رہتا ہے لیکن صحافیوں کے اغوا کی سی سی ٹی وی فوٹیج پر بھی کارروائی کو جان بوجھ کر سست روی کا شکار رکھا جاتا ہے، ان کیسز میں نادرا چہرے کو پہچاننے کی سہولت فراہم کرنے سے انکار کر دیتا ہے، فرانزک کے نام پر مہینوں ثبوتوں کو دبائے رکھا جاتا ہے، اور عدالت کچھ نہیں کرتی، ان معاملات سے صرفِ نظر کرتی ہے، تو پھر کسی کو بنیادیں کمزور کرنے اور عوام کے اعتماد کو کمزور کرنے کی کوشش کی ضرورت کیا ہے؟