علی بابا، چالیس کھرب

علی بابا، چالیس کھرب

ہمسب نے علی بابا کا نام بچپن سے سن رکھا ہے۔ ہم جس علی بابا سے واقف ہیں وہ ایک عربی تھا، جس نے چالیس چور پکڑے تھے۔ پُرانے والے عربی علی بابا کے بعد ہمیں اسکےایک پاکستانی اوتار سے بھی متعارف ہونے کا شرف حاصل ہے، جس کومحترم شہباز شریف نےاپنی انتخابی مہم کے دوران سڑکوں پر گھسیٹنے کا عندیہ دیا تھا۔ ہم جیسے طالبعلموں کو تو سمجھ نہیں آئی لیکن شہباز شریف نے مناسب سمجھا کہ پرانے عربی علی بابا کےبرعکس جو چوروں کو پکڑا کرتا تھا، پاکستانی علی بابا کو چوروں کا سرغنہ بنا دیا۔ پھر کچھ روز پہلے ہمارا ایک تیسرے علی بابا سے تعارف کرایا گیا جسے سپیکر قومیاسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز کے تحت جناب آصف زرداری کی معیت میں قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ اسکے علاوہ بھی ہمارے ہاں بہت سے علی بابے ہیں جنکے بارے میں لوگ بہت کم جانتے ہیں اور جو جانتے ہیں انہیں اچھی طرح معلوم ہیں کہ تجاہل عارفانہ کسے کہتے ہیں۔





خیر پاکستانی علی بابوں کا ذکرِ خیر اس لئے کرنا پڑا کہ چند روز پہلے ایک چینی علی بابا سے ملاقات ہوئی۔ اس وقت پاکستان اور چین میں کیا فرق ہے اسکا اندازہ ہمارےعلی بابوں اور چین کے اس علی بابا کا موازنہ کر کے سمجھا جا سکتا ہے۔ ہمارے علی بابوں کے برعکس جنہیں سیاست کا حد درجہ شوق ہے، چینی علی بابا ایک کاروباری شخصیت ہے۔ ہمارے علی بابے جو صرف "چور"، "ڈاکو"، "گریبان"،اور "گھسیٹنے" جیسی املا سے شغف رکھتے ہیں، چینی علی بابا "تحقیق"، "ڈیٹا"، "مصنوعی ذہانت"، "جدت"اور "عقل" جیسے الفاظ سے زیادہ واقفیت رکھتا ہے۔ ہمارے علی بابوں کی ذہنی پہنچ صرف کروڑوں اور اربوں روپے کی مبینہ کرپشن تک ہے تو چینی علی بابا اپنی کاروباری صلاحیتوں سے کھربوں روپے کے کاروبار سے نیچے پاؤں دھرنے کو تیار نہیں۔ ہمارے علی بابا جذباتیت، جہالت، رجعت پرستی اور ماضی پرستی جیسے تصورات پر پروان چڑھتے ہیں تو چینی علی بابا سائنس، ٹیکنالوجی، جدیدیت، اور عقلیت پسندی جیسےتصورات کے بل بوتے پر پوری دنیا کا علی بابا بنا ہے۔ اور ہمارے علی بابے نہ صرف اپنی ناک کے آگے کا سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہیں بلکہ دنیا میں بھی ہمارے علی بابوں کے خود ساختہ "کارناموں" کو کوئی نہیں جانتا۔ جبکہ چینی علی بابا کو نہ صرف دنیا جانتی ہے بلکہ وہ دنیا بھر میں کاروبار کو نئے سے نئے ناقابلِ یقین سنگِ میل عبور کرا رہا ہے۔





ستم ظریفی یہ ہے کہ چینی علی بابا کو پاکستان میں بہت کم لوگ جانتے ہیں (ایسے علی بابوں سے ہمیں بحثیت قوم دور رکھا جاتا ہے) لیکن طالبعلم جیسے بے چین لوگ جو بین الاقوامی خبروں، عالمی ماہرین کے لیکچرز (Ted.com) اور انٹرنیٹ پر عام آدمی کیلئے میسر علوم کے ناقابلِ بیان ذخیروں  سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے ہیں، انکی چینی علی بابا سےگاہے گاہے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ حالیہ ملاقات چند روز پہلے ہوئی جب چینی علی بابا نے صرف ایک دن میں 25.3 ارب ڈالر یعنی پاکستانی کرنسی میں تقریبا پینتیس چالیس کھرب روپے کا مال فروخت کر کے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں بڑی بڑی کمپنیوں نے اپنا مال فروخت کرنے کیلئے Black Friday  اور Cyber Monday جیسے شاپنگ تہوار بنا رکھے ہیں۔ لیکن چینی علی بابا نے چند سال پہلے Singles' Day کے نام سے ایک شاپنگ تہوار شروع کیا۔ امریکہ اور مغربی ممالک کے تہواروں کی کل ملا کر فروخت بھی چھ، سات ارب ڈالر سے زیادہ نہیں ہوتی جبکہ چینی علی بابا نے ممکنہ خریداروں کے ڈیٹا، مصنوعی ذہانت کے ذریعے اس ڈیٹا کی پروسیسنگ، جدید موبائل بینکنگ، موبائل ایپس کے ذریعے تحفوں، لاٹریوں، کوپنز کے ذریعے پیدا کردہ خریداری کے ہیجان، دنیا کی چھوٹی بڑی اشیا بیچنے والی کمپنیوں  کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر اور سنگلز ڈے والے دن دنیا کی مقبول ترین انٹرٹیمنٹ کی شخصیات کے ذریعے سٹیج شو سجا کر صرف ایک روز کے تہوار میں 25.3 ارب ڈالر کی اشیا فروخت کر کے ہرکسی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔





جبکہ چین کا ایک علی بابا ایک دن میں کھربوں روپے کا کاروبار کر کے ریکارڈ قائم کر رہا تھا تو ہم بیس کروڑ لوگوں کا نمائندہ چین سے چند ارب ڈالر کے "پیکج" کاتقاضہ کر رہا تھا اور چینی حیران اور پریشان تھے کہ آخر کیوں بیس کروڑ لوگ بغیر کسی بدل کے ایک دوسرے ملک سے "پیکیج" مانگے پر مجبور ہیں۔ اس رسوائی پردل خون کے آنسو روتا ہے۔ کچھ تو ہماری مقتدرہ کو بھی سوچنا پڑے گا، کیا ملک ایسے چلتے ہیں جیسے وہ ستر سال سے اسے چلا رہی ہے؟