لاہور جلسہ: مسلم لیگ کے ماضی کے سامنے مریم نواز سینہ سپر ہیں

لاہور جلسہ: مسلم لیگ کے ماضی کے سامنے مریم نواز سینہ سپر ہیں
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے ملتان جلسے سے قبل مسلم لیگ نواز خاصی پریشان تھی۔ پشاور جلسے میں جہاں اپوزیشن نے میڈیا پر بلند و بانگ دعوے کیے، درون خانہ سب کو ہی علم تھا کہ معاملہ بہت ہی خراب تھا۔ اس جلسے میں بمشکل دس ہزار کے قریب لوگ اکٹھے ہو سکے اور وہ بھی دیکھنے میں بہت ہی کم لگ رہے تھے کیونکہ جلسہ ایک کھلے چوک میں تھا اور ڈرون کو نچلی پرواز پر رکھا جا رہا تھا تاکہ شرکا کی اصل تعداد نہ نظر آئے۔ جلسے کے بعد تمام جماعتیں ایک دوسرے پر ذمہ داری عائد کرتی رہیں لیکن بالآخر اس جلسے کی میزبانی عوامی نیشنل پارٹی کے سپرد تھی اور اس نے ایک غیر متاثر کن شو سے ان خدشات کو تقویت دی کہ اے این پی میں اب وہ ماضی کی سی آن بان اور شان نہیں رہی۔

تاہم، پیپلز پارٹی، خصوصاً گیلانی خاندان، نے ملتان جلسے میں وہ کر دکھایا جو پیپلز پارٹی کا ماضی میں خاصہ رہا ہے۔ اس جلسے میں پیپلز پارٹی کے کارکنان نے بھرپور شرکت کی، مولانا فضل الرحمٰن بھی یہاں بڑی تعداد میں کارکنان کو لے کر پہنچے کیونکہ اس شہر اور جنوبی پنجاب میں مولانا کے مدرسے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ خود مولانا ملتان میں تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں اور ان کا یہاں ایک عدد گھر بھی ہے۔ مسلم لیگ نواز کا ماضی میں ملتان ایک تگڑا قلعہ رہا ہے لیکن 2018 کے انتخابات میں یہاں سے قومی اسمبلی کی چھ کی چھ نشستیں تحریک انصاف نے جیتی تھیں اور مسلم لیگ نواز کے حصے میں محض دو صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہی آ سکی تھیں۔ تاہم، یہی وہ نتائج ہیں جو یہ تمام اپوزیشن جماعتیں تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور اس وقت جلسے، جلوسوں پر لگے ہوئے ہیں۔

اس جلسے کی ریاستی ہتھکنڈوں کے باوجود شاندار کامیابی نے جہاں حکومت کو حیران کر دیا، وہیں مسلم لیگ نواز کی جان میں بھی کچھ جان آئی کہ اب لاہور کے جلسے میں بھی عوام کے آنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ساتھ ہی اس کے لئے ملتان سے بڑا جلسہ کرنے کا چیلنج بھی درپیش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نواز اس وقت لاہور میں ایک بھرپور سیاسی مہم چلا رہی ہے۔ اتوار کے روز سوشل میڈیا کنونشن میں ایک متاثر کن تعداد سے مریم نواز اور خود نواز شریف نے بھی خطاب کیا۔ اس کے بعد پیر کو مریم نواز شہر بھر میں ریلی کی صورت میں عوام کو سڑکوں پر نکالنے کی مہم پر روانہ ہوئیں۔ یہ کہنے کو تو موٹرسائیکل ریلی تھی لیکن مریم نواز خود گاڑی میں سوار رہیں۔

اس ریلی میں انہوں نے لاہور کے کئی علاقوں کا رخ کیا۔ وہ حمزہ شہباز کے حلقے میں بھی گئیں، جہاں عوام کے ساتھ مل کر انہوں نے حمزہ کے حق میں نعرے لگوائے۔ ماضی میں پنجاب اور بالخصوص لاہور کی سیاست کو مسلم لیگ نواز نے حمزہ شہباز کے حوالے ہی کیے رکھا ہے لیکن وہ جون 2019 سے جیل میں ہیں اور سیاسی معاملات سے واجبی سا تعلق ہی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اس وقت لاہور کی ریلی کے تمام انتظامات خواجہ سعد رفیق اور رانا مشہود احمد خان کے ہاتھ میں ہیں۔ شروع میں اطلاعات تھیں اور دی نیوز کی ایک خبر سے یہ تاثر بھی پیدا ہوا تھا کہ سعد رفیق اس جلسے سے خود کو لاتعلق رکھنا چاہتے ہیں، لیکن انہوں نے فوراً ہی اس خبر کی تردید کر دی تھی اور نواز لیگ کے اندرونی ذرائع کے مطابق پوری تندہی کے ساتھ اس وقت اس مہم کی سربراہی کر رہے ہیں۔

سعد رفیق کو عوامی سیاست کا وسیع تجربہ حاصل ہے جب کہ رانا مشہود احمد خان شہباز شریف کی ٹیم کا حصہ رہتے ہوئے نہ صرف انتظامی امور کو بہتر انداز میں سمجھتے ہیں بلکہ انہیں ماضی میں پنجاب یوتھ فیسٹیول کے منتظم کے طور پر نوجوانوں کو mobilise کرنے کا بھی تجربہ حاصل ہے۔ دوسری جانب ان کا مخالف گروپ یعنی پرویز ملک اور خواجہ عمران نذیر اس جلسے کی تیاریوں سے مکمل طور پر لاتعلق ہیں۔ عمران نذیر اور پرویز ملک کی تاحال کوئی محنت نظر نہیں آئی۔ جس خبر کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، اس کے حوالے سے بھی لیگی ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ سعد رفیق سے زیادہ پرویز ملک کی صورتحال دکھائی دیتی ہے۔

انتظامی طور پر نواز لیگ کی طاقت اور تجربہ اپنی جگہ لیکن سینیئر تجزیہ کاروں کا کہنا یہی کہ مسلم لیگ نواز جلسے جلوسوں اور احتجاجی سیاست کے حوالے سے جانے جانے والی پارٹی نہیں ہے۔ اس کا مزاج حکومت کرنے کا ہے، اس کا ووٹر ووٹ تو ڈالنے کے لئے نکلتا ہے لیکن وہ اپنی دکان بند کر کے یا کام سے چھٹی کر کے قیادت کے حکم پر جلسہ گاہ پہنچنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ تاہم، سہیل وڑائچ کا شاہزیب خانزادہ کے شو میں کہنا تھا کہ اس مشکل کے باوجود مریم نواز اس وقت غالباً پنجاب کی سب سے بڑی crowd-puller ہیں اور لاہور میں جہاں جہاں سے ان کا قافلہ گزرے گا لوگ ان کے ساتھ بڑی تعداد میں باہر نکلیں گے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں قریب ایک لاکھ لوگوں کو جلسے میں لانے کا ہدف دیا گیا ہے جن میں سے 50 ہزار کے قریب لوگ لاہور شہر سے جب کہ 50 ہزار پنجاب کے دیگر علاقوں سے آئیں گے۔ خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد کی شرکت کا امکان ہے۔ تاہم، یہ ایک لاکھ لوگ صرف مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے ہوں گے اور دیگر جماعتوں کا ہدف 8 دسمبر کے پی ڈی ایم سربراہی اجلاس میں طے کیا جائے گا۔

ان جماعتوں میں سے پیپلز پارٹی کی حد تک تو مسلم لیگ نواز کو کسی بڑے کارنامے کی امید نہیں، البتہ مولانا فضل الرحمٰن کو ایک بڑا ہدف دیا جائے گا۔ مولانا ماضی میں بھی مینارِ پاکستان پر بڑے بڑے عوامی اجتماعات کر چکے ہیں، لہٰذا ان کی سکت تو ہے کہ وہ یہاں بڑی تعداد میں اپنے کارکنان کو لے کر آ سکیں۔ اس حوالے سے بہت کچھ 8 دسمبر کے اجلاس پر بھی منحصر ہے۔

اس میں ہونے والے فیصلے بھی جلسے میں عوام کی تعداد پر اثر ڈالیں گے۔ عام تاثر یہی ہے کہ فیصلے جتنے سخت ہوں گے، تعداد اتنی ہی گھٹ جانے کا امکان ہے۔ سوشل میڈیا کنونشن میں نواز شریف نے خطاب کے دوران اپنے چارہ گروں کے نام لینے کی ضرورت اور افادیت پر تو روشنی ڈالی لیکن بہت کم لوگوں نے اس طرف توجہ دی ہے کہ انہوں نے نام لیے نہیں، صرف نام لینے کی اہمیت پر ہی زور دیا ہے۔ اس کے پیچھے بھی سعد رفیق کی یہ نصیحت کارفرما ہے کہ مؤقف میں کچھ نرمی پیدا کی جائے تاکہ تاجر طبقہ اور دیگر لوگ جلسے میں آنے سے نہ کترائیں۔

سوموار کی ریلیوں سے واضح ہے کہ مسلم لیگ نواز کی لاہور میں مقبولیت میں کوئی کمی تو کیا واقع ہونی تھی، کچھ نہ کچھ اضافہ ہی ہوا ہے۔ 13 دسمبر کا جلسہ اس تحریک اور مسلم لیگ نواز کی مستقبل کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ اب دیکھیے، تجزیہ کاروں کے خدشات درست ثابت ہوتے ہیں یا مریم نواز کی پرکشش شخصیت ماضی کے سایوں سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ جلسے میں چھ دن باقی ہیں، اور momentum اس وقت مسلم لیگ نواز کے ساتھ ہے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.