اپوزیشن نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لئے مضبوط حکومتی اتحادی مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم سے رابطے تیز کر دیے ہیں، دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے بھی حکومت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحفظات دور نہ ہونے کی صورت میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کرینگے۔
تفصیلات کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری نے مسلم لیگ قائداعظم (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور اور قائم مقام گورنر پنجاب چوہدری پرویز الٰہی سے تحریک عدم اعتماد کیلیے حمایت مانگ لی۔
آصف زرداری نے چوہدری برادران سے ان کی ریائش گاہ پر ملاقات کی جہاں وفاقی وزرا طارق بشیر چیمہ، مونس الٰہی، ایم این اے سالک حسین، شافع حسین اور رخسانہ بنگش بھی شریک تھے۔ اس دوران ملکی سیاسی صورتحال سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
آصف علی زرداری نے چوہدری شجاعت حسین کی خیریت دریافت کی اور ان کی جلد صحت یابی کیلیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔ آصف زرداری کا استقبال پرویزالٰہی، مونس الٰہی، طارق بشیر چیمہ اور سالک حسین نے کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ملاقات میں ملکی سیاسی صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس موقع پر شجاعت حسین نے کہا کہ ہمارے پرانے تعلقات ہیں، یہ تعلقات قائم رہنے چاہئیں۔ آصف علی زرداری نے کہا حکومت کی ناقص کارکردگی کے باعث تمام اپوزیشن عدم اعتماد پر متفق ہے، اس پر شجاعت حسین نے کہا کہ ابھی اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ سیاسی معاملات پر آئندہ بھی مشاورت جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا۔
آصف زرداری نے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین کمال سیاسی بصیرت رکھتے ہیں۔ چوہدری برادران وضع دار سیاستدان ہیں جو درست کو درست اور غلط کو غلط کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ ان کی سیاسی سمجھ بوجھ کی قدر کرتا ہوں۔ حکومت کے اتحادی عوامی مفاد میں فیصلہ کریں۔ دونوں رہنمائوں میں دوبارہ ملاقات پر بھی اتفاق کیا گیا۔ چوہدری شجاعت حسین پرویز الہی اور آصف علی زرداری کی علیحدگی میں بھی آدھ گھنٹہ ملاقات جاری رہی۔
ذرائع کے مطابق عشایئے میں مستقبل کے ممکنہ اتحاد اور اپوزیشن کی جانب سے عمران خان کو گھربھیجنے کے متعلق اپوزیشن کے نئے متفقہ موقف پر بھی تفصیلی بات چیت ہوئی۔ یہ ملاقات اڑھائی گھنٹے تک جاری رہی جبکہ آصف زرداری اور چوہدری برادران میں تقریباً آدھا گھنٹے تک علیحدگی میں بھی ملاقات ہوئی۔ سابق صدر چوہدری برادران کو حکومتی اتحاد سے علیحدگی کیلئے قائل کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔
ملاقاتوں کے دو دور ہوئے، قائدین کی علیحدگی میں بھی ملاقات ہوئی۔ اس دوران حکومت مخالف تحریک عدم اعتماد پر گفتگو ہوئی جبکہ مہنگائی کا مسئلہ بھی زیر غور آیا۔ ذرائع کے مطابق آصف زرداری نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر چوہدری برادران سے حمایت مانگ لی جس پر چوہدری برادران نے جواب دیا کہ تحریک عدم اعتماداور دیگر معاملات پرپارٹی سے مشاورت کریں گے۔ آئندہ چند دنوں میں آصف زرداری کی چوہدری برادران سے ایک اور ملاقات ہوسکتی ہے۔
آصف زرداری نے شجاعت حسین سے مصافحہ کیا اور خیریت دریافت کی، چوہدری شجاعت نے بتایا کہ اللہ کے فضل سے اب میں بہتر ہوں۔
دریں اثنا پی ٹی آئی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے اتحاد میں دراڑیں آنے لگی، بی اے پی نے وفاقی حکومت سے وفاقی وزیر، وزیر مملکت اور معاون خصوصی کے عہدے مانگ لئے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے ذرائع نے بتایا کہ بی اے پی حکومت کی سب سے بڑے اتحادی جماعت ہے مگر وفاقی کابینہ میں مناسب نمائندگی نہیں ملی، وفاقی حکومت میں دو وزارتیں دینے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ بی اے پی ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم کے دورہ کوئٹہ کے دوران وزیراعلی بلوچستان اپنے تحفظات سامنے رکھیں گے۔ بی اے پی ذرائع نے کہا کہ تحفظات دور نہ ہونے کی صورت میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کرینگے۔
ادھر ایم کیو ایم کے رہنماؤں عامر خان اور وسیم اختر نے کہا ہے کہ عمران خان سے اگر عوام مطمئن نہیں تو ہم کیسے مطمئن ہوسکتے ہیں۔ صوبائی صدر چوہدری عابد کے ساتھ پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ اچانک جو سیاسی ہل چل ہوئی اس کے متعلق اپوزیشن لیڈر سے بات چیت طے نہیں ہوئی۔ ملک میں مہنگائی کی جو صورتحال ہے اس پر ہمیں بہت پہلے سے تشویش ہے۔ اختلاف رائے اچھی بات ہے۔ ملنے جلنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے دروازے سب کیلئے کھلے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کے اتحادی ہیں، بیڈگورننس کا ہمیں سب سے شکوہ ہے۔ پارٹی کی ہدایت پر پنجاب کے دورے پر نکلے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی پندرہ سال سے سندھ میں حکومت ہے۔ افسوس پورے سندھ میں انصاف نہیں ہوسکا۔ جن علاقوں سے پیپلزپارٹی جیتی وہاں بھی کام نہیں کرائے گئے۔ وڈیرہ شاہی نے سندھ کا نظام تباہ برباد کردیا۔ ایم کیو ایم پرامن انداز میں اپنی جدوجہد کررہی ہے۔ سندھ حکومت نے مقامی حکومتوں کو یکسر نظر انداز کیا۔
ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ وزیراعلی ہاؤس کے باہر پرامن احتجاج کیا لیکن پولیس نے ہمارے کارکنوں پر لاٹھی چارج، شیلنگ کی۔ ہم بات چیت کرنے کے حق میں تھے لیکن سندھ حکومت نے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ منتخب ارکان اسمبلی پر تشدد پولیس نے کیا۔