رُستم زرداری اور سُہراب بھٹو ملاکھڑا

جب بلاول بھٹو وزیر خارجہ بنا اور لوگوں سے کسی طرح تعلق میں آیا تو اس پر یہ بات منکشف ہوئی کہ وہ تو پارٹی میں عام اور خاص لوگوں میں سے کسی کو بھی زیادہ نہیں جانتا۔ بلکہ تمام ایسے لوگ باپ یا پھر پھوپھی سے ملتے ہیں تو شہزادہ سلیم باغی ہو گیا اور وہ بینظیر کی طرح تمام انکلوں کو گھر بھیجنا چاہتا ہے۔

رُستم زرداری اور سُہراب بھٹو ملاکھڑا

آصف علی زرداری پاکستانی ریاست کے وہ سابق قیدی ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے بڑا ہوتے ہوئے شاذ و نادر ہی دیکھا ہے۔ ان پر جتنی بھی میری تنقید ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان پر دو دہائیوں پر محیط قائم مقدمات، قید و بند کی سب سے بڑی وجہ زیادہ تر یہی تھی کہ وہ پیارے پاکستان میں بینظیر بھٹو جیسی خاتون اور لیڈر کے شوہر تھے۔ پھر اسی زرداری کو بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد ریاست کا صدر بنایا گیا۔ پاکستان کھپ گیا۔ مجھ سمیت کافی لوگ سمجھتے ہیں پاکستان کی ریاست نے ہی بینظیر بھٹو کو قتل کروایا۔

بہت برس ہوئے میں اور میری ساتھی صحافی نفیسہ شاہ لیاری میں پانی کی قلت پر ایک سٹوری کرنے اس کی تنگ گلیوں اور گنجان علاقوں میں لوگوں سے باتیں کرنے نکلے تھے۔ لوگوں نے ہمیں بتایا تھا کہ اس سے کچھ دن قبل لیاری میں بینظیر بھٹو کا جلسہ ہوا تھا اور لوگ ٹخنے ٹخنے گندے پانی میں کھڑے ہو کر بینظیر کی تقریر سن رہے تھے۔ انہی دنوں اسی لیاری والوں نے آصف علی زرداری کو جیل سے ہی منتخب کر کے قومی اسمبلی بھیجا تھا۔ اب لیاری کی عورتیں کہہ رہی تھیں کہ ہمارا ایم این اے زرداری ہمارے لیے پانی نہیں لے آتا۔ جب نفیسہ نے ان خواتین میں سے ایک سے کہا؛ 'اماں، زرداری صاحب آپ کو کیسے پانی فراہم کرے وہ تو خود جیل میں ہے؟' تو اس پر اس عورت نے کہا تھا؛ 'اڑے زرداری جیل میں بچہ پیدا کرتا ہے پر ہم لوگوں کو پانی نہیں دے سکتا!' اس عورت کا اشارہ اس وقت نوزائیدہ آصفہ کی طرف تھا۔

آپ نے وہ تصویر دیکھی ہو گی جب اپنے چھوٹے بچوں کو انگلی سے پکڑے بینظیر بھٹو جیل میں قید آصف علی زرداری سے ملاقات کو جایا کرتی تھی۔

زرداری جیل سے چھوٹ کر دبئی پہنچے۔ پھر پنجاب میں پرویز الہیٰ کے دور حکومت میں زرداری لانگ مارچ کو نکلے۔ بینظیر نے دبئی میں ان کے بازو پر امام ضامن باندھا اور وہ مزید پٹ پٹا کر واپس گھر کو لوٹے۔

جب آصف زرداری قید سے رہا ہو کر دبئی پہنچے تو بقول شخصے چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا۔ ان کے بچے بڑے ہو چکے تھے۔ ان کے ساتھ زرداری نے ظاہر ہے بہت ہی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر کوالٹی ٹائم گزارا تھا۔ ان سے بلاول بھٹو کا صحیح وقت نیویارک میں تب گزرا جب زرداری جیل سے رہائی کے بعد نیویارک پہنچے اور دونوں باپ بیٹے نیویارک کے مین ہٹن کے ہوٹل حیات گرانڈ سینٹرل میں قیام پذیر تھے۔ اس وقت زرداری اپنے اس اکلوتے بیٹے کے بارے میں اپنے ملنے والے قریبی دوستوں سے کہا کرتے؛ 'مجھے بتائیں میں اس کو مرد کیسے بناؤں؟ مجھے اسے مرد بنانا ہے'۔ یہ پدرشاہانہ وڈیرانہ سماج کی مخصوص سوچ کا اظہار تھا جو ظاہر ہے بلاول کیلئے کافی تکلیف دہ ہوتی ہو گی۔ بلکہ باپ اور بیٹے کے درمیان ذہنی فاصلوں کی شروعات کا بیج ابا کی طرف سے تب ہی بویا جا چکا تھا۔

پھر اسی نیویارک میں قیام کے دوران آصف زرداری اپنی شامیں اپنے یاروں غاروں کے ساتھ گیشا نامی ایک اطالوی ریستوران اور بار میں گزارتا جو ایک طرح سے اس کی 'اوطاق' بن چکی تھی۔ یہاں کے نجی کمروں میں سے ایک آصف زرداری کے نام ہمیشہ مخصوص ہوتا اور ریسٹورنٹ اپنے سیلر میں زرداری کی پسندیدہ بڑھیا وائینز یا شرابیں رکھا کرتا۔ زرداری اپنی سو سو ڈالر سخاونہ ٹپ کیلئے ریسٹورنٹ کی ویٹرسوں اور ویٹروں میں مقبول تھے۔ وہاں ایک دن بلاول اپنے دوستوں کے ساتھ آیا اور والد سے کہنے لگا؛ 'ڈیڈی میں دوستوں کے ساتھ شام کو باہر جا رہا ہوں'، تو زرداری نے اپنی جیب سے سو سو ڈالر کے نوٹوں کی گڈی نکالی اور بلاول کے سامنے تاش کے پتوں کی طرح کھول کر رکھ دی۔ بلاول نے ان نوٹوں میں سے فقط ایک سو ڈالر کا ایک نوٹ اٹھایا اور اپنے دوستوں کے ساتھ چل دیا تو زرداری نے وہاں بیٹھے اپنے دوستوں سے کہا؛ 'دیکھو اپنی ماں کے ساتھ رہ کر یہ کتنا کنجوس بن گیا ہے'۔ پھر وہی بات کہی کہ؛ 'مجھے اسے مرد بنانا ہے'۔

باپوں کیلئے اولاد کے بارے میں اس طرح کی چوّلیں مارنا شاید زرداری اور اس کے مردانہ ہم نوالہ و ہم مشرب دوستوں کیلئے ایک ٹھٹھا ہو لیکن بلاول کیلئے یہ بات ایک کانٹے دار زہریلے درخت کی طرح اندر ہی اندر اگتی رہی ہو گی۔

یہ زرداری کے والد حاکم علی زرداری تھے جب ان سے ان کے کچھ قریبی دوستوں نے پوچھا تھا کہ آخر تمہارے بیٹے میں ایسی کون سی بات تھی کہ بینظیر بھٹو جیسی خاتون نے اس سے شادی کی؟ تو بڑے زرداری صاحب کا اپنے قریبی دوستوں کو جواب تھا؛ 'مجھے پورے سندھ میں کوئی بھی ایک ایسے سندھی وڈیرے کا بیٹا بتائیں جس کی عمر 35 برس ہو اور وہ اب تک غیر شادی شدہ ہو'۔ لیکن بہت سارے لوگوں نے اس شادی کو زرداریوں کی انویسٹمنٹ یا سرمایہ کاری سمجھا۔ لیکن جو کچھ بھی تھا، یہ بات تو حقیقت ہے کہ اس وقت ضیاء الحق اقتدار میں تھا تو اپوزیشن لیڈر بینظیر بھٹو سے شادی کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا اور آصف زرداری جیسے نوجوان نے یہ رسک یا جان کا جوکھم اٹھا لیا۔

لیکن جب آصف زرداری کی لندن میں منگنی کی خبر اخبارات میں چھپی تو اس کے آبائی شہر نواب شاہ کے کئی لوگوں کا خیال اس کے برعکس تھا کہ اس وقت وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے، 20 سال بعد پتہ پڑ جائے گا۔

باقی سب تاریخ ہے۔ 20 برسوں کے اندر لگ پتہ گیا۔

آصف زرداری آخری بار جیل سے رہا ہونے کے بعد دبئی اور پھر نیویارک میں سکونت اختیار کرتے ہیں۔ وہ، ان کا کتا میکس اور خالد شہنشاہ جیسا کیرکٹر اور زرداری صاحب ہوتے تھے۔ ان کے کچھ نئے کچھ پرانے مرد و خواتین دوست نیویارک کے ان کے ایسٹ سائیڈ اپارٹمنٹ پر ان سے ملنے آتے ہیں۔ ان کے پاس اس وقت ان کے پرانے دوستوں میں میرا دوست صحافی سمیع ابراہیم بھی ہوتا۔ آصف زرداری سے ملنے والوں میں مرتضیٰ سولنگی بھی ہوتا جس کو آصف زرداری کے ساتھ پہلی بار ملوانے والے میرے دوست مسعود حیدر اور شاہین صہبائی تھے کہ مسعود حیدر اور شاہین صہبائی نے مرتضیٰ سولنگی کے بے حد اصرار پر اسے زرداری سے پہلی بار ملوایا تھا۔

مسعود حیدر کو ہی 'ڈان' کیلئے ایک انٹرویو میں بینظیر نے بتایا تھا کہ زرداری صاحب کا اب سیاست میں کوئی رول نہیں ہوگا، وہ دبئی یا لندن میں بچوں، ان کی تعلیم اور اپنے بزنس کو دیکھیں گے۔ وہ دبئی یا لندن میں رہیں گے'۔

پھر سب کچھ الٹ پلٹ ہو گیا۔ بینظیر قتل ہو گئی۔ دن دیہاڑے لیاقت باغ راولپنڈی میں۔ پھر بینظیر کی وصیت بھی نکل آئی۔ یہ وصیت سچی تھی یا جعلی لیکن زرداری جس کیلئے بینظیر کے پلان لندن و دبئی میں بچوں کی دیکھ بھال کرنا تھی، اب بینظیر کی پاکستان پیپلز پارٹی کے ہر سیاہ و سفید کا مالک بن بیٹھا۔ بلاول کو شریک چیئرپرسن بنایا گیا۔ اب بلاول کبھی سیاسی طور پر بالغ تو کبھی نابالغ بتایا گیا۔ جمیل سومرو کو زرداری کی طرف سے بلاول پر رکھا گیا۔ شیری رحمان بلاول کی اتالیقہ خاص بنی۔

بلاول زرداری پر سیاست حادثاتی طور پر مسلط ہوئی ہے۔ اس کے تمام اتالیق اور اتالیقائیں اصل میں اس کے ابا کی ہی ٹیم کے ممبر ہیں اور بلاول کی ساری سیاست سکرپٹڈ تھی۔ اگر وہ اپنی والدہ کی پارٹی کی بحالی چاہتا ہے تو اس کو اپنے والد سے راہیں جدا کرنی پڑیں گی۔ میرے مضمون میں چھپے ایسے ہی خیالات کو سوال کی صورت دے کر بی بی سی کے ہارڈ ٹاک پروگرام کی میزبان نے بلاول سے پوچھا تھا جس کا جواب اب بھی فضا میں لٹکا ہوا ہے۔

حامد میر کے آصف زرداری سے انٹرویو کو پیپلز پارٹی کے کئی جیالے سیاق و سباق سے ہٹ کر نشریہ کہہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت آصف زرداری پر پارٹی کے اندر سے حملہ ہو رہا ہے جو بقول ان کے پارٹی کے اندر ایک اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ہے اور یہ بہت ہی خطرناک کھیل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مانئنس ون فارمولا کی سازشیں یعنی آصف زرداری پر کاٹا لگانے کی سازشیں بہت دنوں سے جاری ہیں۔ لیکن ایک ایسا پی پی پی جیالا جس نے بلاول اور آصف زرداری کے جلسوں میں چارسدہ سے مٹھی سندھ تک میں شرکت کرنا شاذ و نادر ہی چھوڑا ہے اور بلاول کی ہی جنریشن گروپ کا ہے، کہتا ہے کہ اگر باپ بیٹے کے درمیان ایسا دنگل ہوا بھی تو وہ مسٹر زرداری کا ساتھ دے گا۔ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو اسے نورا کشتی یا گڈ کاپ بیڈ کاپ کا کھیل سمجھتے ہیں جس کا فوکس وہ کہتے ہیں آنے والے عام انتخابات ہیں۔

مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ باپ بیٹے کے درمیان اس وقت یہ کشیدگی حقیقی ہے۔ اس کی ایک وجہ اس طرح کے باخبر حلقے یہ بتاتے ہیں کہ بلاول کو باپ نے لوگوں سے دور رکھا ہے۔ بلاول کو کسی سے ملنے بھی نہیں دیا جاتا تھا، سوائے باپ کی مرضی کے یا بلاول پر باپ کی طرف سے رکھے ہوئے لوگوں کی مرضی کے۔ لیکن جب بلاول بھٹو وزیر خارجہ بنا اور لوگوں سے کسی طرح تعلق میں آیا تو اس پر یہ بات منکشف ہوئی کہ وہ تو پارٹی میں عام اور خاص لوگوں میں سے کسی کو بھی زیادہ نہیں جانتا۔ بلکہ تمام ایسے لوگ باپ یا پھر پھوپھی سے ملتے ہیں تو شہزادہ سلیم باغی ہو گیا اور وہ بینظیر کی طرح تمام انکلوں کو گھر بھیجنا چاہتا ہے۔

مغل فرمانرواؤں کی طرح بھٹوؤں میں طاقت حاصل کرنے پر لڑنا کوئی نئی بات نہیں۔ نصرت بھٹو سے مرتضیٰ بھٹو تک کہانی اتنی پرانی بھی نہیں ہوئی۔ سنا ہے کہ آصف زرداری کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ اس پارٹی کی ایک تاریخ ہے، اس پارٹی کا چارج کسی نے اپنے زندہ ہوتے نہیں چھوڑا اور وہ بقول ان کے بلاول کو کبھی بلوغت اور کبھی بلوغت کے دوراہے پر کھڑا دیکھ رہے ہیں۔

معاملہ کچھ بھی ہو لیکن بقول چیک ادیب میلان کنڈیرا کے، آج اور کل کا جھگڑا اصل میں یادداشت اور فراموشی کے مابین جھگڑا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہاں کون فراموشی بنتا ہے تو کون یادداشت۔