کئی برس ہوئے کہ دادو روہڑی لائین پر ٹرینوں پر ایک نوجوان نہایت ہی سر میں صدا لگایا کرتا تھا “واہ رے چکر کا زمانہ کبھی سکھر کبھی لاڑکانہ”۔ یہ نوجوان سریلا فقیر کوئی اور نہیں اپنا مشہور زمانہ روزگار فنکار اور گائیک علن فقیر تھا۔
یہ تو خود علن فقیر کو بھی معلوم نہیں تھا کہ سندھ کے انتہائی قابل لوک دانش کے مالک اور شہنائی نواز دھمالی فقیر کا بیٹا چکر کے زمانے طے کرتا ہوا یگانہ فنکار مشہور عالم علن فقیر بن جائے گا۔ علن فقیر کی زندگی کا سفر ایک عجیب سفر تھا۔
سندھ کے سابقہ ضلع دادو (اب جامشوروضلع) میں پہاڑی سلسلے کھیرتھر میں مانجھند کے پاس ایک گائوں آمری میں جنم لینے والا علن فقیر جب جوان ہو رہا تھا تو اسے اپنے آبائی پیشے یا فن سے اتنا شوق نہیں تھا جتنا شوق اسے آوارہ گردی، فقیری اور گداگری سے تھا۔ جیسے ہر مچھیرے کا بچہ پیدا ہوتے ہی دریا میں تیرنا اپنے ساتھ لے آتا ہے۔ اسی طرح منگنہاروں اور میراثیوں کے بچے سریلا گلا اور حس مزاح بھی اپنے ساتھ لے آتے ہیں۔ علن فقیر نے پیشہ گداگری اپناتے ہوئے مزاح اور سر بھی اس میں شامل کر لیے۔ اگرچہ علن فقیر کے والد دھمالی فقیر اپنے دور کے بڑے شہنائی نواز اور منگنہار ہو کر گزرے ہیں۔
علن فقیر آس پاس کے گاؤں گوٹھوں میں جا کر صدا لگاتا یا پھر اپنے گدھے پر سوار سیر اور سفر پر نکلا ہوا ہوتا۔
ایسی ہی آوارہ گردیوں میں علن فقیر ایک خواجہ سرا سے روشناس ہوا جو تعلق پھر گہری دوستی میں بدلا۔ یہ خواجہ سرا پہاڑوں کے پاس ایک جھونپڑی یا کٹیا میں رہا کرتا جہاں علن فقیر بھی اپنے گدھے سمیت شب بسری کو آیا کرتا۔
علن فقیر نے مجے خود بتایا تھا کہ پہلے پہل اس خواجہ سرا کے دوست کی ہاتھ کی بنی ہوئی چائے میں نہ جانے کیسا سواد تھا کہ وہ اس کا بڑا عادی بن گیا۔ لیکن وہ چائے نہیں پوست کی ڈوڈی تھی۔ علن فقیر اس خواجہ سرا کے عشق اور افیون کا انتہائی مشتاق بیک وقت بنا۔ علن فقیر پھر اپنی زندگی کے آخری دنوں تک افیون کا عادی رہا۔ ایسی عادت اور موالی پن کو پھر وہ افیون کی ہو کہ اخبار بینی کی سندھ میں “متقی پن” بھی کہا جاتا ہے۔
علن فقیر کے علاقے میں سن شہر کے سیدوں کا بہت اثرورسوخ تھا (اور اب بھی ہے)۔ سن کی وہ عورتیں جب اس زمانے میں بچیاں تھیں، اپنے بچوں کو علن فقیر کے متعلق بتایا کرتی ہیں کہ شام ہوتے ہی وہ بچوں سے کہتے “میری ماؤں، اب جاؤ اپنے اپنے گھر شام ہوچکی ہے”۔
پھر علن فقیر کو “ڈاڈھا مڑس” بننے کا بھی شوق ہوا اور داڑھی مونچھ بڑھا لی، آنکھیں لال کر لیں اور قمیض کے نیچے پستول لیے گھومتا۔ اسی طرح سن کے ان سیدوں میں سے (یاد رہے کہ سن کے یہ سید سن کی وجہ شہرت جی ایم سید، کے چچیرے لیکن انکے مخالف خاندان والے تھے) کسی نے اسے بتایا کہ حیدر آباد میں ایک مسلمان اور بلوچ عورت زرینہ بلوچ (زرینہ بلوچ معروف لوک فنکارہ نہیں) کے نام سے ہے جس نے ایک ہندو زمیندار سے شادی کی ہوئی ہے۔ علن فقیر اس خاتون کو “غیرت کے نام “ پر قتل کرنے نکلا۔
داراصل یہ سندھ کا معروف غیر فرقہ وارانہ جوڑا اور خاندان تھا جس کا حقوق کی تحریک اور ادبی علمی سرگرمیوں میں بھی کردار تھا۔ اس جوڑے کے تین بیٹے شیام، شنکر اور نند کمار ہمایوں سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہے۔ کئی برسوں سے یہ بھائی امریکہ میں سکونت رکھتے ہیں اور شنکر اور نند کمار ریپبلیکن پارٹی کی قیادت کے بھی قریب جانے جاتے ہیں۔ شمالی امریکہ میں سندھی کمیونٹی کی تنظیموں میں شنکر کافی سرگرم بھی رہے ہیں۔ زرینہ، شیام اور شنکر کے نام جدید سندھی نظم میں بھی گنوائے گئے ہیں۔
تو قصہ المختصر، علن فقیر حیدر آباد میں اس خاندان سے جا ملا۔ بظاہر ایک ملازم کی حیثیت سے ان کے پاس رہنے لگا۔ لیکن اس خاندان نے اپنے حسن سلوک سے علن فقیر کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ علن فقیر نے زرینہ بلوچ کے پائوں میں پڑتے ان کے سامنے ایک دن اعتراف کیا کہ وہ دراصل ان کو قتل کرنے نکلا تھا لیکن اس خاتون خانہ اور خاندان کا سلوک دیکھ کر اس نے اپنا ارادہ جرم بدل لیا اور اب وہ ان پر منحصر ہے کہ وہ اسے پستول سمیت پولیس کے حوالے کر دیں یا جو بھی سلوک کریں۔
علن فقیر کو زرینہ بلوچ نے گلے لگاتے معاف کر دیا اور وہ تب سے ایک طرح سے اس خاندان کا حصہ بن گیا۔ لیکن علن فقیر طبعن ایک سیلانی فقیر اور مزاحیہ انسان تھا اور اب میلوں ملا کھڑوں (سندھی کشتی) میں جاتا اور پہلوانوں کے میدان میں اترنے سے پہلے لاٹھی سے ملہہ یا کشتی لڑا کرتا جس سے ملاکھڑے کے شائقین بہت محظوظ ہوتے۔ علن فقیر نے مسخری کو بھی پیشہ بنا لیا۔
ان دنوں میرپور خاص کے قریب مقامی زمیندار و بااثر شخصیت میر محمد بخش تالپور کی سربراہی میں ہر سال ایک “آل سندھ مسخرہ کانفرنس “ منعقد ہوا کرتی تھی۔ ایک سال علن فقیر نے بھی اس کانفرنس میں حصہ لیا اور مسخری سے زیادہ اس کی گانے کی آواز نے منتظمین اور شرکا کو محظوظ کیا۔ اس کانفرنس کی صدارت مخدوم محمد زمان طالب المولا کر رہے تھے۔ انہوں نے علن فقیر سے کہا کہ کیوں نہیں تم اپنے گانے کو سنجیدہ لیتے اور شاہ عبدالطیف بھٹائی کے عرس پر ہونیوالے موسیقی کی کانفرنس میں اپنے دینے والے کی طرف دیے ہوئے اپنے اس فن کا مظاہرہ کرتے۔ اسی طرح جب ایک سال، شاہ عبدا لطیف بھٹائی کے عرس مے موقع پر ہونیوالی موسیقی کی کانفرنس میں علن فقیر نے شاہ عبدالطیف کی وائی اپنے مخصوص انداز میں گائی تو پھر اس کے بعد اس نے پیچھے کبھی نہیں دیکھا۔ یہی بس وہ لمحے تھے جنہوں نے علن فقیر کو علن فقئر بنا دیا۔
بعد میں علن فقیر ایسے ہی زعما کے مشورے پر بھٹ شاہ میں شاہ عبدالطیف کے فقیروں سے شاہ سائیں کی وائی اور کلام گانے کی “باقاعدہ تربیت” کیلئے جا کر رہا لیکن یہ تربیتی نظم وضبط اس فقیر اور سیلانی علن فقیر کی طبعیت کو زیادہ راس نہیں آیا۔
اسی لئے تو سندھی موسیقی و گائیکی کے مہدی حسن (کئی طرح ان سے بھی آگے نکلے) محمد یوسف کی علن فقیر سے تکرار اور نوک جھونک رہتی کہ وہ پہلا منگنہار ہے جو سر میں نہیں۔ نہ ہی وہ وائی اس طرح گا رہا لیکن یہ موسیقار نیاز حسین تھا جس نے علن فقیر کی وائی کی گائی کی سر اور تار یا تال درست کی۔ نیاز حسین سندھ کے دو بھائی فنکاروں مظہر اور ذوالفقار علی کے والد تھے۔
علن فقیر نے شاہ عبدالطیف کی وائی شاہ سائیں کے فقیروں کے روایتی انداز سے ہٹ کر اپنے ہی اور غیر روایتی لیکن دل پر جادو کرنے والی انداز میں گائی۔ بلکہ وہ پرکیف انداز میں گایا اور چھا گیا۔ علن فقیر کی آوز، گائیکی، انداز، شخصیت، لباس، فقیری نے آج فقط اور ایک علن فقیر ہی پیدا کیا تھا۔ اجرک کی رنگ برنگی اپنے مورپنکھ جیسی پگڑی کے علاوہ فقیری کے پورے لوازمات، کنٹھے، کولابے (کڑے) اور پتھروں کے نگینے والی انگوٹھیاں پہنی انگلیوں سے اس کا کشکول بجانے اور جھومر نما اس کے درویشی رقص نے علن فقیر کو کرشمہ جاتی فنکار بنا لیا۔ اسکی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے اسے سندھ میں شاہ لطیف کے عرس کے علاوہ بھی باقی درگاہوں، صوفیوں، پیروں اور فقیروں کے میلوں کے علاوہ سندھی طلبہ ادیبوں اور دانشوروں کی 1960 اور 70 کی دہائیوں میں منائی جانیوالی “سندھی شاموں”، “یوم لطیف ودیگر کانفرنسوں میں اور خاص طور سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کی سالگرہ کے اجتماعات کا بھی مستقل اہم فنکار بنا دیا۔
جی ایم سید اور سندھی قوم پرست نوجوانوں کے میلوں اور اجتماعات میں علن فقیر کی نمایاں اور گرمجوشی سے آئوبھگت کی جاتی۔ جی ایم سید سے اس کی ایک خاص قربت رہی۔ علن فقیر اگست 1972 میں جی ایم سید کے اس قافلے میں بھی شامل تھا جس نے لسانی فسادات کے وقت سندھ کا دورہ کیا تھا۔ جی ایم سید کی سربراہی میں اس قافلے میں ان کے جئے سندھ کے نوجوانوں کے علاوہ علن فقیر سمیت سندھی فنکار، ادیب، شاعر، دانشور اور مصور بھی شامل تھے۔ لیکن کئی کٹر سندھی قوم پرست علن فقیر پر اس وقت بہت ناراض ہوئے جب اس نے پاکستان ٹیلی وژن پر جمیل الدین عالی کا لکھا ہوا مشہور نغمہ “اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا” اپنے مخصوص انداز میں گایا تھا جو بہت مقبول ہوا تھا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا زمانہ تھا اور علن فقیر پاکستان ٹیلی وژن، سرکاری، ثقافتی، سفارتی تقریبات اور غیر ملکی دوروں میں فنکاروں کے طائفوں کا ضروری اور مانوس چہرہ اور نام بن گیا تھا۔ وہ علن فقیر ہوتے ہوئے بھی ایک سیلیبرٹی تھا۔
محکمہ ثقافت سندھ کے ممتاز مرزا اور حمید آخوند دو ایسے لوگ تھے جنہوں نے عملداروں سے زیادہ علن فقیر کے ساتھ غیر روایتی تعلق جوڑتے بیروم ممالک بھیجا اور ایک دنیا کو اس کے فن سے روشناس کروایا۔ شاید یہ سندھ کے وہی یگانہ روزگار فنکار ظفر کاظمی تھے (جو علن کے دودھ شریک بھائی رہے تھے) کے ہی توسط سے علن فقیر، ممتاز مرزا اور حمید آخوند سے ایک طرح کے ذاتی تعلق میں بھی آئے۔ علن فقیر اور ممتاز مرزا دونوں مجھے بتاتا کرتے کہ وہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔
ممتاز مرزا نے علن فقیر کے فن اور اس کی شخصیت پر ایک کتاب بھی اپنی مخصوص خوبصورت نثر میں لکھی ہے۔ علن فقیر نے شاہ عبدالطیف کی شاعری کے علاوہ سچل سرمست اور بھلے شاہ سمیت پنجابی اور سرائیکی صوفی شاعروں کا کلام بھی گایا۔ اس نے جب شیخ ایاز کی وائی “ ٹڑی پوندا ٹارئیں'' ( جب بم ملیں گے، شاخوں پر کھلیں گے سرخ پھول تب ملیں گے) گائی تو وہ اس کا ایک جدید شاہکار بن گئی اور آج تک بنی ہوئی ہے۔ یہ شیخ ایاز کی لکھی ہوئی وائی سے زیادہ علن فقیر کی گائی وائی کے طور پر مشہور ہے۔ جیسے فیض احمد کی نظم “ مجھ سے پہلی سے محبت میرے محبوب نہ مانگ” فیض سے زیادہ میڈم نورجہاں کے “گیت” کے طور پر مشہور ہے۔
غالباً علن فقیر نے سب سے پہلے شیخ ایاز کی یہ وائی سندھ کی جیجی (مادر) اور ام کلثوم کہلانے والی زرینہ بلوچ کیساتھ گائی تھی۔ علن فقیر کے ہی اس انداز میں میرے دوست مصدق سانول نے شیخ ایاز کی وائی کا پنجابی ترجمہ گایا ہے جو احمد سلیم نے کیا ہے:
“ٹہانیاں اتوں جس دینہہ کھلسن رتڑے سونہے پھل اس دینہہ ملسوں”
اسی طرح محمد علی شہکی کے ساتھ گایا ہوا علن فقیر کا دوسرا گیت “تیرے عشق جو بھی ڈوب گیا، اسے دنیا کی لہروں سی ڈرنا کیا” بھی امر ہے۔
شیخ ایاز جب سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے تو انہوں نے علن فقیر کی انسٹیٹیوٹ آف سندھیالوجی میں بطور سٹاف آرٹسٹ کے سولہویں گریڈ میں تقرری کی۔ لیکن شیخ ایاز کی وائس چانسلری ختم ہونے کے بعد نئی انتظامیہ نے علن فقیر کو گریڈ ایک یا ون میں بھیج دیا۔ علن فقیر کو کئی طریقوں سے تنگ کیا گیا۔ کبھی اس بنا پر اسے نوٹس دیا گیا کہ سرکاری رہائشی کوارٹر میں اس نے بھینسیں پالی اور باندھ رکھی ہیں۔ “بھینسیں تو بھاگوند ہیں۔ مجھے اور میرے بچے پالتی ہیں یہ کیا بات ہوئی“ ان دنوں علن فقیر نے مجھ سے اس کے اسی کوارٹر کے باہر بندھی بھینسیں دکھاتے کہا تھا۔
اس لاابالی لیکن پرکشش شخصیت رکھنے والے اہل دل فنکار کے متعلق کئی قصے مشہور ہیں۔ غالباً سنگاپور میں ایشیا ایڈورٹائزنگ کانفرنس میں شرکت کرنے والے وفد میں علن فقیر کیساتھ جانیوالی میری ایک ایڈیٹر نے مجھے بتایا تھا کہ کس طرح پرواز پر ایک خاتون فضائی میزبان کیلئے علن فقیر دلچسپی کا باعث بنا رہا تھا۔ علن فقیر بھی اس خاتون میزبان کو ہنساتا رہا تھا۔ علن فقیر نے اس خاتون میزبان کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ وہ ہتھیلی اس کی طرف بڑھائے اور آنکھیں بند کرے۔ علن نے اس خاتون میزبان کی ہتھیلی پر کوئی چیز رکھی جب خاتون میزبان نے آنکھیں کھولیں تو وہ علن کی نقلی بتیسی تھی۔ اس پر خاتون سمیت تمام مسافر بہت محظوظ ہوئے اور پھر علن نے اٹھ کر خاتون میزبان کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی بیٹی (سندھی میں اماں) کہہ کر پکارا۔
میں نے علن سے پوچھا تھا تو وہ دیر تک اس واقعے کو یاد کر کے ہنستا رہا اور کہا کہ ایسا ہی ہوا تھا۔ ممتاز مرزا علن فقیر کے بارے میں بتاتے تھے کہ وہ ایسے ہی ایک مشرق بعید کی پرواز پر اپنے پٹکے میں اپنے لئے افیون چھپا کر لے گیا تھا اور تمام چیکنگ سے نکل آیا تھا۔
لیکن سب سے معرکتہ آرا قصہ وہ ہے جب فوجی آمر ضیاء الحق جیسے زہد و پارسائی کے دعویدار نے خود علن کو دو عدد ڈیلکس اسکاچ وہسکی کے بوتلیں اور اجرک کا تحفہ دیا تھا۔
ہوا یوں تھا کہ گورنر ہائوس کراچی میں فوجی صدر ضیاء الحق کے اعزاز میں تقریب موسیقی تھی جس میں علن فقیر کو بھی پرفارم کرنا تھا۔ محکمہ ثقافت سندھ کے سیکرٹری حمید آخوند اور ممتاز مرزا نے باتوں کے دھنی علن فقیر کو سختی سے منع کیا ہوا تھا کہ یہاں کوئی” ڈرامہ” وغیرہ نہیں کرنا۔
نہ جانے کیسے اور کس وقت، کیا ہوا کہ سب نے دیکھا کہ علن فقیر اسی جگہ جا پہنچا جہاں جنرل ضیاء الحق محو گفتگو تھا۔ جنرل ضیا کے سامنے کھڑے ہو کر علن فقیر نے کہا” سر اگر پیٹرول نہیں ہوگا تو گاڑی کیسے چلے گی؟”
اس پر جنرل ضیاء الحق تو کچھ لمحے ہکابکا ہوگیا اور علن سے پوچھنے لگا “ کہاں ہے آپ کی گاڑی؟” تو علن نے اپنی مخصوص ادا سے کہا “ سر گاڑی میں خود ہوں”۔ اس پر ضیاء الحق، علن فقیر کو لیکچر دینے لگے کہ “ دیکھو تمہارے جیسا فنکار خود کو نشے میں کیوں ضائع کر رہا ہے اور تم قوم کے اثاثے ہو وغیرہ وغیرہ”۔ تاہم جنرل ضیا نے اپنے سیکرٹری کو اشارہ کیا کہ علن کے مسئلے کو دیکھا جائے۔ جس پر علن فقیر کو دو عدد ڈیلکس اسکاچ وہسکی کی بوتلیں اجرک کیساتھ تحفے میں ملیں۔
علن فقیر نے ایم کیو ایم کے گڑھ نائن زیرو پر جا کر بھی پرفارم کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ تو فنکار اور فقیر ہے، کہیں جا سکتا ہے کہیں بھی گا سکتا ہے۔
آخری دنوں میں علن فقیر کے گلے میں کافی خرابی پیدا ہو چکی تھی۔ مجھے ممتاز مرزا نے بتایا تھا کہ وہ افیون کے علاوہ اب بکثرت شراب نوشی وہ بھی دیسی کر رہا ہے۔ علن فقیر کی صحت تیزی سے گرنے لگی۔ لیکن وہ فنکار تھا اور فنکاروں کی ایک اپنی طرز زندگی ہوا کرتی ہے۔
ممتاز مرزا جسے میں سندھ کی موسیقی وسماجیات کو اپنی انگلیوں کے پوروں پر جاننے کی وجہ سے سندھیالوجسٹ کہتا تھا، جنوری 1997 میں فوت ہو گیا۔ ممتاز مرزا کے فوت ہونے کے بعد علن فقیر بھی زیادہ برس زندہ نہیں رہ سکا۔ وہ جولائی 2004ء میں لیاقت نیشنل ہسپتال کراچی میں بستر علالت پر اس جہانِ رنگ وبو سے کوچ کر گیا۔