بھکاریوں کو فقیر نہ کہیے‎

بھکاریوں کو فقیر نہ کہیے‎
ہم انسان کس قدر غیر متوقع تخلیق خدا ہیں۔ سفاکی پر آ جائیں تو پوری کی پوری تہذیبیں اجاڑنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ ماؤں کے لخت جگر چھین لیتے ہیں۔ آل رسول ﷺ کو پانی کے دو گھونٹ نہیں دیتے۔ بادشاہوں کو گدا بنا دیتے ہیں۔ لیکن، یہ ہم ہی انسان ہیں جو فلاحی ادارے بھی چلاتے ہیں۔ کوڑھ کے مریضوں کے لئے اپنا وطن چھوڑ کر تیسری دنیا میں آ بستے ہیں۔ عیش و عشرت کو غریبوں کی خاطر خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ ہم اُس طرف پر بھی انتہا پر چلتے ہیں اور اِس طرف بھی انتہا کی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔

ہماری ان انتہا پرستیوں کا ہمیں یا معاشرے کو کیا فائدہ ہوتا ہے، اس بحث کو مستقبل کے لیے اٹھا رکھتے ہیں اور فی الحال ان موقع پرستوں کی بات کر لیتے ہیں جو ہماری رحم دلی کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔

ہم ان مانگنے والوں کی بات کر رہے ہیں جو سگنلز، گلیوں، بازاروں، دوکانوں، گاڑیوں، ٹرینوں، عبادت گاہوں اور دیگر جگہوں پر ہمارے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان میں اکثر کسی نہ کسی جسمانی بیماری کا بظاہر شکار ہوتے ہیں۔ کچھ کا دماغی توازن خراب ہوتا ہے، کچھ کہانیاں لے کر آتے ہیں، کچھ لوگ دوائیوں کے پرچے تھامے ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔

پھر ایک ایسی قوم بھی ہے جو مساجد اور مدارس کے نام پر چندہ وصول کرتی ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان بلکہ خلیجی ممالک میں بھی بھیک مانگتے ہیں۔ انہیں حیدرآباد سندھ میں تو بائیس خاندانی کہا جاتا ہے۔ البتہ باقی صوبوں میں انہیں مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔ چند ایک کردار اور بھی دلچسپ ہوتے ہیں۔ جو مہذب اور مودب ہوتے ہیں۔ ان کا لباس بھی مناسب ہوتا ہے۔ ان کو دیکھ کر یہی تاثر ابھرتا ہے اور وہ خود بھی یہی تاثر دیتے ہیں کہ وہ حال ہی میں کسی حادثے کا شکار ہو کر اس حال میں پہنچے ہیں۔ ان مانگنے والوں کے دوائیوں کے نسخے بھی جعلی، ان کے مدارس کی رسیدیں بھی جعلی، جسمانی معذوری قصداً اپنائی ہوئی، ان کی کہانیاں بھی سر اور پیر کے بغیر۔ ان سب میں ایک قدر جو مشترک ہے وہ یہ کہ انہیں کام کی پیشکش کرو تو یہ غائب ہو جاتے ہیں۔

بلا شبہ ہم دنیا میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے تو ہی معاشرہ صحت مند بنے گا لیکن سانپ کو دودھ پلانے سے کسی کو کوئی فائدہ شاید ہی کبھی ہوا ہو۔ یہ لوگ نہ تو مستحق ہیں، نہ ضرورت مند۔ یہ پیشہ ور ہیں۔ یہ معاشرے کا وہ ناسور ہیں جو خود تو کام چور ہے ہی، ساتھ ہی کئی لوگوں کو آسان رزق کمانے کی طرف مائل کرتے ہیں۔ آپ اپنے بچپن سے اب تک کے مشاہدے کو سامنے رکھ لیجیے اور فیصلہ کیجیے۔ آپ کے گھر اور دفتر کے پاس والے سگنل پر بھکاریوں کی تعداد کم ہوئی ہے یا زیادہ؟

حکومت کو بھی چاہیے کہ ان مانگنے والوں کے خلاف کارروائیاں کی جائیں۔ ان کے پاس موجود ڈاکٹروں کے نسخے، مسجدوں کے نقشے اور دیگر چیزوں کا جائزہ لیں اور انہیں وہ تمام دستاویزات اور نسخہ جات دینے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے تاکہ معاشرے کا یہ ناسور ختم ہو نہ ہو، کم از کم پنپ نہ سکے۔ اور خدارا، ان گداگروں اور بھکاریوں کو فقیر نہ کہیں، ان میں فقر ہوتا تو یہ ایسے نہ ہوتے۔

کنور نعیم ایک صحافی ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پر Kanwar_naeem او فیس بک پر KanwarnaeemPodcasts پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔