Get Alerts

آرمی ترمیمی ایکٹ بل قومی اسمبلی سے منظور،”سویلین بالادستی کا نعرہ محض نظر کا دھوکا اور موقع پرستی تھی“

آرمی ترمیمی ایکٹ بل قومی اسمبلی سے منظور،”سویلین بالادستی کا نعرہ محض نظر کا دھوکا اور موقع پرستی تھی“

 قومی اسمبلی میں پاک آرمی، بحریہ اور فضائیہ کے ایکٹس میں ترمیمی بلوں کو کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا جس کے بعد بل کو سینیٹ میں بھی پیش کردیا گیا۔


اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم عمران خان بھی شریک ہوئے۔  اس فیصلے پر سوشل میڈیا پر تنقید کی گئی، طلحہ غوری نے لکھا کہ ووٹ کو عزت دو تحریک کا سفر، بوٹ کو عزت دو پر احتتام پذیر ہوگیا۔


https://twitter.com/TalhaGhouri786/status/1214443598697127938?s=20

عمران وسیم نےلکھا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری کےبعد اکثر رہنماؤں نے پوچھا کہ ووٹ کو عزت دو سویلین بالادستی کا بیانہ کدھر گیا تو خواجہ آصف نے کہا کہ شہبازشریف آ کربتائیں گے بیانیہ کدھرہے آج خواجہ آصف کے الفاظ انہی کیلئے دہرانے کو دل کررہا ہے کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے.

https://twitter.com/imwasim19/status/1214497451761131522?s=20

صحرا نورد نے لکھا کہ جو سیاسی جماعت ووٹ اور ووٹرز کو عزت نہ دے ایسی جماعت کےلئے اپنی توانائیاں،محنت ضایع نہ کریں اور اپنی جانیں خطرے میں نہ ڈالیں.

https://twitter.com/Aadiiroy/status/1214489947576700928?s=20

عاصمہ شیرازی نے لکھا کہ "سویلین بالادستی کا نعرہ محض نظر کا دھوکا اور موقع پرستی تھی۔ اچھا ہوا چند لوگ تو پہچانے گئے۔"

جرمنی کی چڑیا نامی ٹویٹر اکاونٹ سے لکھا گیا کہ محسن داوڑ علی وزیر اور مٹھی بھرمخالفت کرنے والے تمام لوگ تاریخ کی کتابوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے کیونکہ آج انہوں نے اک جابرحکمراں کے سامنے کلمہ حق اور بغاوت کا پرچم بلند کیا اورحمایت میں ووٹ دینے والےہمیشہ کیلئے دفن ہوگئے، ووٹ کو عزت بیانیہ والے ظالم گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا۔ 

https://twitter.com/Sparrow990/status/1214504924597411850?s=20

https://twitter.com/arshad_Geo/status/1214449120011792384?s=20

قومی اسمبلی نے سروسز ایکٹ 1952ء میں ترمیم کا بل کثرت رائے سے منظور کیا، اس موقع پر وزیراعظم عمران خان بھی ایوان میں موجود تھے۔

آرمی، نیوی، فضائیہ کے ایکٹس میں ترامیم کی شق وار منظوری لی گئی۔


بل کی مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی نے حمایت کی جبکہ اس موقع پر جماعت اسلامی، جے یو آئی ف اور قبائلی اضلاع کے اراکین نے آرمی ترمیمی ایکٹ کی مخالفت کرتے ہوئے اسمبلی سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔

اسپیکر اسد قیصر کی زیرِ صدارت ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس بل کی منظوری کے بعد کل شام 4 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ وزیرِ دفاع پرویز خٹک کی درخواست پر پیپلز پارٹی نے ترامیم سے متعلق اپنی سفارشات واپس لے لیں۔

نوید قمر نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے ملکی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ترامیم واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد وزیرِ دفاع نے سروسز ایکٹ ترمیمی بل ایوان میں پیش کرنے کی تحریک پیش کی۔

آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020 کیا ہے؟

یکم جنوری کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں آرمی ایکٹ میں ترامیم کی منظوری دی گئی تھی۔

وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020 کی منظوری دی جس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت اور توسیع کا طریقہ کار وضع کیاگیا ہے۔

آرمی ایکٹ ترمیمی بل میں ایک نئے چیپٹرکا اضافہ کیا گیا ہے، اس نئے چیپٹر کو آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تعیناتی کا نام دیا گیا ہے۔

اس بل میں آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت تین سال مقررکی گئی ہے جب کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت پوری ہونے پر انہیں تین سال کی توسیع دی جا سکے گی۔

ترمیمی بل کے مطابق وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی مفاد اور ہنگامی صورتحال کا تعین کیا جائے گا، آرمی چیف کی نئی تعیناتی یا توسیع وزیراعظم کی مشاورت پر صدر کریں گے۔

'دوبارہ تعیناتی یا توسیع عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی'

ترمیمی بل کے تحت آرمی چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا توسیع عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی اور نہ ہی ریٹائر ہونے کی عمر کا اطلاق آرمی چیف پر ہوگا۔

علاوہ ازیں ترمیمی بل کے مطابق پاک فوج، ائیر فورس یا نیوی سے تین سال کے لیے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا تعین کیا جائے گا جن کی تعیناتی وزیراعظم کی مشاورت سے صدر کریں گے۔

ترمیمی بل کے مطابق اگر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی پاک فوج سے ہوا تو بھی اسی قانون کا اطلاق ہو گا، ساتھ ہی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کو بھی تین سال کی توسیع دی جاسکے گی۔

واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 28 نومبر 2019 کی رات 12 بجے مکمل ہورہی تھی اور وفاقی حکومت نے 19 اگست کو جاری نوٹیفکیشن کے ذریعے انہیں3 سال کی نئی مدت کے لیے آرمی چیف مقرر کردیا تھا جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے گذشتہ سال 28 نومبر کو آرمی چیف کی مدت ملازمت کیس کی سماعت کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو اس حوالے سے قانون سازی کرنے کا حکم دیا تھا۔