1953 میں ڈائریکٹر سہراب مودی نے فلم جھانسی کی رانی بنائی۔ یہ فلم 1857 کی جنگِ آزادی کی ایک اہم کردار لکشمی بائی پر بنائی گئی تھی۔ فلم میں ایک موقع وہ بھی آتا ہے جب برطانوی افواج کی توپوں سے لکشمی بائی کے قلعے پر گولہ باری جاری ہوتی ہے تو لکشمی بائی اپنے جنرل غوث خان سے پوچھتی ہیں کہ ان کی جانب سے جواب کیوں نہیں دیا جا رہا۔ غوث خان انہیں بتاتے ہیں کہ برطانوی فوج ایک مندر کے پیچھے کھڑی ہے اور گولہ باری کی صورت میں مندر کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لکشمی بائی حکم دیتی ہیں کہ گولہ باری شروع کی جائے، اور خود مندر کے لئے دعا کرنے لگتی ہیں۔ ان کی دعا قبول ہوتی ہے اور ان کے قلعے سے کی گئی گولہ باری سے مندر کو آنچ بھی نہیں آنے پاتی۔
2019 میں اسی موضوع پر بنائی گئی فلم منی کارنیکا میں لکشمی بائی کا کردار کنگنا رناؤت ادا کر رہی ہیں۔ لیکن اس فلم میں کنگنا گولہ باری کی پروا نہ کرتے ہوئے گھڑ سواروں کی ایک پارٹی کے ساتھ خود گھوڑے پر سوار ہو کر برطانوی فوج کے توپ خانے کی طرف مارچ کرتی ہیں۔ حیرت انگیز طور پر اتنی شدید گولہ باری کے باوجود ان کو ایک خراش بھی نہیں آتی اور وہ خود دشمن کے توپ خانے کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کر ڈالتی ہیں۔
مندر کو تو دونوں ہی فلموں میں خاصے ڈرامائی انداز میں بچا لیا گیا لیکن منی کارنیکا میں فلمائے گئے سین میں بہادری اور جسمانی طاقت کا ایک مضحکہ خیز امتزاج اس کارنامے کو سرانجام دینے میں کامیاب ہوا۔
تیلگو فلم باہو بلی اور اس فلم کے سیکوئل کے بعد سے بھارتی سنیما میں تاریخی واقعات پر مبنی فلموں کی بھرمار ہو گئی ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں باجی راؤ مستانی، راگ دیش، پدماوت، کیسری اور دیگر ایسی کئی فلموں نے سنیما گھروں میں خوب رونق لگائی ہے۔ لیکن ان تمام فلموں میں تاریخ کے ساتھ ایک عجیب و غریب قسم کا کھلواڑ کیا گیا ہے۔ جہاں مودی کے ہندوستان میں ہندوتوا وادی دندناتے پھر رہے ہیں، فلم انڈسٹری میں بھی یہی رجحان پنپ رہا ہے جس کے ذریعے مسلمانوں کو انتہائی ظالم اور وحشی انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔
مثلاً اکشے کمار کی فلم کیسری کو دیکھ لیجئے۔ اس فلم میں اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں واقع ایک جگہ سارھاگڑھی کے ایک قلعے میں موجود 21 سکھ فوجیوں کی قیادت کرتے اکشے کمار آفریدی اور اورکزئی قبائل سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ جنگ 1897 میں لڑی گئی تھی اور اس وقت شمال مغربی سرحدی صوبہ ہندوستان ہی کا حصہ تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ آفریدی اور اورکزئی قبائل دراصل جن سکھوں سے لڑ رہے ہیں، وہ انگریز فوج کے سپاہی ہیں۔ لیکن اس فلم میں انگریز فوج کے سکھ سپاہیوں کو ہیرو اور ان کے خلاف لڑتے ہندوستانی پشتونوں کو دشمن دکھایا گیا ہے۔ واقعات کی اس قسم کی عکاسی صرف اور صرف اسی صورت میں درست کہی جا سکتی ہے جب فلم بنانے والوں کا اصل مقصد مسلمانوں کو دشمن دکھانا ہو۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ نیا رجحان ہندوستانی سنیما کی ماضی کی اپروچ سے مکمل برأت کا عکاس ہے۔ ماضی میں ہمیشہ سے ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں کو مل کر انگریز سرکار کے خلاف لڑتا دکھایا جاتا تھا۔ اور آج یہ حال ہے کہ محض اس نیت سے حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان کا دشمن بنا کر پیش کیا جا سکے۔ واضح رہے کہ ہندوستان میں آج بھی مسلمان کروڑوں کی تعداد میں آباد ہیں۔
ایک اور فلم پدماوت ہے۔ اس میں علاء الدین خلجی کو ولن دکھایا گیا ہے، لیکن یہ ولن ایسا وحشی اور بدکردار شخص ہے کہ محض ایک راجپوت رانی کو حاصل کرنے کی خاطر پورے آٹھ ماہ ایک قلعے کا محاصرہ جاری رکھتا ہے۔ خلجی کا کردار ایک دیوانے انسان کا کردار ہے جو شوقیہ لوگوں پر مظالم ڈھاتا ہے اور خواتین کی عزتیں لوٹتا ہے۔
اس فہرست میں تازہ ترین اضافہ فلم پانی پت کا ہے جس میں سنجے دت افغان بادشاہ احمد شاہ ابدالی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ 1761 میں پانی پت کے مقام پر لڑی گئی اس جنگ میں احمد شاہ ابدالی نے مراٹھا فوج کو شکست دی تھی۔ لیکن فلم کا مکمل نام Panipat – The Great Betrayal ہے، یعنی ایک عظیم دھوکہ۔ فلم میں ایک مرتبہ پھر افغانوں کو وحشی اور دوغلا دکھایا گیا ہے۔ اس جنگ کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ مراٹھوں کی شکست کی وجہ سے انگریزوں کے مقابلے میں پورے ہندوستان میں کوئی قابلِ ذکر فوج نہ رہی جس کے باعث ہندوستان پر اگلے دو سو سال انگریزوں کا قبضہ برقرار رہا۔ یہی پیغام اس فلم میں بھی دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ احمد شاہ ابدالی بھی کسی بھی دوسرے بادشاہ کی طرح ہی ایک بادشاہ تھا جس نے اپنی سلطنت کو بڑھانے کے لئے ہندوستان پر حملہ کیا، اور فاتح ٹھہرا۔ انگریزوں کو اس کی فتح سے اگر کوئی فائدہ ہوا بھی تو اس میں احمد شاہ ابدالی کا کوئی قصور نہیں۔ اس کی نیت انگریزوں کے لئے راستہ صاف کرنے کی نہیں بلکہ اپنی سلطنت کو وسعت دینے کی تھی، اور آج سے 250 برس پہلے کی دنیا اسی طرح operate کرتی تھی جیسے احمد شاہ ابدالی کر رہا تھا۔
یہ بھی بھولنا نہیں چاہیے کہ کئی دہائیوں بعد احمد شاہ ابدالی کے اپنے ملک افغانستان پر بھی انگریزوں نے قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام ٹھہرے اور ہزاروں کی تعداد میں اپنے سپاہی گنوا کر انتہائی کسمپرسی کی حالت میں واپس ہندوستان پہنچے۔
لیکن 250 سال پہلے ہوئی اس جنگ کا آج کے واقعات سے کیا تعلق ہے؟
تعلق یہ ہے کہ جنوری 2019 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینیئر رہنما اور اس وقت کے وزیرِ داخلہ، امیت شاہ نے 2019 انتخابات کو پانی پت کی لڑائی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ مراٹھوں نے 131 جنگیں جیتیں لیکن وہ اصل جنگ ہار گئے جس کی وجہ سے ہندوستان اگلے 200 سال کے لئے انگریزوں کی غلامی میں چلا گیا۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ امیت شاہ نے اسی تقریر کے دوران بابری مسجد کی جگہ نیا مندر بنانے کا اعلان بھی کیا تھا، اور عجیب اتفاق ہے کہ پانی پت ریلیز بھی 6 دسمبر کو ہوئی۔ جی ہاں، اسی تاریخ کو کہ جس پر 27 برس قبل ایودھیہ میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا۔
تاریخ کے ساتھ یہ مذاق آخر کیوں؟ وجہ صاف ظاہر ہے۔ جس طرح سے کشمیر کی خودمختار حیثیت پر ڈاکہ ڈالا گیا، اور جس انداز میں شہریت کا متنازع قانون بی جے پی حکومت نے بنایا ہے، جس کے تحت مسلمانوں کے علاوہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے، یہ سب واضح کرتا ہے کہ بی جے پی حکومت اپنا اسلام دشمن ایجنڈا پورے بھارت پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔ بھارت میں جگہ جگہ مظاہرے ضرور کیے جا رہے ہیں لیکن اگر ہندوستانی عوام اور سول سوسائٹی آج ہندوتوا کے آگے سرنڈر کر گئے تو ہندوستانی سیکولر ازم کے خلاف جاری تاریخ کو مسخ کر کے Hinduize کرنے کی یہ مہم ہندوستان کے تاریخی تنوع اور اجتماعیت پر مبنی تشخص کو بہا لے جائے گی۔