بے حس ریاست کا نوحہ: جہاں رعایا کے گلے کٹ رہے ہیں، سلطان ٹویٹ پر میتیں دفنانے کا مشورہ دے رہے ہیں

بے حس ریاست کا نوحہ: جہاں رعایا کے گلے کٹ رہے ہیں، سلطان ٹویٹ پر میتیں دفنانے کا مشورہ دے رہے ہیں


یہ کیسی بے حس ریاست ہے جس میں ایک برادری کے گیارہ لوگوں کو صرف مسلک کی بنیاد پر اغواء کرنے بعد بیدردی سے ذبح کردیا جاتا ہے اور ان کے لواحقین چار روز سے اتنی سخت سردی میں ان کی میتیں سڑک پر رکھ کر بیٹھے ہیں اور ایک ہی فریاد کررہے ہیں کہ اس ریاست کے وزیراعظم آکر ان کو ایک دلاسہ دے جائیں کہ ان کو انصاف ملے گا. ان کے ساتھ آئندہ ایسا نہیں کیا جائے گا. مگر شاید کوئٹہ اسلام آباد سے بہت دور ہے اور ہمارے وزیراعظم صاحب ریاست کے معاملات میں اتنے مصروف ہیں کہ وہ وہاں ان بد نصیبوں کی دل جوئی کےلیے تشریف نہیں لے جاسکتے. 


بلکہ انہوں نے اپنے ان مشیران کو بھیجا جن کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ وہ وہاں جا کر پوچھ رہے ہیں کہ اگر وزیر اعظم صاحب آجاتے ہیں تو وہ ان کو کیا فائدہ دے دیں گے؟ یا ایسے واقعات تو کہیں بھی ہوسکتے ہیں. تو ہر جگہ تو وزیراعظم صاحب نہیں جاسکتے. پھر ایک صاحب وہاں جا کر وہی بیرونی سازش کا راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں. کیسی بے حسی ہے، کیسی لا تعلقی ہے کہ وہ وزیر اعظم صاحب جب اپوزیشن میں تھے تو اس طرح کا کوئی واقعہ ہونے پر وہاں پہنچ جاتے تھے اور اس وقت کے وزیراعظم اور صدر کے استعفیٰ کا مطالبہ کس قدر زور دار طریقے سے کرتے تھے.


 یہی نہیں اسی طرح کے ہزارہ برادری کے ساتھ ہونے والے ایک سانحہ پر 2013 انہوں نے فرمایا تھا کہ یہ لشکر جھنگوی کی ایک بزدلانہ حرکت ہے۔  اور سوال پوچھا تھا کہ ریاست کہاں ہے؟ تو وزیراعظم صاحب آج یہی سوال آپ سے ہے کہ آپ کو اسی ریاست کے بدنصیب باسی فریاد کررہے ہیں مگر آپ کہاں ہیں؟ ہم نے مانا کہ آپ نے اقتدار میں آنے سے پہلے جو بھی وعدے کیے تھے یا جو باتیں کی تھیں، اقتدار میں آنے کے بعد آپ ان سے مکر گئے ہیں۔ اور اس کو یو ٹرن کہنے کی بجائے آپ ایک لیڈر کی خوبی گردانتے ہیں۔ وزیراعظم صاحب ہمیں آپ کے ہر یو ٹرن قبول ہیں مگر خدا را معصوم لوگوں کی زندگیاں جانے پر تو آپ یو ٹرن نہ لیں۔


 اس پر تو وہی رائے رکھ لیں۔ جو اقتدار میں آنے سے پہلے رکھتے تھے۔ کیا آپ کو اس بے بس ماں کی دہائی نظر نہیں آرہی؟ جس کا ایک اٹھارہ سال کا لخت جگر  بیدردی سے قتل کردیا گیا۔ جو کہ ایک ہونہار طالب علم بھی تھا۔ لیکن گھر والوں کی مدد کرنے کےلیے مزدوری کررہا تھا۔ کیا آپ کو اس بیٹی کی آہیں سنائی نہیں دے رہی ہیں جس کے بھائی، کزن اور بھانجے کو بھی بیدردی سے ذبح کردیا گیا۔  کیا آپ اس چھ بہنوں کے غم سے بھی آشنا نہیں ہیں جن کے گھر میں جنازہ اٹھانے کےلیے ایک بھی مرد نہیں بچا۔


 لیکن شاید  لگتا ایسے ہے کہ آپ پر اس بے حس ریاست کا رنگ چڑھ گیا ہے۔ جسے نہ تو کبھی غائب ہونے والے بلوچ اور پھر ان کی ملنے والی مسخ شدہ لاشیں نظر آتی ہیں اور نہ ہی یہ بار بار نشانہ بننے والے یہ بد نصیب ہزارہ نظر آتے ہیں۔ نہ ہی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے پشتونوں پر اس اندھی ریاست کی نظر پڑتی ہے۔ ہاں بس ایک راگ اس ظالم ریاست کو الاپنا ضرور آتا ہے کہ یہ سب بیرونی سازش تھی۔ اور ان سب مظالم پر آواز اٹھانے والے اس ریاست کو غدار لگتے ہیں۔


 وزیراعظم صاحب لگتا ہے کہ آپ ہر وقت جس ایک پیج کی بات کرتے ہیں تو اس معاملے میں بھی ریاست کے مقتدرہ حلقوں کی طرف سے آپ کو جو پیج پڑھادیا گیا ہے آپ اب اسی کی زبان بول رہے ہیں۔ تبھی شاید جو دہشت گردی کی کارروائی آپ کو کبھی کسی ایک خاص گروہ کی طرف سے کی گئی لگتی تھی، اب اسے آپ بھارتی سازش قرار دے رہے ہیں بلکہ اس ظلم کا شکار ہونے والوں کو مشورہ بھی دے رہے ہیں کہ وہ دشمن کی اس سازش کا حصہ نہ بنیں۔ 


مولا آپ کا یہ ایک پیج سلامت رکھے۔ آپ اس کو تھام کر رکھیں۔ اور اپنے سیاسی مخالفین کو گالیاں دیتے رہیں۔ انٹرویوز دیتے رہیں، ٹویٹس کرتے رہیں۔ اپنے کتوں کو کھانا کھلاتے رہیں اور عوام کو جھوٹی خوش خبریاں سناتے رہیں۔ جہاں تک ان بد نصیب ماوں، بہنوں، اور بیٹوں کی بات ہے تو وہ تو آج نہیں تو کل اپنے پیاروں کو دفنا ہی دیں گے اور اگلے ظلم کا نشانہ بننے کےلیے تیار ہوجائیں گے۔ مگر ہم جیسے کچھ لوگ ضرور ان کےلیے آواز اٹھاتے رہیں گے۔ ہم تب تک اس بے حس ریاست کا یہ نوحہ لکھتے رہیں گے، جب تک اس ریاست کی بے حسی ختم نہیں ہوجاتی اور  جب تک یہاں ایسے سب مظالم ہونا بند نہیں ہوجاتے۔

مصنف جامعہ پنجاب سے ابلاغیات میں ماسٹرز کر چکے ہیں، سیکولرازم کے حامی اور سیاست، ادب اور موسیقی سے شغف رکھتے ہیں۔