ہزارہ شیعہ کون ہیں؟ تاریخ، نژاد اور مذہب

ہزارہ شیعہ کون ہیں؟ تاریخ، نژاد اور مذہب
ہزارہ افغانستان کی آبادی کا پندرہ فیصد ہیں۔ ان کا آبائی علاقہ کابل کے مغرب میں کوہِ ہندوکش کے دامن میں واقع ہے جسے ” ہزارہ جات“ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کابل اور کوئٹہ میں ہزارہ لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں۔ دنیا میں ہزارہ کی آبادی کا تخمینہ ساٹھ لاکھ نفوس تک لگایا گیا ہے جن میں سے اندازاً چالیس لاکھ افغانستان اور دس لاکھ پاکستان میں رہتے ہیں۔ ہزارہ کی زبان ہزارگی کہلاتی ہے جو فارسی کا ایک مشرقی لہجہ ہے جس میں ترک زبان کے اثرات بھی شامل ہیں۔ ہزارہ جینیاتی اعتبار سے چین کے صوبے سنکیانگ میں رہنے والے ایغور نسل کے لوگوں سے ملتے ہیں۔ ہزارہ مذہبی اعتبار سے شیعہ امامیہ مسلمان ہیں البتہ ان میں بہت کم تعداد شیعہ اسماعیلی اور سنی حنفی مسلک کی پیروی بھی کرتی ہے۔ عراق کے شہر نجف اشرف میں موجود چار شیعہ مراجع میں سے ایک، آیت الله اسحاق فیاض کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے۔ ہزارہ تعلیم پر خصوصی توجہ دیتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کی شرح خواندگی کافی بہتر ہے۔ صنفی مساوات کے اعتبار سے ہزارہ اس خطے کی دوسری اقوام کی نسبت بہت روشن خیال ہیں۔ ہزارہ خواتین زندگی کے ہر شعبے میں فعال کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

تاریخی ورثہ

لکھی ہوئی تاریخ میں وسطی ایشیا میں ہونے والے واقعات کا ذکر 1300 قبلِ مسیح میں ملتا ہے جب ترکمانستان کے علاقے سے آریائی قبائل موجودہ ایران میں داخل ہونا شروع ہوئے اور 700 قبلِ مسیح تک یہاں اپنی حکومت قائم کر لی۔ تب سینثیائی، جو ہندی فارسی زبانیں بولتے تھے، شمال کی طرف بڑھے اور وسطی ایشیا میں پھیل گئے۔ 530 قبل مسیح میں کورُوش (دوسرے نام: سائرس، ذوالقرنین) نے موجودہ ایران و عراق میں ہخامنشی سلطنت قائم کی اور موجودہ افغانستان اور پاکستان کو اس کے بیٹے دارا نے فتح کر کے ساتھ ملا لیا۔ گندھارا تہذیب کا علاقہ ہخامنشی سلطنت کا بیسواں صوبہ تھا۔ 330 قبلِ مسیح میں سکندرِ اعظم نے ہخامنشی سلطنت کو مکمل طور پر فتح کر کے سلطنتِ مقدونیہ کا حصہ بنا لیا۔ اس کے بعد اس نے ہندوستان پر حملوں کا آغاز موجودہ پنجاب سے کیا جہاں اس کا مقابلہ راجہ پورس نے کیا۔ راجہ پورس کے ہاتھوں شکست یا اپنے لشکر میں بغاوت کے بعد سکندر نے واپسی کی راہ لی۔ سکندر یورپ اور ایشیا میں ثقافتی اور معاشی تعلقات بڑھانا چاہتا تھا، چنانچہ اس نے اپنی فتوحات کے دوران مصر سے پنجاب تک کئی بستیاں بنا کر یونانیوں کو بسایا۔ سکندر کی موت کے بعد معروف سیاسی مفکر کوٹلیا چانکیا کے شاگرد چندر گپت موریا نے شمالی ہندوستان میں موریا سلطنت کی بنیاد رکھی اور دریائے سندھ تک کا علاقہ فتح کر لیا(1)۔ 303 قبل مسیح میں شہنشاہ موریا کے یونانیوں سے کئے جانے والے جنگ بندی کے معاہدے کے تحت 500 ہاتھیوں کے عوض موجودہ پاکستان اور مشرقی افغانستان کا علاقہ موریا سلطنت کا حصہ بن گیا(2) جب کہ وسطی ایشیا کا علاقہ یونانیوں کے پاس رہا۔ 250 قبلِ مسیح میں ہزارہ جات کے یونانی گورنر تھیوڈوٹس نے سلطنتِ مقدونیہ سے بغاوت کر کے سلطنتِ باکتریا کی بنیاد رکھی۔ یہ سلطنت کوہِ ہندو کش کے شمال میں موجودہ افغانستان، تاجکستان اور ازبکستان کے سنگم پر قائم ہوئی۔ قدیم رومن مورخ جستونوس کے الفاظ میں:

Latin: “Eodem tempore etiam Theodotus, mille urbium Bactrianarum praefectus, defecit regemque se appellari iussit, quod exemplum secuti totius Orientis populi a Macedonibus defecere”.


English: “Diodotus, the governor of the thousand cities of Bactria, defected and proclaimed himself king. All the other people of the Orient followed his example and seceded from Macedonians”.


”باکتریا کے ہزار ستان کے گورنر تھیوڈوٹس نے بغاوت کر کے خود کو سلطان قرار دیا۔ اس کے بعد مشرق کے باقی لوگوں نے بھی مقدونیوں سے آزادی اختیار کر لی“(3)۔

تیسری صدی قبلِ مسیح کے اوائل میں وسطی ایشیا کے خانہ بدوش گڈریوں کے سلطنتِ باکتریا پر حملے نے یونانی دور کا خاتمہ کر دیا(4)۔ یہ قبائل آگے بڑھتے ہوئے موجودہ چین کے مغربی علاقوں تک پہنچ گئے۔ 221 قبلِ مسیح میں سلطنتِ چین کے قیام کے بعد شاہراہ ریشم پر چین سے یورپ تک ریشمی کپڑے اور دیگر اجناس کی تجارت ہونے لگی، اس طرح ہزارہ جات کا علاقہ چینی تاجروں اور سیاحوں کی گزرگاہ بن گیا۔ اس کا مطلب تھا کہ نہ صرف تجارت کا مال یہاں آنے لگا بلکہ قافلے اپنے ساتھ روم سے چین تک کے افکار بھی لائے۔ دیوارِ چین کی تعمیر کے نتیجے میں دوسری صدی قبلِ مسیح میں مشرق سے پانچ خانہ بدوش ترک قبائل نے ہجرت کر کے موجودہ افغانستان کے شمال میں سکونت اختیار کی۔ ان قبائل میں سے کوشان قبیلہ سب سے بڑا تھا اور پہلی صدی عیسوی میں اس نے سلطنتِ کوشان قائم کی جس کی سرحدیں دوسری صدی عیسوی تک پھیل کر شمالی ہندوستان اور کاشغر سے موجودہ ایران اور بحیرۂ خَزر تک پہنچ گئیں(5)۔ 226 عیسوی میں اردشیر نے ایران میں ساسانی سلطنت قائم کی۔ اس کے بیٹے شاپور نے موجودہ افغانستان اور پاکستان کا دریائے سندھ تک کا علاقہ فتح کر لیا۔ اسی دوران شمالی ہندوستان میں گپتا سلطنت قائم ہوئی جس نے برہمن تہذیب کو عروج بخشا(6)۔ ساسانی سلطنت کی توجہ شروع سے ہی اپنی مغربی سرحد پر رومی سلطنت کے ساتھ مسابقت پر مرکوز رہی اور مشرقی علاقوں میں مختلف نیم آزاد ریاستیں قائم ہوئیں، جن میں بامیان کی ریاست بھی تھی۔ پانچویں صدی عیسوی میں شمال مشرق سے تاتاروں نے حملے شروع کیے۔ انہوں نے اپنی مہم کے آغاز میں ہی باکتریا پر حملہ کر کے کوشان اقتدار کا مکمل خاتمہ کر دیا اور شمالی ہندوستان میں گپتا سلطنت کو توڑ دیا(7)۔ تاتاروں نے کاشغر سے سیستان اور پنجاب تک کے علاقے سے تیس کے قریب نیم آزاد سلطنتوں کو ختم کر کے یہاں پر سو سال تک حکومت کی۔ 565 میں ساسانی فوج نے ترک قبائل کے ساتھ مل کر فیصلہ کن حملہ کیا اور تاتاروں کو اپنی سلطنت کا تابعدار بنا لیا(8)۔

632 میں بامیان سے گزرنے والے چینی زائرو موٴرخ ہیون سانگ (Xuan Zang) کے مطابق یہاں کی زبان کا رسم الخط باکتریا کے دوسرے علاقوں (بلخ ، بخارا، وغیرہ) جیسا تھا اور یہ لوگ جسمانی لحاظ سے بھی اُن لوگوں سے ملتے جلتے تھے۔ لیکن اِن کی بولی مختلف تھی۔ شاہراہ ریشم کا ایک اہم تجارتی مرکز ہونے کی وجہ سے بامیان کے باسیوں کا معیارِ زندگی پڑوسیوں سے بہتر تھا(9)۔

ساتویں صدی عیسوی میں ساسانی سلطنت کے زوال کا آغاز 622 میں رومی سلطنت کے ہاتھوں شکست اور 628 میں خسرو پرویز کے قتل کے بعد شروع ہونے والی سیاسی رسہ کشی سے ہوا۔ 637 میں قادسیہ کے مقام پر مسلم لشکر کے ہاتھوں شکست کے بعد پے در پے جنگیں ہارتے ہوئے 651 تک اس سلطنت کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ حضرت علیؑ کے دور میں مسلم سلطنت کی سرحدیں خراسان اور غور کے علاقے تک پہنچ گئیں مگر وسطی ایشیا کے باقی علاقے میں چھوٹی چھوٹی ترک سلطنتیں نمودار ہوئیں جو آپس میں سرحدی جھگڑوں میں مشغول رہیں۔ آٹھویں صدی عیسوی میں موجودہ ترکمانستان کا علاقہ بغداد کے زیرِ حکومت آ گیا اور وسطی ایشیا میں نو مسلم صوفیا نے اپنے سابقہ مذہب بدھ مت کے رنگ میں اسلام کی تبلیغ کا آغاز کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ عرب مسلمانوں کو یہاں سے کاغذ بنانے کا ہنر سیکھنے کا موقع ملا اور عباسی خلیفہ مامون الرشید کے قائم کردہ دار الحکمۃ میں یونانی اور ہندوستانی علوم کا ترجمہ ہونے لگا، جس سے مسلم دنیا میں علمی انقلاب آ گیا۔

آٹھویں صدی عیسوی میں بامیان سے گزرنے والے کوریائی سیاح ہائی چو (Hyecho) نے اپنے سفرنامے میں بامیان کو ایک آزاد مملکت بتایا ہے جس کا دفاع اتنا مضبوط تھا کہ پڑوسی ممالک اس پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں کرتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہاں کا مشکل جغرافیہ اور سخت موسم بھی تھی۔ اس کے مطابق یہاں کے لوگ بدھ مت کے پیرو تھے اور آبادی کی اکثریت پہاڑوں میں رہتی تھی۔ یہاں کے لوگوں کی بولی پڑوسی اقوام کی بولی سے الگ تھی(10)۔

نویں صدی عیسوی میں عباسی سلطنت کی گرفت کمزور پڑی اور وسطی ایشیا میں آزاد مسلم سلطنتیں قائم ہونے لگیں۔ موجودہ افغانستان کا بیشتر علاقہ 819 میں بخارا میں قائم ہونے والی سامانی سلطنت کا حصہ تھا۔ سامانی سلطنت کا خاتمہ 990 میں ترکوں کے ہاتھوں ہوا جنہوں نے مذہبی طور پر تنگ نظر غزنوی سلطنت قائم کی جس نے بامیان سے بدھ، گندھارا سے ہندو اور ملتان سے اسماعیلی شیعہ اقتدار کا خاتمہ کیا۔ 1186 میں ایک اور ترک سلطان محمد غوری نے غزنوی سلطنت کو شکست دے کر دہلی سلطنت کی بنیاد رکھی(11)۔ ترکوں نے وادئ بامیان میں اپنا دار الحکومت ایک نئے شہر کو بنایا جو اب شہرِ غلغلہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کو اس علاقے سے صرف مسلم طرزِ تعمیر و تمدن کی باقیات ملی ہیں۔ تیرہویں صدی عیسوی میں منگولیا سے اٹھنے والا منگول طوفان وسطی ایشیا کو روندتا ہوا گذر گیا۔ شہرِ غلغلہ، جو اس وقت آباد تھا، کو باقی بڑے شہروں کی طرح بری طرح تاراج کیا گیا۔ اس وقت یہاں کے حاکم سلطان جلال الدین نے فرار ہو کر موجودہ پنجاب میں پناہ حاصل کی(12)۔

چودہویں صدی عیسوی میں بامیان کچھ عرصے کے لئے ہرات کے سلطان کے ماتحت رہا مگر جلد ہی تیمور لنگ نے اس سلطنت کا خاتمہ کر دیا، اور بامیان تیموری سلطنت کا حصہ بن گیا(13)۔ مغلیہ سلطنت کے بانی بابر نے اپنی آپ بیتی میں موجودہ ہزارہ جات کے علاقے کو ہزارستان لکھا ہے(14)۔

سولہویں سے اٹھارویں صدی عیسوی تک موجودہ افغانستان کا علاقہ صفوی اور مغل سلطنتوں کا حصہ رہا، پھر قندھار میں درانی سلطنت قائم ہو گئی۔ احمد شاہ ابدالی نے 1739 میں نادر شاہ کے افغان دستے کے سالار کے طور پر دہلی لوٹا تھا، اب الگ سلطنت کا حاکم بنا تو مغلوں سے کابل، پشاور، اٹک، ملتان اور لاہور چھین لیے۔ دوسری طرف ایرانیوں سے ہرات چھین لیا اور نیشاپور میں قتلِ عام کیا۔ اس نے کوہِ ہندوکش کے شمالی علاقوں کو فتح کرنے کے لئے ایک فوج روانہ کی اور ترکمن، ازبک، ہزارہ اور تاجک قبائل کو زیر کر لیا(15)۔ 1761 میں دہلی کو ایسا تاراج کیا کہ اس تباہی نے ہندوستان میں انگریزوں کے لئے میدان صاف کر دیا(16)۔

1772 میں اس کی وفات کے بعد درانی سلطنت اندرونی بحرانوں اور برطانیہ اور روس کی سرد جنگ کا شکار بن کر ٹوٹتی بکھرتی رہی۔ ہزارہ جات کا علاقہ اپنے قبائلی نظام کے ساتھ آزاد رہا۔ انیسویں صدی میں ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ ہوا تو ان کے لئے روس کو گرم پانیوں سے دور رکھنا اہم ترجیح بن گیا، جو وسطی ایشیا میں تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ پہلی اور دوسری برٹش افغان جنگ کے بعد انگریز کابل کے تخت کو اپنی اطاعت پر مجبور کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ 1879 کے معاہدہٴ گندمک میں یہ طے ہوا کہ افغان امیر کی سلطنت کے خارجہ امور برطانیہ کے ریذیڈنٹ افسر کے ماتحت چلیں گے۔ کرم، پشین اور سبی ہندوستان کا حصہ ہوں گے اور امیر کو ہر سال ساٹھ ہزار پاؤنڈز کی امداد دی جائے گی(17)۔ یہ علاقے مغل سلطنت کے زوال کے بعد ابدالی نے ہندوستان سے چھینے تھے۔ اب کابل کا امیر اسی طرح انگریزوں کا اتحادی بن گیا جیسے ترکی کا عثمانی سلطان بحیرہٴ روم میں انگریزوں کے مفادات کا رکھوالا تھا(18)۔ 1880 میں عبد الرحمٰن خان کابل کے تخت پر بیٹھا۔ اس نے اپنی جوانی اپنے جلا وطن باپ کے ساتھ بلخ میں گزاری تھی جہاں اس نے روسی افسران سے جنگ اور جدید ریاست چلانے کی تعلیم و تربیت لی تھی اور وہ انگریزوں کے مفادات کا بہترین محافظ بن گیا۔ اس وقت اس کی حکومت صرف کابل کے نواح تک محدود تھی۔ 1881 میں اس کی ہرات کے فرمانروا محمد ایوب خان سے جنگ ہوئی اور ہرات فتح ہو گیا۔ 1886 تک گلزئی، کنڑ، لغمان، میمنہ، شغنان و روشان، شنواری اور زورمت کو اپنی قلمرو میں داخل کر لیا(19)۔ عبد الرحمٰن خان نے گلزئی پختونوں کے ہزاروں خاندانوں کو جنوبی علاقوں سے وطن بدر کر کے ہندوکش کے شمال میں بھیج دیا۔

امیر عبد الرحمٰن خان نے شیعہ مسلمانوں کی زندگیاں تباہ کرنے کے لئے ایک منظم مہم چلائی۔ ان کو قتل کرنے، جیلوں میں پھینکنے، زبردستی مسلک تبدیل کرنے، جائیدادوں کو ضبط کرنے اور نوکریوں سے برخاست کرنے جیسے اقدامات اٹھائے۔ جس کے نتیجے میں متعدد شیعہ قزلباش مشہد، پشاور اور لاہور آ گئے(20)۔ 1890 میں عبدالرحمان خان نے ہزارہ کو کافر اور باغی قرار دیا، اپنی فوج کو انہیں کچلنے ہزارہ جات بھیج دیا۔ کابل میں انسانوں کی خرید و فروخت کا بازار لگا کر ہزارہ بچوں کو غلام اور خواتین کو لونڈیاں بنا کر بیچا۔ ہزاروں انسان قتل اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔ ایسے میں جو ہزارہ مہاجر بن کر عبد الرحمٰن خان کی سلطنت کی سرحدوں سے نکل سکتے تھے وہ کوئٹہ یا مشہد چلے گئے۔ اس کے بعد امیر نے 1896 میں کافرستان کے علاقے پر حملہ کر کے وہاں صدیوں سے آباد غیر مسلم آبادی کو زبردستی مسلمان کیا اور علاقے کا نام نورستان رکھ دیا(21)۔

1901 میں اس کی وفات کے بعد حبیب الله خان اس کے تخت پر بیٹھا، جس نے جنگ عظیم اول میں ترکی اور جرمنی کا ساتھ دینے کے نام پر ان سے اسلحہ اور رقم لی مگر ہندوستان میں تحریکِ ریشمی رومال جیسے بے ضرر اور نمائشی اقدامات سے آگے نہ بڑھا(22)۔ 1919 میں اس کے قتل کے بعد اس کا بیٹا امان الله خان بادشاہ بنا جس نے جنگ عظیم کے تھکے ہوئے برطانیہ کے خلاف جنگ کر کے آزادی حاصل کی اور 1923 میں اس خطے کی تاریخ کا پہلا آئین بنا کر ایک آزاد قومی ریاست قائم کی اور یوں موجودہ افغانستان نامی ملک وجود میں آیا(23)۔ ایک سیکولر بادشاہ کے طور پر اس نے ہزارہ کو غلامی سے آزادی دی اور ان کے انسانی حقوق کو بحال کیا۔ اسی وجہ سے جب 1929 میں اس کے خلاف تکفیری علما نے جہاد کا اعلان کر کے بچہ سقہ کے نام سے جانے جانے والے ایک دیوانے کو کابل کے تخت پر بٹھایا تو ہزارہ جات نے اس کے بھیجے ہوئے لشکر کو شکست دے کر بھگا دیا(24)۔

ہنگاموں سے بھرپور ماضی نے افغانستان کے جینیاتی ورثے کو بہت متنوع بنا دیا ہے۔

جینیاتی ورثہ

انسانی ارتقا اور جینیات کا علم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تقریباً ایک لاکھ سال پہلے انسانوں کا ایک چھوٹا سا گروہ مشرقی افریقہ سے ہجرت کر کے مغربی ایشیا میں آیا اور ان کی اولاد اگلے ہزاروں سالوں میں دنیا بھر میں پھیل گئی۔ اس دوران انسانوں میں معمولی جینیاتی تبدیلیاں بھی رونما ہوتی رہیں جن کی وجہ سے مختلف نسلی گروہ سامنے آتے گئے۔ فروری 2008 میں معروف تحقیقی جریدے ”سائنس“ میں شائع ہونے والے مقالےWorldwide Human Relationships Inferred from Genome-Wide Patterns of Variation  میں دنیا کے مختلف علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے جینیاتی مواد پر کی جانے والی مفصل سائنسی تحقیق کے نتائج پیش کیے گئے(25)۔ اس تحقیق کا مقصد اکیاون مختلف نسلی آبادیوں کی گروہ بندی کرنا تھا تاکہ ان اقوام کے تاریخی ورثے کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔ اس مطالعے کے نتیجے میں ہزارہ اور سینکیانگ (کاشغر) کے ایغور جینیاتی اعتبار سے ایک گروہ میں نظر آئے۔ اس گروہ میں شامل باقی نسلیں بروشو، کالاش، پختون، پنجابی و سندھی، مکرانی، براہوی اور بلوچ تھیں۔ سائنسدانوں کے مطابق ہزارہ اور ایغور مشترکہ جینیاتی ورثہ رکھتے ہیں اور یہ لوگ افغانستان کے اصلی باشندے ہیں۔ ان میں یورپی اور جنوب مشرقی ایشیا کی اقوام کے جینز چند ہزار سال پہلے ان علاقوں سے آنے والے لوگوں کے ساتھ ہونے والے ارتباط کا نتیجہ معلوم ہوتے ہیں۔ دوسری طرف منگول جینیاتی اعتبار سے اروکن، یاکوت، ہان (چینی)، جاپانی، کمبوڈین اور مشرقِ بعید سے تعلق رکھنے والی باقی نسلوں کے گروہ میں شامل نظر آئے۔

اس کے بعد 2010 میں وسطی ایشیا کی چھ مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والی چھبیس آبادیوں پر کی جانے والی جینیاتی تحقیق ”یورپین جرنل آف ہیومن جنیٹکس“ میں شائع ہوئی۔ مقالے کا عنوان تھا:

“In the heartland of Eurasia: the multilocus genetic landscape of Central Asian populations”(26).


اور اس تحقیق کا محور وسطی ایشیا کے علاقے سے تعلق رکھنے والی چھبیس مختلف آبادیاں تھیں۔ اس مطالعے کے نتیجے میں بھی یہی بات سامنے آئی کہ ہزارہ اور ایغور کا جینیاتی ورثہ منگولوں کے بجائے وسطی ایشیا ہی کی دوسری اقوام سے ملتا ہے۔ ہزارہ اور ایغور جینیاتی فاصلے کے اعتبار سے ازبک، تاجک، کرغز اور کازک لوگوں کی نسبت منگولوں سے زیادہ دوری پر ہیں۔ ان تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ جغرافیائی اعتبار سے قریب رہنے والی اقوام جینیاتی اعتبار سے بھی قریب تھیں اور یہ خیال کہ منگولوں نے ہزارہ جات کی ساری مقامی آبادی کو ختم کر کے وہاں اپنے لوگ بسائے تھے، غلط تھا۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہزارہ چنگیزی نہیں ہیں بلکہ جن علاقوں پر افغانستان قائم ہوا، ان کے قدیم اور اصلی باشندوں میں سے ہیں۔ یہ مفروضہ کہ منگولوں نے کسی علاقے کی آبادی کا مکمل خاتمہ کیا ہو، آثارِ قدیمہ کے مطالعے سے بھی ثابت نہیں ہو سکا ہے کیونکہ کسی بڑے علاقے میں ہزاروں سربریدہ یا بدن دریدہ ڈھانچے نہیں ملے ہیں جن کی کاربن ڈیٹنگ انہیں منگولوں کے دور سے منسوب کرتی ہو۔ اگرچہ منگول لشکر اپنے راستے میں آنے والے بڑے شہروں کو تباہ کرتا رہا لیکن اس دور میں کسی بڑے علاقے کے تمام شہروں، دیہاتوں اور خانہ بدوش آبادیوں کی نسل کشی ممکن نہ تھی کیونکہ یہ کام جدید اسلحے اور انجن کے زور پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس بات کی کوئی عقلی توجیہ بھی ممکن نہیں ہے کہ منگول لشکر نے اپنی فوج کے ایک حصے کو اپنے آبائی علاقے سے ہزاروں میل دور ہزارہ جات کے علاقے میں بسا یا ہو مگر کسی اور جگہ ایسی آبادکاری کا اہتمام نہ کیا ہو، جب کہ ان کی عسکری مہم ایشیا اور یورپ کے وسیع علاقوں پر پھیلی ہوئی تھی اور انہیں آگے جانے کے لئے افرادی قوت بھی درکار تھی۔

انسانوں کے کسی گروہ کی شناخت میں ایک اہم عنصر مادری زبان ہوتا ہے۔ انسان اپنے بچپن میں اپنے والدین اور قریبی لوگوں کی آواز اور برتاؤ سے مادری زبان سیکھتا ہے۔ اگرچہ آج کی دنیا میں جدید وسائل کی مدد سے کسی بچے کو دوسری زبانیں سکھانا ممکن ہے اور بعض اوقات والدین بچوں کو اپنی مادری زبان کے بجائے کوئی اور زبان سکھا دیتے ہیں، جیسے اردو یا انگریزی، لیکن ماضی میں انسانی معاشروں میں روابط اتنے تیز نہ تھے۔ چنانچہ لوگوں کی مادری زبانیں کئی ہزار سال گزارنے کے بعد آنے والی تبدیلیوں کے باوجود زبانوں کے اسی خاندان میں رہی ہیں جن سے ان کا جینیاتی تعلق ہے۔ مثلاً ہزاروں سال پہلے جغرافیائی طور پر بچھڑنے والے آریائی لوگ ایران و برصغیر میں ہوں یا یورپ میں، ان کی زبانیں اپنے جوہر میں باقی آریائی زبانوں سے ملتی جلتی ہیں۔ دوسری طرف آریا اور دراوڑ نسلوں کے لوگ ہندوستان میں کئی ہزار سال سے جغرافیائی طور پر اکٹھے رہ رہے ہیں لیکن دراوڑی زبانوں کا تعلق الگ لسانی گروہ سے ہے۔ ہزارہ کی زبان بھی آریائی زبانوں میں شمار ہوتی ہے لیکن منگول زبان آریائی نہیں ہے۔ منگولوں نے باقی حملہ آوروں کی طرح ہزارہ پر بھی اتنے ہی جینیاتی اور لسانی اثرات چھوڑے جتنے باقی اقوام پر چھوڑے ہیں۔

بامیان میں مہاتما بدھ کے مجسمے ہزارہ کا اہم تاریخی ورثہ اور سیاحتی قدر تھے۔ ماضی میں مختلف مسلمان حملہ آور بامیان میں مہاتما بدھ کے مجسمے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہے۔ سب سے پہلے بابر اور پھر اورنگزیب اور اس کے بعد نادر شاہ نے بت شکنی کے نام پر اس تاریخی شناخت کو ختم کرنا چاہا۔ اورنگزیب و نادر شاہ کی توپیں ان کو صرف معمولی نقصان پہنچا سکیں۔ 1891 میں امیر عبد الرحمٰن خان نے نسبتاً جدید اسلحے سے گولہ باری کر کے ان مجسموں کے چہروں کو مسخ کر دیا، جن میں ان کو بنانے والے ہزارہ کے چہروں کا عکس اس زمین پر ہزارہ کے تاریخی حق کو ثابت کرتا تھا۔ مارچ 2001 میں ملا عمر نے بارود نصب کروا کے دونوں مجسموں کو تباہ کر دیا۔ اس سے بامیان کی سیاحتی قدر و قیمت گر گئی اور اس کے تاریخ میں سے ایک اہم باب کے مادی آثار نہ رہے۔

مذہبی ورثہ

ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ازمنہٴ قبلِ تاریخ میں وسطی ایشا کے لوگ بکری کی پوجا کرتے تھے (27)۔ تاریخ کے ابتدائی عرصے میں وسطی ایشیا کے لوگ زرتشت (پارسی) مذہب کے پیروکار ہو گئے تھے، جسے ہخامنشی سلطنت نے رواج دیا تھا(28)۔ سکندر کی طرف سے یونانیوں کو مشرق میں بسانے اور تہذیبوں کو ملانے کی کوشش نے وسطی ایشیا میں یونانی خیالات اور فنون، جیسے مجسمہ سازی، کو رواج دیا۔ تیسری صدی قبلِ مسیح میں شہنشاہ چندر گپت موریا کے پوتے اَشُوکِ اعظم نے اڑیسہ میں ہونے والی خونی لڑائی کے بعد توبہ کر کے بدھ مت کو اپنا لیا تھا۔ 250 قبلِ مسیح میں موجودہ ہندوستانی صوبہ بہار کے علاقے میں بدھ مت کی تیسری شوریٰ کا اکٹھ ہوا جس میں مختلف علاقوں میں بدھ مت کے مبلغین بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے نتیجے میں چند صدیوں میں ایشیا کا وسیع علاقہ بدھ مت کا پیرو بن گیا(29)۔ اَشوک نے سلطنت کے مختلف حصوں میں مینار بنوا کر ان پر بدھ مت کی تعلیمات بھی کندہ کرائیں۔ موجودہ افغانستان میں بدھ مت موریا سلطنت کے زیر سایہ متعارف ہوا۔ قندھار کے علاقے شہرِ کہنہ سے پتھر کے کتبوں پر اَشوک کے کئی فرامین ملے ہیں جن میں سے ایک کے مطابق:

’’تقویٰ اور ضبطِ نفس ہر مسلک کی تعلیمات کا حصہ ہے۔ جوشخص اپنی زبان پر قابو رکھتا ہے وہ اپنے نفس کا حاکم ہے۔ انہیں نہ اپنے بارے میں شیخیاں بگھارنی چاہئیں نہ اپنے پڑوسی کو کسی حوالے سے کمتر سمجھنا چاہیے، کیوں کہ یہ ایک فضول کام ہے۔ اس اصول پر کاربند رہ کر وہ اپنی عزت بڑھا اور اپنے پڑوسیوں کے دل جیت سکتے ہیں۔ ان اصولوں سے روگردانی کرنے والے اپنی عزت گنوا بیٹھتے ہیں اور پڑوسیوں کو اپنا دشمن بنا لیتے ہیں۔ اپنی بڑائی بیان کرنے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو پست کہنے والے لوگ خود پرستی میں مبتلا ہیں، جو دوسروں کے مقابلے میں برتر دکھائی دینے کی کوشش میں اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ شائستہ یہی ہے کہ آپس میں عزت سے پیش آیا جائے اور ایک دوسرے سے سیکھا جائے۔ ہر معاملے میں دوسروں کی بات کو سمجھنے کے لئے تیار ہونا چاہیے اور دوسروں کو وہ بات سمجھانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے جسے وہ سمجھ سکتے ہوں۔ وہ لوگ جو اس راہ پر قدم بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ یہ پیغام آگے پہنچانے میں کسی تردد کا شکار نہیں ہوں گے یہاں تک کہ ہر طرف تقویٰ اور نیکی کا بول بالا ہو جائے۔

پادشاہ نے اپنی حکومت کے آٹھویں سال کالینگاہ کو فتح کیا۔ ڈیڑھ لاکھ انسان قیدی بنائے یا بے دخل کیے۔ ایک لاکھ لوگ قتل ہوئے اور اتنے ہی اس جنگ کے اثرات کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے۔ اس پر رحم اور ہمدردی کے جذبات نے غلبہ پا لیا اور اس کو بہت دکھ ہوا۔ یہاں تک کہ اس نے کسی ذی روح کو قتل کرنے پر پابندی لگا دی اور نیکی کو عام کرنے کی ٹھان لی۔ اسی دوران اس نے وہاں رہنے والے برہمنوں اور سرمنوں کی ریاضت کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ انہیں بادشاہ کے مفادات کا خیال رکھنا چاہیے، اپنے اساتذہ، باپ اور ماں کا ادب و احترام بجا لانا چاہیے۔ اپنے دوستوں سے محبت اور وفاداری کا برتاؤ کرنا چاہیے۔ انھیں اپنے غلاموں اور وابستگان کے ساتھ جتنا ممکن ہو اچھا سلوک کرنا چاہیے۔

اگر وہاں مصروفِ کار افراد میں سے کوئی انتقال کر جائے یا بے دخل کیا گیا ہو اور دوسرے لوگ اس کو معمولی حادثہ سمجھیں، تو یہ امر بادشاہ کو ناگوار گزرتا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے لوگوں میں۔۔۔‘‘

یہاں مسلک سے مراد بدھ مت کے مختلف فرقے ہیں- کالینگاہ (موجودہ اڑیسہ) کی فتح کے ذکر میں لاکھ کا ہندسہ مبالغے کے لئے استعمال ہوا ہے، ورنہ اس زمانے میں ہندوستان کی مجموعی آبادی ہی چند لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ یہ فرمان دو زبانوں، آرامی اور یونانی میں لکھا گیا ہے۔ آرامی زبان کو ہخامنشی سلطنت نے اور یونانی کو سلطنتِ مقدونیہ نے اس علاقے میں رواج دیا تھا۔ یہاں یونانی زبان کے بولے جانے سے اس بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ یونانیوں کی بڑی تعداد مقامی آبادی کا حصہ بن گئی تھی۔ اسی قسم کے کتبے جلال آباد اور ٹیکسلا میں بھی ملے ہیں جو آرامی اور سنسکرت زبان میں لکھے گئے تھے(30)۔ یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اخلاقیات اور اچھے کردار کو خدا پرستی سے مشروط نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بدھ مت میں دیوتا یا معبود کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اسی طرح آخرت، قیامت اور عالمِ بالا کا بھی کوئی تصور نہیں ہے، اس کے بجائے وہ تناسخ، یعنی دوسرے جنم پر یقین رکھتے ہیں۔ چنانچہ اخلاقیات کا مقصد خدا کی خوشنودی کا حصول نہیں بلکہ مادی زندگی کے معیار کو بلند کرنا ہے۔ اسی طرح بدھ کو خدا کا بھیجا ہوا پیام بر نہیں بلکہ ایک روشن ضمیر انسان (مہاتما) مانا جاتا ہے۔

اگرچہ اَشوک کی وفات کے بعد موریا سلطنت زوال کا شکار ہو گئی لیکن ایشیا میں بدھ مت تیزی سے پھیلتا رہا۔ پہلی صدی عیسوی میں قائم ہونے والی سلطنتِ کوشان اور شاہراہِ ریشم پر ہونے والی تجارت نے بدھ مت کے پیغام کو بحیرہ خزر سے چین و جاپان تک پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسری صدی عیسوی میں بدھ مت کے رہنماؤں کی چوتھی شوریٰ کشمیر میں طلب کی گئی جس کی سربراہی کوشان شہنشاہ کَنِشک نے کی۔ اس شوریٰ نے بدھ مت کے کئی نئے مسالک کو رسمی طور پر قبول کیا اور وسطی ایشیا میں بدھ مذہب کو عام کرنے کا منصوبہ بنایا(31)۔ بامیان و کابل کا علاقہ بدھ مت کے پیروکاروں کا روحانی و تخلیقی مرکز بن گیا۔ گندھارا کے فن پارے ایک معنوی کہکشاں کی موجودگی کا پتا دیتے ہیں۔ کوشان سلطنت کے زوال کے بعد ساسانیوں نے وسطی ایشیا میں دوبارہ زرتشت مذہب کو رواج دیا اور بدھ مت کے بارے میں مختلف نیم آزاد سلطنتوں کا رویہ مختلف رہا۔ باقی علاقوں میں بدھ مت زوال کا شکار ہو گیا لیکن بامیان اور وادئ سندھ میں بدھ مت کی شمع پوری آب و تاب سے جلتی رہی۔ ماہرین آثارِ قدیمہ کے مطابق بامیان میں پہاڑ کو تراش کر بنائے گئے مہاتما بدھ کے معروف مجسمے تیسری اور پانچویں صدی عیسوی میں بنائے گئے(32)۔ ان کو تراشنے کا مقصد پوجنا نہیں بلکہ مہاتما بدھ کو خراجِ تحسین پیش کرنا تھا۔ 400 میں بامیان یا کاشغر سے چینی بدھ صوفی فاھیان کا گزر ہوا۔ اس نے بادشاہ کے دربار میں منعقد ہونے والی ایک مذہبی تقریب میں ایک ہزار کے قریب بدھ صوفیا کی شرکت کا ذکر کیا ہے(33)۔

اگرچہ علم ہمیشہ آگے بڑھتا ہے لیکن انسانی تاریخ ہمیشہ آگے نہیں بڑھتی۔ 430 میں تاتاروں کے حملے کے آغاز اور 484 میں ساسانی فوج کی حتمی شکست کے بعد سو سال تک سابقہ سلطنتِ کوشان کے علاقے پر ان کا اقتدار سلطنتِ کوشان کی تہذیب پروری کے برعکس وحشت اور جہالت کا راج ثابت ہوا۔ انہوں نے اپنے زیر اثر علاقے میں بدھ مت کا بڑی حد تک خاتمہ کر دیا(34)۔ لیکن 565 میں ساسانیوں کے فیصلہ کن حملے اور تاتار اقتدار کے خاتمے کے بعد بامیان پر ایک آزاد سلطنت قائم ہوئی۔ گندھارا میں برہمنوں نے تاتاروں کے ساتھ تعاون کیا تھا اور ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہاں برہمن اقتدار دوبارہ سے قائم ہو گیا۔ لیکن چونکہ برہمن ذات پات پر یقین رکھتے تھے اور اپنے مذہب میں کسی دوسری ذات کے لوگوں کو شامل کرنے کے قائل نہ تھے لہٰذا عوام کی اکثریت بدھ مت ہی کی پیروکار رہی۔

632 میں بامیان سے گزرنے والے بدھ سالک اور موٴرخ ہیون سانگ (Xuan Sang) نے یہاں بدھ مت کے ہزاروں پیرو کاروں، دسیوں معبدوں اور پہاڑ میں بنائے گئے مہاتما بدھ کے کئی فٹ بلند مجسموں کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ اس کی روداد سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شہر دوبارہ ایک تجارتی مرکز بن چکا تھا اور یہاں پڑھنے لکھنے والے لوگ بھی موجود تھے(9)۔

افغانستان میں اسلام حضرت علیؑ کے دور میں آیا جب غوری قبائل کے سربراہ مہاوی سوری نے ایک وفد کے ہمراہ کوفہ کا دورہ کیا اور حضرت علیؑ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ طبری نے اس حوالے سے دو روایات بیان کی ہیں۔ پہلی روایت میں وہ ابو جعفر سے نقل کرتے ہیں کہ جنگِ صفین کے دوران مہاوی حضرت علیؑ سے ملنے آئے اور امن معاہدہ کرنے بعد خراسان واپس لوٹ گئے۔ دوسری روایت میں ابنِ اسحاق سے نقل کرتے ہیں کہ مرو کے گورنر مہاوی جنگ جمل کے بعد حضرت علیؑ سے ملنے آئے اور حضرت علیؑ نے مرو میں موجود مسلمان لشکر کے سالار کے نام خط میں حمد و ثنا کے بعد لکھا:

’’غور کے والی مہاوی سے میری ملاقات ہوئی ہے اور میں اس سے راضی ہوں۔ یہ خط 36 ہجری میں لکھا گیا“(35)۔

خراسان کے لوگ محب اہلبیت تھے۔ جب بنی امیہ کی حکومت میں تمام علاقوں میں حضرت علیؑ کو گالیاں دینے کا حکم دیا گیا تو یہ واحد خطہ تھا جہاں کے لوگوں نے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا(36)۔ بعد میں بنی امیہ کے زوال میں اسی خطے سے اٹھنے والے ابو مسلم خراسانی نے اہم ترین کردار ادا کیا۔

آٹھویں صدی عیسوی میں بامیان آنے والے کوریائی سیاح ہائی چو (Hyecho) نے بامیان کو بدھ مت کا ثقافتی مرکز بتایا ہے(10)۔ البتہ دسویں صدی عیسوی کے دوران وسطی ایشیا میں اسماعیلی شیعہ داعی بہت متحرک تھے جنہوں نے ہزارہ علاقوں میں شیعہ اسلام کی اسماعیلی شاخ کے منظم فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ افغانستان میں پہلی اسماعیلی تبلیغی مہم غیاث نامی ایک اسماعیلی داعی کے نویں صدی عیسوی کے آخر میں فارس سے بالا مرغاب کے علاقے میں آنے سے شروع ہوئی۔ بعد میں ناصر خسرو نے اسماعیلی دعوت کو خراسان میں منظم کیا جس کی جڑیں آج تک باقی ہیں۔ ناصر خسرو یہاں کی فارسی بولی (ہزارگی/درّی) کے شاعر اور نثر نگار بھی تھے(37)۔

بامیان سے بدھ سلطنت کا خاتمہ گیارہویں صدی عیسوی میں غزنوی سلطنت کے ہاتھوں ہوا، جو شد و مد سے سنی حنفی اسلام کو پھیلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس سیاسی غلبے نے شمالی ہندوستان کی طرح یہاں بھی اسلام کے فروغ میں کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں:

’’ہندوستان میں اسلام سیاسی حکومت قائم ہونے کے بعد پھیلا۔ لوگ اس لئے مسلمان ہوئے کہ اپنی جاگیریں اور مراعات کو محفوظ کر لیں، یا اس لئے کہ انہیں حکومت کی ملازمتیں مل جائیں۔ نچلی ذات کے لوگ اس امید پر مسلمان ہوئے کہ شاید نئے معاشرے میں انہیں سماجی طور پر عزت مل جائے۔ کچھ لوگ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر بھی مسلمان ہوئے۔ یہ بھی دستور تھا کہ اگر سیاسی قیدی مذہب بدل لیتے تو انہیں معافی دے دی جاتی تھی۔ اس لئے مقامی آبادی آہستہ آہستہ کافی تعداد میں مسلمان ہوئی“(38)۔

’’سندھ میں اسلام پھیلنے کی وجہ یہ تھی کہ یہاں مسلمانوں کی آمد کے وقت اکثریت بدھ مت کی ماننے والی تھی۔ بدھ مت ایک فلسفیانہ طرز کا مذہب ہے، جس میں وسعت و کشادگی اور رواداری ہے۔ اس کے مقابلے میں شمالی ہندوستان میں ہندو مذہب کا زور تھا جسے صدیوں کی روایات نے انتہائی پختہ بنا دیا تھا۔۔۔ سندھ اور شمالی ہندوستان میں ایک فرق یہ بھی تھا کہ سندھ میں قبائلی نظام تھا اور برہمن ذات کو غلبہ حاصل نہیں تھا۔ اس لئے جب قبیلے کا سردار مسلمان ہو جاتا تو پورا قبیلہ اسلام قبول کر لیتا تھا“(39)۔

1306 میں ہلاکو خان کے پڑپوتے غزن خان نے شہزادوں سمیت اسلام قبول کر لیا۔ وہ شیعہ اسلام میں کافی دلچسپی رکھتا تھا اور آئمہ اہلبیتؑ کے مزارات کی زیارت کرنے جایا کرتا تھا۔ اس کے بعد اس کے بیٹے الجائتو نے بھی اس علاقے میں شیعیت کی سرپرستی کی۔ ہزارہ قبائل کا شیعہ اسلام کی جانب مائل ہونا غزن خان کے زمانے میں شروع ہوا اور یہ سلسلہ شاہ عباس صفوی کے دور میں مکمل ہوا۔ پشتون اور سنی امیروں کی حکومت میں ہزارہ اثناعشری اور اسماعیلیوں کو جبر و ستم کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ امیر عبدالرحمٰن خان نے 1891 سے 1893 کے دوران اور افغان طالبان نے اپنے دور حکومت میں افغانستان کی شیعہ ہزارہ آبادی کو بدترین مظالم کا نشانہ بنایا(37)۔

حوالہ جات

  1. R. Thapar, “Early India”, p. 156–160, Penguin Books, (2003).

  2. Ibid, p. 176.

  3. Marcus Junianus Justinus, “Epitome of Pompeius Trogus”, Libre XLI 4 (5).

  4. R. Thapar, “Early India”, p. 217, Penguin Books, (2003).

  5. Ibid, p. 221.

  6. Ibid, p. 280.

  7. Ibid, p. 286.

  8. L. Dupree, “Afghanistan”, pp.302 – 303, Princeton University Press, (1980).

  9. T. Watters, “On Yuan Chwang's travels in India”, pp. 115 – 122, Royal Asiatic Society, London (1904).

  10. http://hyecho-buddhist-pilgrim.asian.lsa.umich.edu/bamiyan.php

  11. L. Dupree, “Afghanistan”, p.314, Princeton University Press, (1980).

  12. N. Dupree, “Bamiyan”, p. 61–63, Afghan Tourist Organization, (1967).

  13. L. Dupree, “Afghanistan”, p.317, Princeton University Press, (1980).

  14. Z. M. Babur, “Babur-nama”, pp. 207, 214, 218, 221, 251–53, 300, Lahore (1987).

  15. L. Dupree, “Afghanistan”, p.336, Princeton University Press, (1980).

  16. ڈاکٹر مبارک علی ، ”گمشدہ تاریخ“، صفحات 101 تا 107 ، فکشن ہاؤس لاہور ، (2005)۔

  17. L. Dupree, “Afghanistan”, p. 409, Princeton University Press, (1980).

  18. Hamza Alavi, “Ironies of History: Contradictions of the Khilafat Movement”, Comparative Studies of South Asia, Africa and the Middle East 17 (1): 1–16, (1997).

  19. L. Dupree, “Afghanistan”, p. 418, Princeton University Press, (1980).

  20. Hasan K. Kakar, “Government and Society in Afghanistan: The Reign of Amir Abd Al-Rahman Khan”, p. 158–161, University of Texas Press, (2011).

  21. Ibid, pp. xxiii–xxiv.

  22. L. Dupree, “Afghanistan”, p. 435, Princeton University Press, (1980).

  23. Ibid, Ch. 20.

  24. Hasan K. Kakar, “Government and Society in Afghanistan: The Reign of Amir Abd Al-Rahman Khan”, p. 250, University of Texas Press, (2011).

  25. Jun Z. Li, et. al., “Worldwide Human Relationships Inferred from Genome-Wide Patterns of Variation”, Science, Vol. 319, Issue 5866, pp. 1100-1104, Feb. (2008).

  26. B. Martínez-Cruz, et al., “In the heartland of Eurasia: the multilocus genetic landscape of Central Asian populations”, European Journal of Human Genetics, Vol. 19, pp. 216–223, (2011).

  27. L. Dupree, “Afghanistan”, p. 435, Princeton University Press, (1980).

  28. Ibid, p. 272.

  29. R. Thapar, “Early India”, p. 181, Penguin Books, (2003).

  30. L. Dupree, “Afghanistan”, pp. 286 – 288, Princeton University Press, (1980).

  31. R. Thapar, “Early India”, p. 222, Penguin Books, (2003).

  32. L. Dupree, “Afghanistan”, p. 305, Princeton University Press, (1980).

  33. H. A. Giles, “The Travels of Fa Hsien”, pp. 7–8, Cambridge University press, (1923).

  34. R. Thapar, “Early India”, p. 287, Penguin Books, (2003).

  35. Tabari, “Tarikh-i Tabari”, IV, 263; VI, 2494.

  36. محمد قاسم فرشتہ، ”تاریخِ فرشتہ“، جلد 1، صفحہ 81، عثمانیہ یونیورسٹی پریس، حیدرآباد (1926)۔

  37. Yahia Baiza, “The Hazaras of Afghanistan and their Shi'a Orientation: An Analytical Historical Survey”, Journal of Shi'a Islamic Studies, vol. 7, no. 2, pp. 151 - 171, (2014).

  38. ڈاکٹر مبارک علی، ”برصغیر میں مسلمان معاشرے کا المیہ“، صفحہ 45، (2005)۔

  39. ڈاکٹر مبارک علی، ”سندھ کی تاریخ کیا ہے؟“، صفحہ 44، (2004)۔

ڈاکٹر حمزہ ابراہیم مذہب، سماج، تاریخ اور سیاست پر قلم کشائی کرتے ہیں۔