سماج بدلے بغیر نوجوان نسل کو نشے کی لت سے نہیں بچایا جا سکتا

سماج بدلے بغیر نوجوان نسل کو نشے کی لت سے نہیں بچایا جا سکتا
ہر برس 26 جون منشیات کے خلاف عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1987 میں اس دن کو منشیات کے استعمال اور اس کی غیر قانونی تجارت کے خطرے کو اجاگر کرنے اور اس کی روک تھام کے لیے عالمی برادری کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلانے کے لیے اس دن کو منانے کا اعلان کیا تھا۔ ہر سال اس دن کے لئے کوئی تھیم (موضوع ) رکھا جاتا ہے۔ 2023 کے لئے موضوع ہے:

People first: stop stigma and discrimination, strengthen prevention

سب سے پہلے انسان: طعنہ زنی، کلنک اور امتیازی سلوک بند کریں، حفاظتی تدبیر کو مؤثر بنائیں

ہر معاشرہ اپنے اندر موجود سب سے برا اور پریشان کن کردار نظر انداز کر دیتا ہے۔ زیادہ تر ایسی باتوں پر توجہ نہیں دی جاتی کیونکہ اس کی پہچان تکلیف دہ ہو سکتی ہے، خاص طور پر ان کے لئے جو اپنا مرتبہ (سٹیٹس) برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اس میں کچھ بھی حیران کن نہیں ہے۔

جب نوجوان ناراض نسل کی حرکات شہریوں کو بہت بڑے نفسیاتی تناؤ سے دوچار کریں تو اس مسئلہ کو 'ملک کی محبت' کے بارے میں تقریروں سے چھپا لیا جاتا ہے اور اصل صورت حال کھل کر سامنے نہیں آتی کہ ان کا اصل مسئلہ معاشی ہے۔

آئیے اس پس منظر میں منشیات اور نوجوان طبقے کی پریشانیوں پر نظر ڈالتے ہیں۔ مختلف حلقوں (پلیٹ فارمز) سے سرکاری اور غیر سرکاری افسران کو بتایا جاتا ہے کہ وہ مملکت خداداد میں رہنے کے باعث کتنے خوش قسمت ہیں، جو بہت ساری جانوں کی قربانیوں کے بعد کافروں سے لڑ کر حاصل ہوا۔ ان قربانیوں کی یاد دلاتے ہوئے انہیں باور کروایا جاتا ہے کہ اس ریاست کی نظریاتی سرحد کی حفاظت کرنا ہمارا پہلا فریضہ ہونا چاہئیے۔ ان سالوں میں نوجوانوں کو قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اپنے بزرگان کی عظیم قربانیوں کے باعث ہی انہیں یہ سب مواقع اورسہولیات میسر ہو رہی ہیں جن کا وہ تقسیم ہند سے پہلے ہندوستان میں تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اس ساری کوشش کا مقصد بہت ہی واضح ہے اور وہ یہ کہ نوجوان طبقے کو اس دھوکے میں رکھا جا سکے کہ آزادی حاصل کرنا کافی ہے تا کہ وہ 1947 کے بعد ہونے والے تمام معاملات سے دور رہیں۔

پوری طرح اس بیانیہ کے خالی پن سے واقف ہونے کے بعد نوجوان خود نتیجہ نکالیں ان معاشرتی حقائق کا جن سے انہیں روز واسطہ پڑتا ہے۔ نوجوان نسل کے رویے کو ڈھالنے میں پچھلی سات دہائیوں سے سیاسی رہنما تباہ کن کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستانیوں کی ایک نسل نے دو خطرناک جنگیں دیکھی ہیں۔ بد ترین دہشت گردی کے حملے سہے ہیں، تین مارشل لاء برداشت کئے ہیں اور ایک سے زیادہ ملٹری سول حکمرانی کا دور دیکھا ہے، سیاست کی ہولناک قسم کی اذیت سے پاکستانی گزرے ہیں اور انہیں قید کیا گیا، خودکش بم دھماکے ہوئے، سکولوں میں اور مسجدوں میں دہشت گرد حملے، اسلام کے نام پر لوگوں کو نشانہ بنایا گیا، فرقہ وارانہ اور نسلی جھڑپیں، عدالت کا منہ بند کروایا گیا، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی، بینظیر بھٹو کا قتل، اکبر بگٹی کا قتل اور کئی اس قسم کی اموات۔ یہ سب نوجوانوں کو ان کے لاشعور میں مایوس کن طور پر ذہن نشین کروایا گیا ہے۔ نوجوان طبقے کا زندگی کی طرف رویہ بیان کرنے کے لئے مایوسی بہترین لفظ ہے۔

ہمارے نوجوانوں کے لئے زندگی کی بدترین حقیقت یہ ہے کہ انہیں نا ختم ہونے والی کوشش کرتے رہنا ہے کہ وہ اس بے انصاف، عدم مساوات، مایوس کن، کینہ پرور اور بد عنوان نظام سے نجات حاصل کر سکیں۔ ان کی مایوسی بجا ہے۔ یہ بھی حیران کن نہیں کہ 8 ملین سے زیادہ لوگ پاکستان میں ایسے ہیں جو نشے کی لعنت کا شکار ہیں اور زیادہ تر ان میں 15 سے 25 سال کے جوان ہیں۔ وہ ایسے کنبوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں سوال کئے بغیر کہنا ماننے کی توقع کی جاتی ہے اور پیسہ اور طاقت کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، نسل اور ذات ایک بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے اور فرقے اور نسلی وابستگی کو ایک مذہبی فریضہ مانا جاتا ہے۔ نوجوانوں نے ایک چیز تو دیکھی ہے؛ اپنے بزرگوں کے زبانی اصول اور قول و عمل میں کھلا تضاد۔ اور یہ کہنے اور کرنے میں فرق ہی انہوں نے بنیادی اصول اور زندگی کی سچائی سمجھا ہے۔ اس طرح کی تربیت ایک منافقانہ نظام کو تشکیل دیتی ہے۔ پاکستانی نوجوان مسائل کے انبار کا سامنا کر رہا ہے۔ جیسا کہ مذہبی اور فرقہ وارانہ جنونیت، عسکریت پسندی اور شدت پسندی، میرٹ کی کمی، بے روزگاری، تعلیمی نظام میں بگاڑ، سیاسی تشدد، سخت گیر خاندانی نظام کا دباؤ اور وحشت۔

پاکستان میں نشے کے استعمال پر 2013 کی ایک سروے رپورٹ میں درج ہوا:

'خواب آور ادویات اور نشے کے کنٹرول کے پاکستان بیورو اور یونائیٹڈ نیشن آفس کی مشترکہ ریسرچ کہتی ہے کہ 7.6 ملین افراد نشہ میں مبتلا ہیں جن میں سے 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین ہیں۔ Cannabis پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نشہ ہے اور 4 ملین لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔ ایک فیصد Opiates جسے اوپیم اور ہیروئن کہا جاتا ہے کا استعمال کرتے ہیں۔ 860000 اس کے نشہ میں مکمل طور پر غرق ہیں اور 3 ملین لوگوں کو پروفیشنل علاج کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن موجودہ ڈھانچے کی بنیاد پر ہر سال صرف 30000 نشہ کرنے والے لوگوں کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ 40000 لوگ ہر سال اس نشے کی لت میں پڑتے ہیں۔ اور سروے سے معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے ہیروئن کے نشے کے عادی پہلے سے زیادہ ہو رہے ہیں اور ان کی عمر 24 سال سے کم ہے۔ اور یہ بتانے کے لیے کسی تقریر کی ضرورت نہیں کہ نشے کے برے اور خوفناک نتائج سکول سے ہی بتانے چاہئیں اور وسیع پیمانے پر مہمات چلانی چاہئیں خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے جس کا زیادہ اثر ہو۔ لیکن زیادہ ضروری ہے ان وجوہات کو ڈھونڈ نکالنا اور ختم کرنا جو نوجوانوں کو اس نشے کی عادت میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ کیا یہ ایک منافقانہ نظام اور بے انصافی نہیں جو انہیں نشے کی راہ پر ڈالتی ہے؟'

اب 2023 کا وسط ختم ہونے کو ہے اور صورت حال 2013 کے مقابلے میں مزید خراب ہو چکی ہے۔ آج بھی نوجوان والدین اور اساتذہ کے محکمانہ رویے کے شکار ہیں اور محبت اور چاہت سے محروم ہیں۔ بد قسمتی سے کوئی بھی ان کے مسائل سمجھنے اور ہمدردی کرنے کا روادار نہیں۔ نا بالغ، مجرم اور بدقسمت نشے کا عادی دھتکارا جاتا ہے اور آسانی سے سب ذمہ دار لوگ اس کی ذمہ داری سے خود کو سبک دوش سمجھ کر مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو موجودہ اداروں کو چلاتے ہیں اور مسئلے کو جانتے ہیں انہیں چاہئیے کہ وہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ نوجوان نسل بدعنوانی، انتہاہ پسندی، پیسے کی طاقت کے پجاری نظام سے مایوس اور دل برداشتہ ہے اور وہ مزید اس دقیانوسی معاشرے کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ اور ان میں سے زیادہ تر جنہیں اور کوئی راستہ نہیں ملتا وہ منشیات کے استعمال یا دہشت گردی میں نجات ڈھونڈتے ہیں۔ ہمیں سماج کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

11 دسمبر 2019 کو جو لاہور میں ہوا اور اس کے بعد معافی تلافی اور مٹی پاؤ کے فارمولا نے عام نوجوانوں کو کیا سبق دیا؟ ماضی میں نوجوان ڈاکٹرز کی ہڑتالوں سے مریضوں پر کیا قیامت گزری، مگر کسی کو ان کا احتساب کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ یہی حال وکیلوں کا رہا۔ ان کے اندر موجود شر پسند عناصر نے قانون کی دھجیاں اڑا کر سب کو حیران کر دیا مگر کوئی تادیبی کارروائی تو درکنار ان کے سینیئر اور نام نہاد لیڈروں نے ان کا دفاع کیا جس سے ان کو مزید شہ ملی۔ وکیل اور ڈاکٹرز، جن میں قانون کو پامال کرنے والے زیادہ تر نوجوان تھے، سب کے لئے شرمندگی کا سبب ثابت ہوئے جبکہ ان کو قابل قدر مثال ہونا چاہئیے تھا۔ ان کو قرار واقعی سزا کا نہ ملنا نوجوانوں کو کیا سبق دیتا ہے؟ کیا ہم مایوس نوجوانوں کو جو نشہ کی لت کا شکار ہیں مزید تباہی کی طرف نہیں دھکیل رہے؟

منشیات اور نوجوان طبقے کی پریشانیوں کو الگ الگ نہیں دیکھ کر نہیں سمجھا جا سکتا۔ مسائل کا حل معاشرے کو مل جل کر نکالنا ہو گا۔ ان کو انصاف پر مبنی نظام دینا ہو گا۔ ان کو عزت کے ساتھ روزگار دینا ہو گا۔ ایسا کیے بغیر منشیات کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔