بے روزگاری بہت بڑا قومی مسئلہ ہے جس ميں وقت گزرنے اور آبادی ميں اضافے کے ساتھ ساتھ مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ معاشی و اقتصادی ترقی کے نام نہاد دعؤوں کے باوجود صورتحال روز بروز بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ سی پيک کے ثمرات بھی دعؤوں کے برعکس عام آدمی تک نہيں پہنچ پائے۔ ماضی کی حکومتيں سنجيدگی سے اس طرف توجہ دے کر دور رس حکمت عملی بناتيں تو مسئلے پر کافی حد تک قابو پايا جا سکتا تھا۔
بے روزگاری پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ تحصيل کی سطح پر انڈسٹريئل زونز بنائے جائيں۔ يہ زونز ٹيکس فری ہوں اور يہاں سڑک، بجلی، گيس، سکيورٹی وغيرہ سميت تمام سہوليات فراہم کی جائيں۔ سرمايہ کاروں کو مکمل قانونی تحفظ فراہم کيا جائے۔ بدلے ميں سرمايہ کاروں پر شرائط عائد کی جائيں کہ وہ نوے فیصد مقامی افراد کو روزگار ديں گے۔ اس کے علاوہ ان کو اسی علاقے ميں ايک سکول اور ايک ہسپتال کھولنے اور چلانے کا بھی پابند کيا جائے۔
روایتی اور آرٹس کی تعليم کی جگہ سائنس اور فنی تعليم کو فروغ ديا جائے۔ ايسے ہنر سکھائے جائيں جن سے ذاتی کاروبار کيا جا سکے۔ ذاتی کاروبار کرنے کے لئے آسان شرائط پر بلا سود قرضے فراہم کیے جائيں۔
ممالک کی ترقی و خوشحالی کے اہداف حاصل کرنے کے عمل میں اہل اور قابل افراد کا بہت اہم رول ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں صاف اور شفاف طریقہ کار کے ذریعے قابل اور اہل افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے اور میرٹ کو ہر حال میں مقدم رکھا جاتا ہے۔ ان کے ہاں سفارش اور رشوت کا تصور نہیں پایا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شعبے اور محکمے میں میرٹ کے مطابق منتخب شدہ اہل افراد ہی دکھائی دیتے ہيں جو اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر قومی ترقی میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔
وطن عزیز کی اخلاقی، معاشی اوراقتصادی تنزلی کی ایک اہم وجہ میرٹ کی پامالی بھی ہے۔ اقربا پروری، سفارش اور رشوت کا دور دورہ ہے۔ پڑھے لکھے اور قابل لوگ ڈگریاں تھامے مارے مارے پھرتے ہیں جبکہ نااہل اور سفارشی افراد ہر جگہ براجمان ہیں۔ ہمارے موجودہ نظام نے غریب، ضروتمند، محنتی اور اہل فراد کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ قانون اور قاعدے بنے ہی عام لوگوں کے لئے ہیں جبکہ خواص کے لئے راستے نکال لیے جاتے ہيں۔
ستم ظریفی کی انتہا دیکھیے کہ میڈیا، قانون اور عوام کی نظروں سے بچ بچا کر سائنسی بنیادوں پر بھی میرٹ کی پامالی کی جاتی ہے۔ بظاہر بڑے صاف اور شفاف طریقہ کار سے شارٹ لسٹنگ، ٹیسٹ اور انٹرویوز کا عمل کیا جاتا ہے مگر آخر ميں زیادہ ترانتخاب اقربا پروری، سفارش یا رشوت کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے۔ بڑے بڑے مقابلے اور ٹیسٹگ سروسز کے امتحانات بھی شک وشبے سے بالاتر نہیں اور ان میں ہونے والی بے قاعدگیاں آئے روز اخبارات اور میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہيں۔
میرٹ کو یقینی بنانے کے لئے بھرتیوں کے عمل کے لئے اہل، قابل اور ایماندار افراد کو ذمہ داریاں تفویض کرنی چاہئیں۔ آن لائن نظام کو فروغ دینا چاہیے۔ ایک آسامی کے لئے سب امیدواروں سے ایک جیسا ٹیسٹ اور انٹرویو ہونا چاہيے نہ کہ عام آدمی سے سخت و مشکل اور سفارشی سے آسان سوالات۔ سارا طریقہ کار خفیہ رکھنے کے بجائے اوپن ہونا چاہیے۔ انٹرویوز کی ریکارڈنگ بھی ہونی چاہیے۔ ٹیسٹ اور انٹرويوز کی ریکارڈنگ ہر کسی کی پہنچ میں ہونی چاہیے تاکہ صرف اہل افراد ہی آگے آ سکیں اور میرٹ کو یقینی بنایا جا سکے۔
قارئين، اس بہت بڑے مسئلے پر قابو پانے کے لئے فوری طور پر ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف چند تجاویز ہیں مگر عمل تو اس پر حکومت کو ہی کرنا ہوگا۔
مصنف پیشے سے انجینئر ہیں اور ساتھ ایم بی اے بھی کر رکھا ہے- لکھنے سے جنون کی حد تگ شغف ہے اور عرصہ دراز سے مختلف جرائد اور ویب سائٹس میں لکھ رہے ہیں