تنخواہوں میں کمی اور بے روزگاری سمیت صحافیوں کو کئی مشکلات کا سامنا ہے

لاہور میں گذشتہ پانچ برسوں کے دوران نوکریوں سے نکالے جانے والے صحافیوں اور میڈیا کارکنان کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ کے مطابق 2017 کے بعد سے 10 ہزار سے زائد صحافیوں کو ملازمتوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔

تنخواہوں میں کمی اور بے روزگاری سمیت صحافیوں کو کئی مشکلات کا سامنا ہے

پاکستان میں گذشتہ چند برسوں سے صحافتی شعبہ تنزلی کا شکار ہے، ہزاروں صحافی کارکن نوکریوں سے فارغ کئے گئے ہیں، معاشی سکیورٹی صحافیوں کے لئے اہم مسئلہ بن چکی ہے۔ ساؤتھ ایشیا پریس فریڈم رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف مئی 2018 سے اپریل 2019 کے ایک سال کے عرصے میں 2 ہزار صحافی (ورکنگ جرنلسٹ) اور غیر صحافتی عملے (نان جرنلسٹ سٹاف) کو نوکریوں سے فارغ کیا گیا ہے۔ نوکریوں سے نکالے جانے والے صحافیوں کی بڑی تعداد شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے اور وہ ایسے پیشے اختیار کرنے پر مجبور ہیں جنہیں روزگار کا ذریعہ بنانے کے بارے میں انھوں نے سوچا تک نہیں تھا جبکہ دوسری طرف میڈیا انڈسٹری میں جن لوگوں کا روزگار برقرار ہے وہ بھی بے یقینی کا شکار ہیں اور روزگار چھن جانے کا خوف ہر وقت ان کے سروں پر سوار رہتا ہے۔

نوکری سے فارغ ہونے والوں کے حالات

رانا محمد شہزاد لاہورکی ایک شاہراہ پر لنڈے کے کپڑے بیچتے ہیں۔ رانا محمد شہزاد مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ساتھ بطور چیف رپورٹر، پروڈیوسر، اسائنمنٹ ایڈیٹر اور بیورو چیف کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ زندگی کے 25 سال شعبہ صحافت کو دینے والے رانا شہزاد ان دنوں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

رانا شہزاد نے بتایا کہ انہوں نے 1998 میں عملی صحافت کا آغاز کیا۔ 2007 میں لینڈ مافیا کے خلاف ایک سٹوری کرنے پر لاہور کے علاقہ جلو کے قریب ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں انہیں پانچ گولیاں لگیں تاہم ان کی زندگی بچ گئی۔ انہوں نے اس واقعہ کے خلاف نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کروایا اور پولیس کو بتایا کہ وہ ملزمان کے سامنے آنے پر انہیں پہچان سکتے ہیں لیکن آج تک ملزم نہیں پکڑے جا سکے۔

انہوں نے بتایا کہ گولیاں لگنے کے بعد وہ کئی ماہ تک ہسپتال میں رہے اس وجہ سے کیس کی پیروی نہ کر سکے۔ دوسرا جس تھانے میں مقدمہ درج ہوا تھا وہ شہر سے دور لاہور کے بارڈر ایریا میں تھا۔ لینڈ مافیا مضبوط تھا اس وجہ سے آج تک ملزم گرفتار نہیں ہو سکے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں نیورو پرابلم بھی بن گئی ہے جس کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتے ہیں، اسی وجہ سے ان کا چار مرتبہ ایکسیڈنٹ ہوا اور ان کا ایک بازو مختلف جگہوں سے ٹوٹ چکا ہے۔ رانا محمد شہزاد کے مطابق انہیں کینسر بھی ہے۔ ان کے جسم سے چار ٹیومر نکالے جا چکے ہیں جبکہ دو ابھی جسم کے اندر ہی ہیں لیکن ان کے پاس علاج کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ محکمہ تعلقات عامہ پنجاب نے انہیں 20 ہزار روپے کا چیک دیا تھا۔ جبکہ وفاقی حکومت کی طرف سے انہیں تین لاکھ روپے دیے گئے تھے جس سے دو ٹیومر نکلوائے اورکچھ قرض کی ادائیگی میں خرچ ہو گئے۔ رانا شہزاد کا کہنا ہے کسی صحافتی ادارے اور تنظیم نے ان کی مدد نہیں کی لیکن چند سینیئر صحافیوں نے ذاتی طور پر ان کی کافی مدد کی جن میں ارشد شریف مرحوم، عمران ریاض خان، سلمان غنی، آصف بٹ، رانا عظیم سمیت چند دیگر صحافی شامل ہیں۔

رانا شہزاد کی بیماری کے دوران ہی ان کی اہلیہ کی بھی روڈ ایکسیڈنٹ میں موت ہو گئی تھی، اب وہ اپنے بچوں کی خود ہی پرورش کر رہے ہیں۔ رانا محمد شہزاد نے بتایا کہ کوئی ادارہ اب انہیں نوکری نہیں دیتا کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ میں بیمار ہوں۔

رانا محمد شہزاد کی طرح کئی اورصحافی بھی ہیں جو نوکری سے فارغ ہونے کے بعد معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ کسی نے سبزی کی دکان لگائی تو کوئی ٹھیلہ لگا کر نان ٹکیاں بیچنے لگا۔ لاہور میں ایک سینیئرصحافی تو چنگ چی رکشہ بھی چلاتے رہے ہیں۔

صحافیوں کی دوسروں شعبوں میں قسمت آزمائی

نوکریوں سے نکالے جانے کی وجہ سے جہاں کئی صحافیوں کے معاشی حالات ابتر ہیں، وہیں ایسے صحافیوں کی بھی کمی نہیں جنہوں نے نوکری سے فراغت کے بعد دوسرے شعبے میں قسمت آزمائی کی اور بہتر روزگار کما رہے ہیں۔ جبکہ بعض صحافی ایسے بھی ہیں جو صحافت کے ساتھ ساتھ ذاتی بزنس بھی کر رہے ہیں۔ ہم نیوز کے سینیئر رپورٹر حسنین چودھری صحافت کے ساتھ لاہور کے پوش علاقے میں عریبین نان شاپ چلا رہے ہیں۔ اسی طرح ایک اور رپورٹر ارشد مہدی صحافت کے ساتھ کپڑے کا کاروبار کر رہے ہیں۔

حسنین چودھری اور ارشد مہدی دونوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسے شعبوں کا انتخاب کیا جہاں زیادہ کام ورکرز سے لینا ہوتا ہے۔ وہ خود نگرانی کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کی صحافت متاثر نہیں ہوئی ہے بلکہ معاشی طور پر بہتر ہونے کی وجہ سے وہ اعتماد کے ساتھ صحافتی فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

خواتین صحافیوں سمیت کئی جرنلسٹ ایسے ہیں جو شعبہ صحافت کو خیرباد کہہ کر کسی دوسری جگہ نوکری کر رہے ہیں یا ان کا خود کا کاروبار ہے۔ نیو نیوز کے سابق رپورٹر زبیر ساجد ڈھلوں دبئی میں پراپرٹی کا کاروبار کر رہے ہیں۔ جیو نیوز کے سابق رپورٹر ذیشان بخش اور ایکسپریس نیوز کے سابق پروڈیوسرعامر کمال یوکے میں جاب کر رہے ہیں۔ خواتین کی بات کریں تو سماء نیوز فیصل آباد کی رپورٹر شہناز محمود نوکری سے نکالے جانے کے بعد کافی عرصہ تو معاشی مشکلات کا شکار رہیں تاہم اب وہ لائل پور میوزیم میں بطور پی آر او کام کر رہی ہیں۔ سماء نیوز کی سابق رپورٹر تہمینہ احمد محکمہ سیاحت پنجاب میں بطور پی آر او کام کر رہی ہیں۔ اسی طرح سٹی 42 کی سابق رپورٹر سعدیہ خان پنجاب فشریز ڈیپارٹمنٹ میں جاب کر رہی ہیں جبکہ اسی ادارے کی ایک اور رپورٹر فضہ عمران نے خود کا بیوٹی پارلر اور سیلون بنایا ہے اور بہتر زندگی گزار رہی ہیں۔

صحافت کے ساتھ ساتھ اپنا کاروبار کرنے کا مشورہ

فضہ عمران کہتی ہیں کہ پاکستان میں گذشتہ چار پانچ برسوں میں میڈیا کے حالات کافی خراب ہو چکے ہیں، سینکڑوں صحافی اور میڈیا کارکن بے روزگار ہوئے ہیں۔ صحافتی اداروں سے بے روزگار ہونے والوں میں خواتین کی بھی کافی تعداد ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ہاں خواتین کو پہلے ہی نوکری کے لئے بڑی مشکل سے اجازت ملتی ہے اور جب ادارہ انہیں نوکری سے فارغ کرتا ہے تو والدین کو موقع مل جاتا ہے اور فوراً اس کی شادی کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح صحافتی شعبے میں کچھ نمایاں کرنے کا ان کا خواب ادھورا رہ جاتا ہے۔

فضہ عمران کا کہنا ہے کہ وہ اپنے صحافی دوستوں کو مشورہ دیں گی کہ وہ کوئی بھی خود کا کاروبار بہتر انداز میں شروع کریں، جس طرح میں نے بیوٹی پارلر بنایا ہے۔ آج میرے پاس درجنوں لڑکیاں ملازمت کر رہی ہیں۔ جبکہ ایک وہ وقت تھا جب مجھے چند ہزار کی نوکری کے لئے دن رات کام کرنا پڑتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ خود کا کاروبار شروع کرنا بظاہر آسان نہیں ہے لیکن اگر آپ محنت کرتے ہیں اور بہتر انداز میں کام کرتے ہیں تو یقیناً کامیابی ملے گی۔ نوکری کی عادت ترک کرنا مشکل ضرور ہوتا ہے لیکن خود پر اپنی صلاحیتوں پر انحصار کریں، اپنے کاروبار کا آغاز اس نیت سے کریں کہ آپ کے حالات بہتر ہوں گے، ساتھ ہی دو چار اور بے روزگار لوگوں کو روزگار ملے گا۔

گذشتہ پانچ برسوں میں 10 ہزار صحافی کارکن بے روزگار ہوئے؛ رپورٹ

پاکستان میں گذشتہ چار پانچ برسوں میں کتنے صحافی اور میڈیا کارکن نوکریوں سے فارغ ہوئے یا انہوں نے خود اس شعبے کو خیرباد کہا، صحافیوں کی کسی بھی تنظیم کے پاس اس کے درست اعداد و شمار نہیں ہیں۔ تاہم ساؤتھ ایشیا پریس فریڈم رپورٹ کے مطابق صرف مئی 2018 سے اپریل 2019 کے ایک سال کے عرصے میں 2 ہزار صحافی (ورکنگ جرنلسٹ) اور غیر صحافتی عملے (نان جرنلسٹ سٹاف)کے ارکان کو نوکریوں سے فارغ کیا گیا ہے تاہم صحافتی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ صرف لاہور میں گذشتہ پانچ برسوں کے دوران نوکریوں سے نکالے جانے والے صحافیوں اور میڈیا کارکنان کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے صدر افضل بٹ کے مطابق 2017 کے بعد سے صحافیوں کا معاشی قتل شدت اختیار کر گیا ہے۔ ان کے بقول گذشتہ چار پانچ برسوں کے دوران 10 ہزار سے زائد صحافیوں کو ملازمتوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔

صحافی کارکنوں کی برطرفیوں پر صحافتی تنظیموں کا ردعمل

لاہور پریس کلب کے سیکرٹری اور سینیئر صحافی عبدالمجید ساجد کہتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ مختلف وجوہات کی بنا پر سینکڑوں صحافی بے روزگار ہوئے ہیں۔ پریس کلب اور صحافتی تنظیموں نے ہر فورم پر اس کے خلاف آواز اٹھائی اور احتجاج کیا۔ سابق وزیر اعظم شہباز شریف، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب، پنجاب اسمبلی کے فلور، گورنر ہاؤس، پریس کلب کے باہر اور ہر اس فورم پر صحافیوں کو نوکریوں سے نکالے جانے کے خلاف آواز اٹھائی ہے جہاں پر ممکن تھا۔ بعض صحافتی اداروں کے دفاتر کے باہر بھی احتجاج اور دھرنے دیے گئے۔ اس وجہ سے صحافیوں کو ان کے واجبات ملے اور اداروں سے جبری برطرفیوں کے سلسلے میں نمایاں کمی آئی ہے۔

الیکٹرانک میڈیا رپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر آصف بٹ کہتے ہیں کہ جب بھی کسی صحافی کو نوکری سے نکالا گیا یا ان کے واجبات کی ادائیگی کا مسئلہ بنا وہ سب سے پہلے اپنے ساتھیوں سمیت اس ادارے میں گئے اور احتجاج کیا۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں کی بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو دیکھتے ہوئے انہوں نے ساتھیوں کی مدد سے روزنامہ ایمرا کا آغاز کیا، یوٹیوب پرایمرا نیوز شروع کیا۔ اس ادارے کے ساتھ اب درجنوں صحافی کارکن کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بے روزگار ہونے والے متعدد صحافیوں کی ماہانہ بنیادوں پر مالی معاونت کی جاتی ہے۔ انہیں خود کا کاروبار شروع کرنے کے لئے قرض حسنہ بھی دیا گیا تا کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔

آصف بٹ کہتے ہیں وہ روزنامہ ایمرا نیوز، روزنامہ بلدیات، سپورٹس چینل، ڈیجیٹل چینل چلا رہے ہیں جبکہ ایشیا کا پہلا سپیشل چینل بھی ہے جہاں کام کرنے والے تمام ملازم سپیشل پرسن ہیں۔ ڈیجیٹل چینل کا اینکر سعد مصطفیٰ بھی نابینا ہے۔ اس کے علاوہ بہت جلد روزنامہ پارلمینٹ شروع کرنے جا رہے ہیں۔

یہ ادارہ مختلف کاروباری افراد کی شراکت داری سے چل رہا ہے۔ اس وقت لاہور میں 126 افراد، ملتان میں 46، اسلام آباد میں 25 اور کراچی میں بھی تقریباً 20 صحافی ان کے ادارے سے منسلک ہیں اور اب وہ پشاور، کوئٹہ اور گوجرانوالہ سمیت دیگر شہروں میں بھی دفاتر بنا کر اپنے صحافی بھائیوں کو روزگار دیں گے۔ ایمرا نیوز میں کام کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہاں بہت بھاری تنخواہیں تو نہیں ہیں لیکن اللہ کا شکر ہے انہیں ہر ماہ معقول تنخواہ ملتی ہے جس سے ان کے گھروں کے چولہے جل رہے ہیں۔

لاہور پریس کلب کے صدر کو بھی پی ٹی وی کے پروگرام سے ہاتھ دھونا پڑے

لاہور پریس کلب کے صدر اور سینیئر صحافی اعظم چودھری کو حال ہی میں پی ٹی وی سے صرف اس وجہ سے بطور تجزیہ کار فارغ کر دیا گیا کہ انہوں نے (سابق) وزیر اعظم شہباز شریف کے سامنے 30 جون کو پنجاب کے گورنر ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران میڈیا پر پابندیوں کا معاملہ اٹھایا تھا۔ انہوں نے وزیر اعظم سے سوال کیا کہ میڈیا پر پابندیاں کب اور کیسے ختم ہوں گی اور مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جیسی سیاسی جماعتوں نے آزادی اظہار کی حمایت کیوں نہیں کی؟ شہباز شریف نے جواب دیا تھا کہ وہ پابندیوں کے خلاف ہیں اور معاملہ (سابق) وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کو بھجوا دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ماضی پر غور نہیں کرنا چاہتے لیکن جو کچھ ہوا اس سے وہ واقف ہیں۔ انہوں نے اعظم چودھری کو یقین دلایا کہ ان کے جائز خدشات کو دور کیا جائے گا۔

اعظم چودھری کے مطابق اس پریس کانفرنس کے بعد انہیں پی ٹی وی کی ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں پی ٹی وی نے تجزیہ کار کے طور پر رکھا تھا، لیکن انہیں بغیر کسی وضاحت کے فارغ کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ میڈیا کے دباؤ اور دھمکیوں کا شکار ہیں۔

تاہم پی ٹی وی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اعظم چودھری کے پروگرامز میں شرکت پر پابندی لگانے کے لیے کوئی ہدایت جاری نہیں کی ہے۔ اعظم چودھری ایک پروگرام میں بطور تجزیہ کار شرکت کر رہے تھے اور آزادانہ طور پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ پی ٹی وی انتظامیہ کے مطابق کسی پروگرام کے لیے متعلقہ تجزیہ کاروں کا انتخاب زیر بحث موضوع پر ہوتا ہے اور یہ پروڈیوسر کی صوابدید ہے۔ پی ٹی وی کے پاس متعدد تجزیہ کار ہیں جن کا انتخاب پروگرام کی ضروریات اور شرکا کی مہارت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ پی ٹی وی انتطامیہ نے یہ بھی بتایا کہ اعظم چودھری ماضی میں متعدد مواقع پر اپنی دیگر مصروفیات کی بنا پر خود بھی مختلف ٹاک شوز میں شرکت سے انکار کر چکے ہیں۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل رانا عظیم کہتے ہیں کہ میڈیا کا روایتی معاشی ماڈل فرسودہ ہو چکا ہے اور اب یہ ماڈل موجودہ حالات سے ہم آہنگ نہیں ہو پا رہا جس کا نتیجہ نوکریوں میں کمی اور میڈیا ہاؤسز میں تنخواہوں میں تاخیر کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ رانا عظیم کہتے ہیں کہ ہر حکومت اور ریاستی ادارے کی خواہش ہوتی ہے کہ تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز ان کے بیانیے کو فالو کریں، کسی حکومت اور ریاستی ادارے کے خلاف چھوٹی سی بھی خبر چل جائے تو وہ ناراض ہو جاتا ہے، اخبارات اور چینلز کے اشتہارات بند کر دیے جاتے ہیں، پیمرا کے ذریعے پابندیاں لگوائی جاتی ہیں اور ناپسندیدہ اینکرز کے پروگرام بند کروا دیے جاتے ہیں۔ اسی صورت حال کو جواز بنا کر صحافتی ادارے کارکنان کو نوکریوں سے نکالتے ہیں یا پھر ان کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

رانا عظیم کا کہنا ہے کہ پی ایف یو جے نے ہر فورم پر اس معاملے سے متعلق آواز اٹھائی ہے، صحافتی اداروں پر دباؤ بڑھا ہے جس کی وجہ سے اب جبری برطرفیوں کا سلسلہ بند ہو گیا ہے بلکہ اب تو نئے میڈیا ہاؤسز بھی قائم ہو رہے ہیں جہاں بے روزگار ہونے والے صحافیوں کو نوکریاں ملی ہیں۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے بھی بہت سے صحافیوں کو متبادل روزگار ملا ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر صحافی طالب فریدی جو کئی برسوں سے ایکسپریس میڈیا گروپ سے وابستہ ہیں، کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے نوکریوں سے نکالے جانے کے خلاف صحافتی تنظیموں نے احتجاج تو ضرور کیے ہیں لیکن بدقسمتی سے صحافی برادری اور تنظیموں کا آپس میں ہی اتحاد نہیں ہے۔ صحافیوں میں عام تاثر ہے کہ صحافتی تنظیموں کے عہدیدار اپنے اپنے اداروں کے مفادات کے لئے کام کرتے ہیں۔ ایک ادارہ کارکنوں کو فارغ کرتا ہے، جب اس کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا جاتا ہے تو اسی ادارے میں کام کرنے والے کارکن ساتھ نہیں دیتے۔ اس وجہ سے بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔

طالب فریدی کہتے ہیں کہ بظاہر معاملات اتنے خراب نہیں جتنے یہ مالکان ظاہر کرتے ہیں۔ ٹی وی چینلوں اور اخبارات کو نجی شعبے سے ملنے والے اشتہار اسی طرح سے مل رہے ہیں جیسے پہلے ملا کرتے تھے۔ ہاں سرکاری اشتہارات میں کمی ضرور واقع ہوئی ہے۔ ایک سال میں یہ کمی لیکن صرف 7 فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک عام صحافی اور میڈیا کارکن کا مسئلہ غیر اعلانیہ سینسرشپ نہیں ہے۔ ان کا مسئلہ ان کا معاشی قتل ہے، یہ لوگ روزگار کا تحفظ چاہتے ہیں۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مہینے کے مہینے تنخواہ لینا چاہتے ہیں تا کہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکیں۔

صحافیوں کو بے روزگار ہونے سے بچانے کے لئے حکومت نے کیا کیا؟

صحافیوں کو بے روزگار ہونے سے بچانے کے لئے حکومت کیا اقدامات اٹھا رہی ہے اور کیوں میڈیا ہاؤسز سے بات نہیں کی جاتی، اس حوالے سے جب پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات عامر میر سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ یہ وفاقی حکومت کا معاملہ ہے اور ویسے بھی نگران حکومت کا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے، مستقل حکومتیں ہی یہ پالیسیاں بناتی ہیں۔ دوسری طرف نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی سے بھی اس بارے میں مؤقف جاننے کے لئے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کہتے ہیں کہ میڈیا ہاؤسز کے حوالے سے بڑا مسئلہ شفافیت کا نہ ہونا ہے۔ تمام بڑے میڈیا گروپس کی فنانشل فائلز ہی موجود نہیں ہیں، قانون کے تحت تمام میڈیا گروپس پیمرا کو اپنے مالی معاملات سے آگاہ کرنے کے پابند ہیں لیکن کسی بھی میڈیا گروپ نے یہ قانونی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ تحریک انصاف کے دور میں صرف ہم نیوز، ڈان نیوز اور بزنس ریکارڈ نے اپنے منافع سے آگاہ کیا تھا جنہوں نے بالترتیب 36 سے 40 فیصد منافع کمایا۔ فواد چودھری کہتے ہیں اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ میڈیا کو انفرادی ملکیت سے نکال کر پبلک لمیٹڈ کمپنی کو دیا جائے تا کہ فنانشنل بکس سامنے آئیں اور عوام اور میڈیا ورکرز کو ادارے کے مالی معاملات کی تفصیلات معلوم ہو سکیں۔ مالی معاملات کی شفافیت کو لے کر میرے خلاف مالکان نے مہم شروع کی اور بدقسمتی سے ہماری حکومت اس دباؤ کے سامنے لیٹ گئی تھی۔

میڈیا ہاؤسز کارکنوں کو نوکریوں سے نکالنے پر کیوں مجبور ہیں؟

کونسل آف پاکستان نیوزپیپرز ایڈیٹرز کے صدر کاظم خان کہتے ہیں کہ اخبارات کی آمدن کے دو بڑے ذرائع ہیں؛ ایک سرکاری اشتہارات جبکہ دوسرا پرائیویٹ سیکٹر کے اشتہارات۔ حکومتی اشتہارات کے ریٹ بہت کم ہیں جبکہ پرائیویٹ سیکٹر کی بات کریں تو یہاں تین بڑے شعبے تھے جن میں پہلے نمبر پر موبائل کمپنیاں، ریئل سٹیٹ، کاروباری ادارے اور تعلیمی اداروں کے اشتہارات شامل ہیں۔ بدقسمتی سے ٹیلی کام کمپنیوں کے اشتہارات ٹی وی چینلز پر منتقل ہو گئے۔ اخبارات کے لئے دوسرا مسئلہ ڈالر کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔ کاغذ، سیاہی سمیت دیگر سامان بیرون ملک سے امپورٹ کیا جاتا ہے۔ جو کاغذ پہلے 150 روپے فی کلوگرام تھا وہ 400 سے 450 روپے کلو تک پہنچ چکا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گذشتہ دنوں سی پی این ای کے وفد نے شہباز شریف (اس وقت وہ وزیر اعظم تھے) سے ملاقات کی تھی اور انہوں نے یقین دلایا تھا کہ سرکاری اشتہارات کے نرخ 35 فیصد تک بڑھائے جائیں گے لیکن اس پر ابھی تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل اخبارات کو سرکاری اشتہارات کے حوالے سے پالیسی تو بن چکی ہے لیکن اس پرعمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔ ریجنل اخبارات بند ہو رہے ہیں جبکہ قومی اخبارات پر برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں اخبارات مالکان اور ایڈیٹرز کے لئے سوائے اس کے دوسری آپشن نہیں رہ جاتی کہ وہ سٹاف میں کمی کریں۔

اسی حوالے سے جب الیکٹرانک میڈیا سے صحافیوں کی چھانٹی، ان کی تنخواہوں میں کٹ لگائے جانے کی وجوہات جاننے کے لیے نیو نیوز کے ڈائریکٹر نیوز محمد عثمان سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ میڈیا انڈسٹری اب ایک بزنس کے طور پر چلائی جا رہی ہے۔ اب وہ جذبہ نہیں رہا کہ مالکان نقصان اٹھائیں اور میڈیا ہاؤسز کو چلائیں۔ میڈیا ہاؤسز کی آمدن کا ذریعہ اشتہارات ہیں۔ پہلے 7، 8 چینل تھے تو ریونیو ان اداروں میں ہی تقیسم ہوتا تھا۔ اب جبکہ 18 سے 20 چینل ہیں۔ اس وجہ سے ریونیو کی شرح کم ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ اشتہارات اب ٹی وی چینلز کے علاوہ ڈیجیٹل میڈیا کو دیے جا رہے ہیں۔

دوسری طرف اگر ہم اخراجات کو دیکھیں تو آپریشنل لاگت مہنگائی کی وجہ سے کئی گنا تک بڑھ گئی ہے۔ صرف بجلی کے بل جو ایک ادارے کے سالانہ 50 لاکھ روپے تھے، وہ سوا کروڑ روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ ان حالات میں جب مالکان کو خسارے کا سامنا ہے یا پھر ان کا منافع کم ہو گیا ہے تو پھر اس کا اثر کارکنان پر پڑتا ہے۔ چھانٹیاں کی جاتی ہیں، تنخواہوں میں کٹ لگائے جاتے ہیں۔

محمد عثمان کہتے ہیں کہ اس وقت الیکٹرانک میڈیا میں ایک نیا ٹرینڈ سامنے آ رہا ہے، ریئل سٹیٹ سیکٹر خود میڈیا ہاؤسز خرید رہا ہے۔ نئے چینل آ رہے ہیں، صحافی کارکنان کو روزگار اور مقابلے کی وجہ سے اچھے سیلری پیکج مل رہے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ ٹرینڈ مستحکم رہے گا۔ تو اس کا جواب کوئی مثبت نظر نہیں آتا کیونکہ ماضی کی چند مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ریئل سٹیٹ سیکٹر سے میڈیا میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے بے شک اپنے مفادات ہوتے ہیں وہ چند ماہ تک تو بھاری تنخواہیں اور مراعات دیتے ہیں لیکن جب انہیں ریونیو نہیں آتا، توقع کے مطابق منافع نہیں ملتا تو وہ اس کا ذمہ دار صحافیوں کو قرار دے کر یا تو انہیں نوکری سے نکال دیتے ہیں یا پھر تنخواہوں میں کٹوتی کی جاتی ہے۔

آصف محمود براڈکاسٹ جرنلسٹ اور فری لانسر ہیں۔ وہ ایکسپریس نیوز کے ساتھ بطور رپورٹر وابستہ ہیں۔