مولا جٹ ایک شاہکار فلم تھی بقول ہمارے چند ایک فلمی نقادوں کے، لیکن اس کے بعد ہماری ساری فلمی صنعت اسی کامیابی والے طبعی و کیمیائی فارمولے پر لگ گئی اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ آج فلمی صنعت رو بہ زوال ہے اور فلمی پیشہ ور ماہرین کا انحطاط ہے۔ لوگ ان پرانے سنیما گھروں میں جانا پسند نہیں کرتے خاص طور پر خاندان کے ساتھ۔ لیکن کیا ہدایتکار و پیش کار نے کچھ سیکھا؟ اس کا جواب نہیں ہے۔ ابھی بھی وہی مولا جٹ فلم فارمولا چل رہا ہے۔ اکثر سنیما گھر بند ہو چکے ہیں۔ ان کی جگہ شاپنگ مالز یا گیس سٹیشنز نے لے لی ہے۔
تمہید کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہمارے سیاسی پیش کاروں و ہدایت کاروں نے بھی ان تمام باتوں کے باوجود پرانی روش ہی اختیار کی ہوئی ہے۔ اس ملک میں 1947 سے جاری سیاسی فلم بھی اسی گھسی پٹی روایت پر چل رہی ہے جہاں مقتدرہ جو کہ اس فلم کی ہدایت کار و پیش کار ہے ایک سیاسی جماعت و اس کے قائد سے محبت و تعاون کا ایسا عہد استوار کرتی ہے کہ وہ سیاسی جماعت سیاسی فرقہ بن جاتی ہے۔ جب وہ سیاسی فرقہ بن کر اسی مقتدرہ کا قلع قمع کرنے نکلتی ہے تو ریاستی طاقت کا استعمال کر کے اسے مطلوبہ بوتل کے سائز میں لا کر بند کر دیا جاتا ہے۔ پھر جب ضرورت ہوتی ہے تو اسی بوتل میں گیس بھر دی جاتی ہے اور مائع کو بوتل سے نکال کر لوگوں کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔
کسی بھی سیاسی جماعت کو بنانے اور چلانے کے لئے بہت کثیر وسائل درکار ہوتے ہیں وہ بھی ہمارے جیسے مطلق العنان قسم کے پدر شاہی معاشروں میں۔ یہ نہیں ہے کہ معروضی حالات سازگار نہیں ہوتے ہیں۔ حالات تو سازگار ہوتے ہیں اور حقیقی طور پر سیاسی خلا بھی موجود ہوتا ہے۔ مگر کسی تحریک کو زندہ رکھنا اور پھر اس تحریک یا سیاسی جماعت کو طاقت کی راہداریوں تک لے کر جانا ایک مکمل منصوبہ ہوتا ہے اور اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہچانے کے لئے ہمارے ملک کے نا معلوم افراد ید طولیٰ رکھتے ہیں۔
وہ تمام سیاسی جماعتیں جن کی مصنوعی طریقوں سے افزائش نسل کر کے انھیں سیاسی جماعت کے طور پر پیش کیا گیا ہے ان سب کا نام تحریک ہے۔ وہ تحریک انصاف ہو، متحدہ قومی موومنٹ ہو، یا چند ایک کا نام بوجوہ میں یہاں لینے سے قاصر ہوں۔ کیونکہ نا معلوم افراد متحرک چیزوں پر تکیہ کرتے ہیں اور انھیں ہی پسند کرتے ہیں اسی لئے سیاسی فلمیں پیش کرنے میں نہایت متحرک و مصروف نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولا جٹ کی طرح ناموں میں بھی یکسانیت کا شکار پائے گئے ہیں۔ تحریک کے لفظ سے چھٹکارا نہیں حاصل کر پا رہے جیسے فلم ساز گجر اور جٹ سے۔
جب بھی کوئی سیاسی جماعت سیاسی حقیقت کے طور پر ابھرتی نظر آتی ہے تو ہمارے ملک میں اس کا قلع قمع کرنے کے لئے نئی سیاسی مذہبی جماعت کا اجرا کر دیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے خلاف اتحاد کو مذہبی رنگ دے کر نظام مصطفیٰ جیسی تحریک کو وجود میں لایا گیا۔ سیاسی محاذ پر پیپلز پارٹی کا قلع قمع کرنے کے لئے آئی جے آئی کو تشکیل دے کر نوازشریف کو متبادل قیادت بنایا گیا۔ مسلم لیگ ن، جونیجو لیگ اور آئی جے آئی کے بطن سے وجود میں آئی۔ اس کے لئے جماعت اسلامی کو تقویت بخشی گئی اور قاضی حسین احمد مرحوم کو متبادل قیادت بنایا گیا۔ پھر جب ضرورت محسوس ہوئی تو عمران خان کو معاشرتی انصاف کا بیانیہ تھما کر متبادل قیادت بنا کر سامنے لایا گیا۔ جب یہ دیکھا گیا کہ دال ابھی بھی گلنے کے قابل نہیں تو علامہ خادم حسین رضوی مرحوم کی تحریک منظر عام پر لائی گئی۔ درمیان میں دفاع پاکستان کونسل نامی انقلابات بھی وجود میں لائے گئے۔ حالیہ دنوں میں ری امیجننگ پاکستان اور استحکام پاکستان پارٹی کی افزائش نسل کی تیاری کی گئی ہے۔
نوری نت ہو یا مولا جٹ، ہر کسی کو ہدایت کار و پیش کار نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اور پھر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ کہانی کا آغاز و انجام کم و بیش ایک ہی ہے کہ جب کوئی اپنے قد سے زیادہ طاقتور ہونے کا دعویدار ہو اس کو راستے سے ہٹا دو۔ پھر اس جن کو بوتل میں بند کرو اور اس سے بھاؤ تاؤ کرو تا کہ آپ کی مطلوبہ خدمت کے معیار پر پورا اترے۔ جب وہ جن حکومت میں ہو یا حزب اختلاف میں تو اس کے متعلق بدعنوانی کا مواد اکٹھا کرو تا کہ بوقت ضرورت کام آ سکے اور چھوٹے بڑے ساشوں میں عوام الناس کی خرید کے لئے پیش کیا جا سکے۔
حالیہ دنوں میں آپ توشہ خانہ سے لے کر سائفر اور القادر ٹرسٹ کیس کو دیکھ لیں جنھیں حسب توقع و توفیق و ضرورت بازار میں تحریک انصاف کی سبکی کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔ بلکہ اس بیانیہ کے فروغ کے لئے بھی شبانہ روز محنت کی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف حکومت کے لئے بھی ایسے ہی اجرت پر چند ایک صحافی رکھے گئے تھے جنھیں خفیہ طور پر مواد دکھایا اور فراہم کا جاتا تھا تا کہ وہ مسلم لیگ ن کا شب و روز احتساب کر سکیں۔ میرے اس جملہ سے تحریک انصاف کے ہمدرد و کارکنان ہرگز یہ نا سمجھیں کہ میں ن لیگ کا چاہنے والا ہوں۔ میں تو اس سارے گلے سڑے نظام کے خلاف ہوں اور حقیقی معنوں میں غیر جانبدار ہوں۔
یہ پیشہ ور ملزموں کا ایک ٹولہ ہے جسے ہر دفعہ پیکنگ کی تجدید نو کر کے عوام الناس کے لئے پیش کر دیا جاتا ہے اور عوام کو ایک ہی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے کہ اب احتساب ہو گا، پاکستان ترقی کرے گا، وغیرہ وغیرہ جو 75 سال میں نہیں ہو سکی۔ یہ سب اپنے اپنے مفادات کے لئے اس نظام کا حصہ ہیں۔ سیاست دان ہوں، مقتدر حلقہ ہو، بیوروکریسی ہو یا علما کرام ہوں؛ سب معاشی استعمار، معاشرتی استعمار اور مذہبی استعمار کے غلام ہیں۔ عوام الناس بس نعرے لگانے کے لئے اور بغلیں بجانے کے لئے ہیں۔ بجاتے رہیں، 75 سال سے یہی کچھ تو چل رہا ہے۔
باقی میں تحریک انصاف اور عمران خان کو اس بات کی مبارکباد کا مستحق ضرور سمجھتا ہوں کہ بالآخر انھوں نے نظام کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں کہ جو تقطیب کاری صرف ظاہری نظر آتی تھی وہ گھروں، اداروں یہاں تک کہ شخصیات میں بھی سرایت کر چکی ہے بلکہ حق و باطل کا معرکہ بن چکی ہے جس کا آخری منظرنامہ ہم 9 مئی 2023 کو دیکھ چکے ہیں۔ اس بیانیہ و نظریہ کے خاتمہ کے لئے نجانے مزید کتنی دہائیاں درکار ہوں، خدائے بزرگ و برتر کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
معیشت و معاشرتی اقدار کا جنازہ نکل چکا ہے بس تدفین باقی بچی ہے۔ باقی جس طریقہ سے تحریک انصاف کے خاتمہ کی کوشش جاری ہے وہ طریقہ مزید نفرت کو ہوا دے گا۔ اس لئے میں آج بھی سیاست دانوں سے درخواست کروں گا کہ مسائل بذریعہ بات چیت پارلیمان میں حل کر لیں تا کہ اونٹ کسی کروٹ تو بیٹھے اور حکومت اور حزب اختلاف کے لئے دوا دارو کا بندوبست بھی مستقل بنیادوں پر ہو سکے۔