معروف سماجی کارکن شمع جونیجو نے کہا ہے کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائر ہونے کی بجائے کچھ وقت اور ٹھہر جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک دفعہ حکومت کی طرف سے یہ اعلان ہو جائے کہ نیا آرمی چیف کون آ رہا ہے تو غیر یقینی صورت حال ختم ہو جائے گی۔
ہفتے کی شام کو نیا دور ٹی وی کے پروگرام ' سیاپا' میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ق) کے رہنما مونس الہٰی کو خواب آ گیا ہے کہ وہ عمران خان کے جانشین ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کپتان کے ہر جلسے میں تین چار کروڑ کا خرچہ ہو رہا ہے۔ کوئی ان سے کیوں نہیں پوچھتا کہ اتنے برے حالات میں یہ کروڑوں روپے کیوں لگا رہے ہیں؟ کوئی عدالت ان سے یہ سوال کیوں نہیں پوچھتی؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں اتنے بڑے پیمانے پر سیلاب آیا ہوا ہے وہاں کوئی الیکشن کی بات کرتا ہے تو ہمیں اس کی مذمت کرنی چاہیے۔ صرف سندھ کے وزیراعلیٰ ہمیں فیلڈ میں نطر آتے ہیں۔ پنجاب کا وزیراعلیٰ جلسے کی کرسیاں سیدھی کر رہا ہے۔ بلوچستان کا تو اللہ جانے وزیراعلیٰ کون ہے۔ وزیراعظم ہمیں الٹا یہ سمجھا رہے ہیں کہ سیلاب کے بعد گندم کی فصل اچھی ہوگی۔ مجھے ان لوگوں پہ زیادہ غصہ ہے جو عمران خان کے جلسے میں جا کر ناچتے ہیں۔
شمع جونیجو کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اس وقت Divide and Rule والی پالیسی پر عمل کر رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اس وقت نیوٹرل نہیں ہے بلکہ سائلنٹ ہے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ مین اسٹریم میڈیا ابھی تک خان صاحب کے جلسے دکھا رہا ہے اور لوگوں کو انٹرٹینمنٹ فراہم کر رہا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی معروف سیاسی کارکن نایاب گوہر جان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمارا سب سے بڑا فوکس سیلاب زدگان ہونا چاہیے۔ باقی لوگ تو کچھ نہ کچھ کر ہی رہے ہیں۔ صرف ایک شخص کے لئے اس وقت بھی خود کی سیاست چمکانا اور جلسے کرنا زیادہ اہم ہے۔ عمران خان اس وقت صرف اور صرف اپنی سیاست کی بات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں یہ واضح ہوگیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے معاہدے سے پیچھے ہٹ کر ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ عمران خان نے ہمیشہ اپنے سیاسی مفادات کو ملک پر ترجیح دی ہے۔ سیلاب کے دوران بھی ان کا وہی رویہ ہے جو قابل مذمت ہے۔ ایک سیاسی جماعت کی ہٹ دھرمی اور دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر نہ بیٹھنے کی وجہ سے ملک کی سیاسی اور معاشی حالت بہت بری ہو گئی۔
پروگرام ' سیاپا' میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پچھلے تین چار سالوں میں این جی او کے لفظ کو متنازع بنا دیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت اینٹی این جی او اور اینٹی سول سوسائٹی نہیں ہے۔ اب حکومت کو چاہئیے کہ وہ ریلیف آرگنائزیشنز کو امدادی کاموں کی اجازت دے دے۔
خان صاحب نے جس طرح اعلان کیا ہے کہ وہ نو حلقوں کے ضمنی انتخابات میں خود کھڑے ہوں گے اور اگر وہ جیت جاتے ہیں تو ان کی طرف سے خالی کی جانے والی سیٹوں پر دوبارہ انتخابات کروانے کے اخراجات کیوں برداشت کئے جائیں؟
اس پروگرام کی میزبان فوزیہ یزدانی ہیں اور یہ ہر ہفتے اور اتوار کی رات 9 بجے نیا دور ٹی وی پر پیش کیا جاتا ہے۔