'سنی اتحاد کونسل سے اتحاد ہماری غلطی تھی, 80سے زائد سیٹیں کھو نی پڑیں'

شیر افضل مروت نے پارٹی کے غلط فیصلوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دو فیصلے غلط ہوئے جس کی ہم بھاری قیمت اداکر رہے ہیں۔اگر وہ غلط فیصلہ نہ کیا جاتا تو ہم نشان سے محروم نہ رہتے۔غلط فیصلوں کی وجہ سے 80سے زائد سیٹوں کا نقصان ہوا۔

'سنی اتحاد کونسل سے اتحاد ہماری غلطی تھی, 80سے زائد سیٹیں کھو نی پڑیں'

سنی اتحاد کونسل سے اتحاد غلطی تھی جس کی وجہ سے ہم نے 80سے زائد سیٹیں کھو دیں۔ پی ٹی آئی کے غلط فیصلوں کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ یہ دعویٰ کیا ہے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شیر افضل مروت نے۔

پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت نے جیو نیوز کے پروگرام  آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان  پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے سے مایوس ، ناخوش ہوئے۔انہوں نے کہا کہ  فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کریں۔

شیر افضل مروت نے پارٹی کے غلط فیصلوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دو فیصلے غلط ہوئے جس کی ہم بھاری قیمت اداکر رہے ہیں۔ پہلی غلطی اس وقت ہوئی جب عمران خان نے جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) شیرانی گروپ  کی پارٹی سے اتحاد کا کہا تاکہ اگر کسی صورت میں بلے کا نشان پارٹی کو نہ ملتا تو بطور متبادل شیرانی صاحب کی پارٹی کی شکل میں رہتے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

انہوں نے بتایا کہ اسد قیصر، بیرسٹر گوہر اور مجھے ٹاسک دیا گیا ۔ ہم نے شیرانی صاحب سے کئی ملاقاتیں کیں۔ ہم کچھ ٹی اوآر پرپہنچ گئے۔ بلوچستان ،کے پی میں کچھ سیٹوں کی ایڈجسٹمنٹ پر بانی پی ٹی آئی تیار ہوگئے اور انہوں نے  ٹی اوآر پر دستخط کرکے پبلک کردیں۔ پھر ہم نے میڈیا میں اعلان کر دیا کہ شیرانی صاحب سے اتحاد ہوگیا ہے پھر  تین چاردن بعد اچانک شیرانی صاحب کی پارٹی کا پتہ کٹ گیا اور بلے باز سامنے آگیا۔ بلے باز کو کون لایا؟ کیوں آیا اور شیرانی صاحب کو کیوں ہٹایا گیا یہ سوالیہ نشان ہے۔

شیر افضل مروت نے پی ٹی آئی کے غلط فیصلوں کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی سطح پر اس کے ذمہ داروں کا تعین ہونا چاہیے۔ اگر وہ غلط فیصلہ نہ کیا جاتا تو ہم نشان سے محروم نہ رہتے۔ بے شک بلا نہ ہوتا لیکن شیرانی صاحب کی پارٹی کے نشان پر ہم الیکشن لڑتے۔

پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت نے کہا کہ دوسری بڑی غلطی مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ شمولیت کافیصلہ کر کے ہوئی۔ وحدت مسلمین کے ساتھ سمجھوتے کا مقصد ریزرو سیٹیں بچانا تھیں۔ ان سے سمجھوتے پر ہمیں دھمکی آمیز میسیج آنے لگے۔ تھریٹ کی وجہ سے ہم نے سنی اتحادکونسل میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ ان غلط فیصلوں کی وجہ سے ہم نے 80سے زائد سیٹیں کھو دیں۔

واضع ہے کہ گزشتہ روز پشاورہائیکورٹ نےمخصوص نشستوں سےمتعلق سنی اتحاد کونسل کی درخواستیں خارج کردی تھیں۔

پشاور ہائیکورٹ نے  جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں تقسیم کرنے سے متعلق کیس پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ متفقہ طور پر درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہمارے امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن میں گئے اور الگ الگ نشانات دیئے گئے۔  تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ قومی اسمبلی میں 86, کے پی میں 90, پنجاب میں 107, سندھ میں 9 اور بلوچستان میں ایک ممبر نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا۔ سنی اتحاد کونسل 78 سیٹوں کی حقدار ہے۔ ہمارا کیس قومی اسمبلی اور کے پی اسمبلی حد تک محدود ہے۔ خیبرپختونخوا میں سنی اتحاد کونسل کی 26 مخصوص نشستیں بنتی ہے اور قومی اسمبلی میں کے پی سے 8 بنتی ہیں۔

بیرسٹر ظفر نے کہا کہ کچھ سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کو درخواست کیا کہ یہ سیٹیں ہمیں دے دیں۔ بالکل ایسا جیسے ایک خالی زمین ہوں اور کوئی آئے اس پر قبضہ کرلیں۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ آپ قبضہ پر زیادہ زور دے رہے ہیں۔ یہ تو الیکشن کمیشن نے دیے۔

علی ظفر نے دلائل دیے کہ اگر ایک جماعت الیکشن نہ لڑے تو وہ پھر بھی پولیٹیکل پارٹی ہوتی ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ وہ الیکشن لڑے۔ سنی اتحاد کونسل کے پاس انتخابی نشان ہے اور الیکشن لڑنے کے لیے اہل ہے۔ پولیٹکل پارٹی بن جانے سے اس کے پاس باقی حقوق آتے ہیں مطلب ایک پارٹی جب بن جائے تو وہ الیکشن لڑ سکتی ۔ بائیکاٹ کر سکتی ہے حکومت سازی کرسکتی ہے۔ یہ وہ تمام حقوق ہیں جو آرٹیکل 17 کے بعد ہمیں حاصل ہیں۔  چوہدری پرویز الٰہی کیس میں پارلیمانی اور پولیٹیکل پارٹی کی تعریف موجود ہے۔ باپ پارٹی کو بھی 2018 کے الیکشن میں سیٹ دی گئیں تھیں۔

جسٹس سید اشد علی نے استفسار کیا کہ سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی میں فرق اتنا تھا کہ پی ٹی آئی کے پاس نشان نہیں ہے اور سنی اتحاد کونسل کے پاس نشان ہے۔ دونوں نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔آپ جب جوائن کررہے تھے تو آپ کو پتہ تھا کہ انھوں نے بھی لسٹ نہیں دیا۔ آپ اس پر سمجھا دیں۔ مخصوص نشستیں تب ملتی ہے جب سیاسی جماعتوں نے سیٹ جیتی ہوں۔ سنی اتحاد کونسل نے کوئی سیٹ جیتی ہی نہیں، قانون میں لفظ سیکیور آیا ہے۔ اپ نے سیٹیں سیکیور نہیں کیں۔ اگر آپ نے کوئی سیٹ نہیں جیتی تو پھر کیا آزاد امیدوار جوائن کرسکتے ہیں۔

جسٹس ارشد علی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے سے آپ نے پی ٹی آئی کیس کمزور نہیں کیا۔ آپ کو پتہ تھا کہ انہوں نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا، سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد آپ کے پاس پھر بھی وقت تھا آپ انٹرا پارٹی الیکشن کر لیتے، آپ نے نہیں کیا۔

بیرسٹر ظفر نے جواب دیا کہ ہم نے انٹرا پارٹی الیکشن کیا لیکن ابھی تک الیکشن کمیشن نے اس کو مانا نہیں۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے پوچھا کہ آپ کو مخصوص نشستیں نہیں دی گئیں تو پھر دوسروں کو بھی کیوں نہیں دی جاسکتیں؟

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ قانون میں یہ ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والے کو نشستیں ملیں گی۔ یہ نہیں کہ ایک سیاسی جماعت باہر بیٹھی ہو اور پھر آزاد آکر اس کو جوائن کریں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے کہا کہ باپ پارٹی کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ اس عدالت میں زیر سماعت درخواستیں تمام اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے لیے ہیں جو کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے بھی باہر ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ میں دائر درخواستیں بھی مماثلت رکھتی ہیں۔ سب میں ایک ہی درخواست گزار ہے۔

ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل مبشر منظور نے دلائل دیے کہ آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا تو پھر وہ پارلیمنٹری پارٹی بن گئی ہے۔ پولیٹکل پارٹی کی تعریف یہ ہے کہ اس نے الیکشن میں حصہ لیا ہو۔ یہ نہیں کہ اسی الیکشن میں لازمی حصہ لیا ہو۔ اگر 2018 میں بھی حصہ لیا تو پھر بھی وہ پولیٹکل پارٹی ہے۔

تمام وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر پانچ رکنی بینچ نے مشترکہ فیصلہ سناتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی درخواستوں کو خارج کردیا۔