سنی اتحاد کونسل سے اتحاد پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دلوا سکتا ہے؟

سوال یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ بن جانے کے بعد اگر کسی وجہ سے مخصوص نشستیں نہیں ملتیں تو کیا قومی اسمبلی کا کورم مکمل ہو جائے گا؟ اگر پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں ملتیں تو اسمبلی کس طرح پوری ہو گی؟

سنی اتحاد کونسل سے اتحاد پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دلوا سکتا ہے؟

پاکستان تحریک انصاف کے 86 آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ ایک بات کی یہاں وضاحت بہت ضروری ہے کہ سنی اتحاد کونسل کا 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں بطور ایک سیاسی جماعت امیدواروں کے لحاظ سے کیا کردار تھا؟

سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 104 فیصل آباد سے آزاد (تحریک انصاف کے حمایت یافتہ) امیدوار کی حیثیت سے انتخابی عمل کا حصہ بنے اور انہوں نے 1 لاکھ 28 ہزار 687 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔ دوسری اہم بات الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر دیے گئے فارم 47 کے مطابق سنی اتحاد کونسل کا 1 امیدوار محمد سردار بہادر خان ضلع میانوالی سے انتخابی عمل کا حصہ بنا تھا۔ این اے 89 میانوالی سے محمد سردار بہادر خان 371 ووٹ لے کر ضمانت ضبط کروا چکے ہیں۔ مذہبی جماعتوں کو ادراک ہوتا ہے کہ ہم کسی بھی انتخابی عمل کی ہار اور جیت پر کوئی مثبت اثرات مرتب نہیں کر سکتے۔

تحریک انصاف نے اس سے قبل مجلس وحدت المسلین کے ساتھ اتحاد کیا۔ وہاں بھی سیاسی جماعت نے خواتین کی مخصوص نشستوں کی لسٹ الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کروائی تھی۔ اب یہی آئینی اور قانونی مسئلہ پی ٹی آئی کو سنی اتحاد کونسل کے ساتھ پیش آ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ بن جانے کے بعد اگر کسی وجہ سے مخصوص نشستیں نہیں ملتیں تو کیا قومی اسمبلی کا کورم مکمل ہو جائے گا؟ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، جمعیت علماء اسلام اور دیگر جماعتوں کو تو ان کی نشستوں کے مطابق قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستیں مل جائیں گی مگر آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ان کے تناسب سے مخصوص نشستیں نہیں ملتیں تو اسمبلی کس طرح پوری ہو گی؟

کس پارٹی کو خواتین کی کتنی مخصوص نشستیں ملیں گی؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان میں دی گئی پارٹی پوزیشن کے مطابق آزاد امیدوار 101 ہیں جن میں اصل بطور آزاد امیدوار 8 جبکہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 93 کامیاب ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے 75، پیپلز پارٹی کے 54، متحدہ قومی مومنٹ پاکستان کے 17، جمعیت علماء اسلام ف کے 4 جبکہ مسلم لیگ ق کے 3 امیدوار کامیاب ہو کر قومی اسمبلی کا حصہ بنے ہیں۔ قانونی حساب کتاب کے مطابق قومی اسمبلی کے 4 ایم این ایز پر خواتین کی 1 مخصوص نشست سیاسی جماعت کے حصے میں آئے گی۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق تحریک انصاف کے حمایت یافتہ 93 آزاد امیدواروں کو خواتین کی 23 نشستیں ملیں گی جس کے بعد قومی اسمبلی میں ان کی تعداد 116 ہو جائے گی۔ مسلم لیگ ن کے 75 ایم این اے ہیں، انہیں 18 نشستیں ملیں گی جس کے بعد قومی اسمبلی میں ان کی تعداد 93 ہو جائے گی۔ پیپلز پارٹی کے 54 ایم این ایز پر خواتین کی نشستوں کے بعد ان کی قومی اسمبلی میں تعداد 63 بنے گی۔ ایم کیو ایم پاکستان کے 17 ایم این ایز پر خواتین کی 4 نشستوں کے بعد ان کی نشستیں 21 جبکہ جے یو آئی ف کو خواتین کی 1 مخصوص نشست کے بعد ان کی نشستوں کی تعداد 5 ہو جائے گی۔

سنی اتحاد کونسل گذشتہ 3 انتخابات میں کہاں کھڑی تھی؟

2024 کے انتخاب میں قومی اسمبلی کی نشست این اے 89 میانوالی سے سنی اتحاد کونسل کے امیدوار محمد سردار بہادر خان 371 ووٹ لے سکے۔ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر بھی سنی اتحاد کونسل کے 2 امیدوار میدان میں اترے۔ ضلع فیصل آباد میں پی پی 110 سے راشد محممود 169 جبکہ پی پی 113 سے صاحبزادہ محمد حسین رضا 709 ووٹ حاصل کر سکے۔

 2018 کے جنرل الیکشن میں سنی اتحاد کونسل کے 2 امیدوار این اے 95 میانوالی سے محمد سردار بہادر خان 854 ووٹ جبکہ این اے 110 فیصل آباد 4 سے صاحبزادہ حامد رضا 5 ہزار 85 ووٹ حاصل کر سکے تھے۔

2013 کے جنرل الیکشن میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کا ایک بھی امیدوار میدان میں نہیں تھا۔ صوبائی اسمبلیوں کی بات کریں تو کل 22 امیدوار میدان میں تھے جن میں سے 14 پنجاب، 4 سندھ اور 4 بلوچستان سے تھے۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

سابق سیکرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ آئینی اور قانونی طور پر سنی اتحاد کونسل کا استحقاق نہیں کہ وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں مخصوص نشستوں کی لسٹ 8 فروری 2024 کو انتخابات ہونے کے بعد جمع کروائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ یہ معاملہ پشاور ہائی کورٹ میں چلا گیا ہے تو ہو سکتا ہے ان کو وہاں سے ریلیف مل جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ممکن ہے الیکشن کمیشن آف پاکستان اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دے۔

سینیئر صحافی اور الیکشن ایکسپرٹ ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت کوئی بھی سیاسی جماعت انتخابات کے بعد خواتین کی مخصوص نشستوں کی لسٹ الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کروا سکتی۔ ماضی میں 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے خواتین کی مخصوص نشستوں کی لسٹ میں زیادہ نام نہیں دیے تھے جبکہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی کی زیادہ نشستیں مل گئی تھیں۔ ان حالات میں مسلم لیگ ن نے سپلیمنٹری لسٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کروائی تھی۔

سیاسی جماعتوں کے لیے خواتین کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان، پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں آنے والے دنوں میں دستور پاکستان اور الیکشن ایکٹ 2017 کے حوالے سے بحث و مباحثے ہونے والے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 29 فروری تک یہ معاملات طے ہو پائیں گے یا نہیں؟ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر کیا صورت حال ہو گی۔

وجیہہ اسلم صحافت سے وابستہ ہیں۔