11 دسمبر 1922 کو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں موجود ایک حویلی نما گھر میں پیدا ہونے والا بچہ یوسف خان بچپن ہی سے بہت شرمیلا تھا۔ روزگار کی غرض سے ان کے والد اور خاندان کے باقی لوگ بمبئی میں جا بسے اور اس کے بعد یوسف خان بمبئی ہی کے ہو رہے۔
یہ 1940 کے عشرے کی بات ہے جب ایک آرمی کینٹ میں یوسف خان کے والد کی سبزی کی دکان تھی۔ یوسف خان کے والد پھلوں اور سبزیوں کی تجارت کرتے تھے اور یوسف خان ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ اس وقت وہ فلمی دنیا سے کوسوں دور تھے۔ اسی دوران یوسف خان کسی روز بمبے ٹاکیز میں ایک فلم کی شوٹنگ دیکھنے گئے جہاں بھارتی سنیما کی معروف اداکارہ اور اس وقت کی ٹاپ ہیروئن دیویکا رانی سے ہونے والی اتفاقیہ ملاقات نے ان کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ دیویکا رانی کو یہ ہینڈسم اور شرمیلا لڑکا پسند آیا اور انہوں نے ہی یوسف خان کو دلیپ کمار بنایا۔ دیویکا رانی کا خیال تھا کہ ایک رومانی ہیرو پر یوسف خان کا نام زیادہ نہیں جچے گا۔ اس پر ہندی زبان کے معروف شاعر اور بمبے ٹاکیز میں کام کرنے والے نغمہ نگار نریندر شرما نے انہیں تین نام تجویز کیے؛ جہانگیر، واسو دیو اور دلیپ کمار۔ دیویکا رانی کو دلیپ کمار پسند آیا اور یوں یوسف خان دلیپ کمار بن گئے۔
1944 میں ان کی پہلی فلم 'جواربھاٹا' ریلیز ہوئی اور 55 سالہ فلمی کیریئر میں انہوں نے محض 63 فلموں میں کام کیا۔ جواربھاٹا سمیت شروع میں ان کی ایک دو فلمیں کچھ خاص پذیرائی نہ حاصل کر سکیں مگر ہر آفر ہونے والے کردار کی کھال میں اترنے کے لئے انہوں نے سخت محنت جاری رکھی۔ انہیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور بہت جلد ان کا نام گھر گھر میں لیا جانے لگا۔ آگے چل کر پشاور کے اس شرمیلے لڑکے نے فلم دیکھنے والوں کو خاموشی کی زبان سکھائی۔
دلیپ کمار دو سال قبل آج ہی کے روز 99 برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ ان کی دوسری برسی کے موقع پر ہم ان کی بعض فلموں کا تذکرہ کر کے ان کی یاد تازہ کریں گے۔
دلیپ کمار کی چند فلموں کا تعارف
زیر نظر فہرست فلم کی ریلیز کے سال کے حساب سے مرتب کی گئی ہے اور اس فہرست میں ان چند فلموں کا تعارف پیش کیا جا رہا ہے جو مصنف نے دیکھ رکھی ہیں۔ یہاں قطعاً ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا جا رہا کہ یہی فلمیں دلیپ کمار کے کیریئر کی بہترین فلمیں ہیں یا یہی ان کی نمائندہ فلمیں ہیں۔ دلیپ کمار نے یقیناً جتنے بھی کردار ادا کیے ان کے ساتھ انصاف کیا اور میتھڈ ایکٹنگ کے ذریعے انہیں امر کر دیا۔
انداز (1949)
ہدایت کار محبوب خان کی یہ فلم محبت کی تکون پر مبنی ہے جس میں دلیپ کمار، نرگس اور راج کپور تکون کے تین بازو ہیں۔ موسیقار نوشاد نے فلم کی موسیقی ترتیب دی اور مجروح سلطان پوری نے گیت لکھے۔ دلیپ کمار نرگس کے عشق میں مبتلا ہیں جبکہ نرگس راج کپور کو پسند کرتی ہے۔ فلم کے آخر میں نرگس دلیپ کمار کو گولی مار کر ہلاک کر دیتی ہے اور یوں راج کپور اس فلم کا اصلی ہیرو بن جاتا ہے (تب ہیرو کی یہ نشانی ہوتی تھی کہ وہ فلم کے آخر میں مرتا نہیں، بلکہ آخر تک زندہ رہتا ہے)۔
کہا جاتا ہے کہ ہدایت کار محبوب خان نے راج کپور کو دلیپ کمار سے اہم کردار میں کاسٹ کر کے دلیپ کمار کے ساتھ زیادتی کی تھی۔
ترانہ (1951)
ہدایت کار رام دریانی نے 1944 میں دلیپ کمار کو اپنی فلم جواربھاٹا میں بریک دیا تھا جو بزنس نہیں کر سکی تھی۔ رام دریانی نے ایک بار پھر ترانہ میں دلیپ کمار کو کاسٹ کیا۔ مدھوبالا اور دلیپ کمار کی ایک ساتھ یہ پہلی فلم تھی جو ایک پریم کہانی پر مبنی تھی۔ ایک دور دراز واقع گاؤں کے نزدیک ہوائی جہاز کی تباہی کے بعد دلیپ کمار اکیلا رہ جاتا ہے جہاں اس کی ملاقات مدھوبالا سے ہوتی ہے۔ دونوں ساتھ وقت گزارتے ہیں اور دونوں کو پیار ہو جاتا ہے۔ گاؤں والے دونوں پہ بدکاری کا الزام لگا کر دلیپ کو مار مار کر گاؤں سے نکال دیتے ہیں۔
مدھوبالا کا باپ گھر کو آگ لگا دیتا ہے اور مدھوبالا گھر کے اندر ہی موجود ہوتی ہے۔ گاؤں والے سمجھتے ہیں کہ مدھو مر گئی ہے مگر وہ بچ جاتی ہے۔ ادھر دلیپ کمار شہر میں اپنی منگیتر کے ساتھ زندگی کی طرف واپس آنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے مگر اس کا دل نہیں لگتا اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ مدھوبالا ہر پل اس کے اردگرد موجود ہے۔ وہ ایک دن سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے پیار کی تلاش میں نکل پڑتا ہے اور فلم کا اختتام دونوں کے دوبارہ سے مل جانے پر ہوتا ہے۔
فلم کی موسیقی نہایت شاندار ہے جو انیل بسواس نے ترتیب دی تھی۔ لتا منگیشکر اور طلعت محمود کے دوگانے 'سینے میں سلگتے ہیں ارمان' اور 'نین ملے نین ہوئے باورے' خاص طور پر سماعتوں میں رس گھولتے ہیں۔
فٹ پاتھ (1953)
اس فلم کی ہدایات ضیاء سرحدی نے دی تھیں اور لکھی بھی انہوں نے ہی تھی۔ فلم میں دلیپ کمار کے مدمقابل ٹریجڈی کوئین مینا کماری کو کاسٹ کیا گیا تھا۔ فلم کی موسیقی خیام نے ترتیب دی تھی۔
فلم کی کہانی طبقاتی اونچ نیچ کو موضوع بناتی ہے جس میں ایک جانب ایسا غریب طبقہ ہے جن کے پاس رہنے کو گھر نہیں اور سڑک کنارے رہنے پر مجبور ہیں۔ دلیپ کمار بھی شروع میں ایک اخبار میں رپورٹر ہے اور ایسے ہی ایک علاقے کے نواح میں رہتا ہے۔ دوسری جانب وہ طبقہ ہے جو نہایت دولت مند ہے۔ دلیپ کمار اپنی سماجی اور معاشی حیثیت سے تنگ آ کر اخبار کی نوکری چھوڑ دیتا ہے اور ذخیرہ اندوزوں کے ساتھ جا ملتا ہے۔ اس سفر کے دوران وہ دولت مند تو ہو جاتا ہے مگر پرانے ساتھیوں، دوستوں، رشتے داروں اور اپنی محبوبہ سے دور نکل جاتا ہے۔
فلم کا نکتہ عروج وہ پچھتاوا ہے جو دلیپ کمار کو اس وقت ہوتا ہے جب شہر میں وبا پھیل جاتی ہے اور دوا خانوں پر دوائیں دستیاب نہیں ہوتیں کیونکہ ذخیرہ اندوزوں نے زیادہ منافع کمانے کے چکر میں یہ دوائیں مارکیٹ سے اٹھوا لی ہوتی ہیں۔ دلیپ کمار بھی اسی گروہ کا حصہ ہے جن کی ذخیرہ اندوزی کے باعث عام لوگ موت کے منہ میں جانے لگتے ہیں۔ جب دلیپ کمار کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو وہ یہ کاروبار اور عیش و عشرت چھوڑ کر دل شکستہ واپس اپنے پرانے عزیزوں کے پاس پہنچتا ہے اور پھر خود کو پولیس کے حوالے کر دیتا ہے۔ یہاں جو دلیپ کمار کا اعتراف جرم ہے وہ دل کو چیر کے رکھ دیتا ہے۔ دلیپ کمار نے اس پچھتاوے کو ایسی جذباتی زبان دی ہے کہ ہوش اڑ کے رہ جاتے ہیں۔
امر (1954)
محبوب خان کی ہدایت میں بننے والی اس فلم میں ایک مرتبہ پھر دلیپ کمار اور مدھوبالا ایک ساتھ نظر آئے۔ فلم ایک نفسیاتی الجھن پر مبنی ہے جو دلیپ کمار کے کردار کے ذریعے دکھائی گئی ہے۔ فلم میں دلیپ کمار ایک وکیل کا کردار ادا کرتا ہے اور ایک طوفانی رات میں جذبات میں بہہ کر گاؤں کی ایک لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا بیٹھتا ہے۔ یہ کردار اداکارہ نمی نے ادا کیا تھا۔ ریپ سے پہلے دلیپ کمار اور مدھوبالا کے گھر والے دونوں کی شادی کرنے پر رضامند ہوتے ہیں مگر اس واقعے کے بعد صورت حال یکسر بدل کر رہ جاتی ہے اور دلیپ کمار کو عدالت میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ مرکزی کردار کی نفسیاتی الجھن اور پچھتاوے کو جس انداز میں دلیپ کمار نے پردے پر پورٹرے کیا ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
فلم کی موسیقی نوشاد نے ترتیب دی ہے جبکہ گیت شکیل بدایونی نے لکھے ہیں۔ اس فلم کے تمام گیت ہی معیاری ہیں اور ابھی تک سننے والوں کے حافظے میں بجتے رہتے ہیں۔
دیوداس (1956)
باکمال بنگالی ہدایت کار بمل رائے کی یہ فلم اب تک شرت چندر چیٹرجی کے ناول پر بننے والی تمام فلموں سے بہتر تصور کی جاتی ہے۔ مرکزی کرداروں میں دلیپ کمار، سچترا سین اور ویجنتی مالا ہیں۔ چندرمکھی کے کردار کے لیے کوئی بڑی ہیروئن تیار نہیں ہو رہی تھی جس کی وجہ سے ایک نئی ہیروئن اور کتھک ڈانسر ویجنتی مالا کو کاسٹ کرنا پڑا۔ بمل رائے بنیادی طور پر پارو کے کردار کے لیے مینا کماری اور چندرمکھی کے کردار کے لیے نرگس کو کاسٹ کرنا چاہتے تھے مگر نرگس پارو کا کردار لینا چاہتی تھی اور مینا کماری کے شوہر کمال امروہی نے کچھ ایسی شرائط رکھیں جن کی وجہ سے مینا کماری بھی یہ فلم نہ کر سکی۔ فلم کے مکالمے معروف ادیب راجندر سنگھ بیدی نے تحریر کیے تھے جبکہ موسیقی ایس ڈی برمن نے ترتیب دی تھی۔ فلم کے گیت ساحر لدھیانوی نے لکھے تھے۔
دلیپ کمار کا کمال یہ ہے کہ ناول کے مرکزی کردار یعنی دیوداس کے اندر کی اداسی اور بے کیفی کو جس حقیقت بھرے انداز میں انہوں نے پورٹرے کیا ہے ویسا کوئی اور نہیں کر سکا۔ فلم کا کلائمیکس دیکھنے والوں کو دلیپ کمار کی ایکٹنگ کا قائل کر لیتا ہے۔
نیا دور (1957)
ہدایتکار بی آر چوپڑہ کی یہ فلم ایک سپورٹس ڈرامہ ہے جو مشین اور انسان کی مخاصمت پر مبنی ہے۔ بس کے چلنے سے تانگے والوں کی روزی روٹی بند ہو جائے گی لہٰذا تانگے والے بس والے سے ریس لگانے کا چیلنج دیتے ہیں اور باقی فلم اسی ریس کی تیاریوں کو دکھاتی ہے۔ دلیپ کمار کے ساتھ ویجنتی مالا اس فلم میں ہیروئن ہے اور اس فلم کو 2007 میں کلر ورژن میں دوبارہ ریلیز کیا گیا ہے۔ فلم کی موسیقی او پی نیّر نے ترتیب دی ہے۔
اس فلم میں بنیادی طور پہ مدھوبالا دلیپ کمار کی ہیروئن تھی اور کچھ عرصہ شوٹنگ ہوتی بھی رہی۔ مگر جب ڈائریکٹر او پی نیّر نے آؤٹ ڈور شوٹنگ کے لیے بھوپال جانے کا کہا تو مدھوبالا کے والد شہر سے باہر جا کر شوٹنگ کرنے پہ راضی نہ ہوئے۔ فلم کے ہدایت کار بی آر چوپڑہ نے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا اور دلیپ کمار نے گواہی مدھوبالا کے خلاف دے دی۔ بعد میں بی آر چوپڑہ نے مقدمہ واپس لے لیا مگر دلیپ کمار اور مدھوبالا کی یہ لڑائی انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے دور لے گئی۔
یہ فلم اسی سال ریلیز ہوئی جس سال مدر انڈیا ریلیز ہوئی تھی۔ فلم مدر انڈیا میں دلیپ کمار کو اداکارہ نرگس کے ایک بیٹے کا کردار آفر ہوا تھا جو انہوں نے یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ نرگس کے مدمقابل وہ ہیرو کا کردار ادا کر چکے ہیں اس لئے ان کے بیٹے کا کردار نبھانا انہیں نہیں جچے گا۔ دلیپ کمار کی جگہ یہ کردار بعد میں سنیل دت نے ادا کیا اور یہیں سے سنیل دت اور نرگس کی پریم کہانی شروع ہوئی۔
مدھومتی (1958)
اس فلم میں ایک بار پھر دلیپ کمار کے ساتھ ویجنتی مالا کو کاسٹ کیا گیا۔ ہدایتکار بمل رائے کی ہدایات میں بننے والی یہ فلم بھارت میں آواگان کے نظریے یا فلسفے پر بننے والی اولین فلم تھی جسے دیکھنے والوں نے بہت پسند کیا۔ فلم کو 9 فلم فیئر ایوارڈ ملے اور ایک نیشنل ایوارڈ بھی ملا۔ فلم کی موسیقی سلیل چودھری نے دی جبکہ گیت شیلندر نے لکھے۔ معروف ادیب راجندر سنگھ بیدی نے فلم کے مکالمے لکھے۔
کہانی یہ ہے کہ دلیپ کمار اپنے دوست کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر سٹیشن کی طرف جا رہا ہے جہاں اس کی بیوی اور بچے آ رہے ہیں۔ راستے میں بارش اور طوفان شروع ہو جاتا ہے اور انہیں ایک اجاڑ سے بنگلے میں رکنا پڑتا ہے۔ اس بنگلے میں ایک پورٹریٹ دیکھ کر دلیپ کمار کو بہت کچھ یاد آنے لگتا ہے۔ اسے یاد آتا ہے کہ پچھلے جنم میں وہ محکمہ جنگلات میں ملازم ہوا کرتا تھا اور وہاں اس کی ملاقات ویجنتی مالا سے ہوئی تھی۔ ویجنتی مالا کو دلیپ کمار کا سیٹھ اغوا کر لیتا ہے اور جان سے مار دیتا ہے۔ دلیپ کمار کو بھی مار کر بھگا دیا جاتا ہے۔ دلیپ کمار کو ویجنتی مالا کی شکل کی ایک لڑکی نظر آتی ہے جو اصل مدھو نہیں ہوتی بلکہ کوئی اور ہی خاتون ہوتی ہے۔ دلیپ کمار اسے سمجھا کر سیٹھ کے خلاف گواہی لے لیتا ہے اور سیٹھ کو پولیس پکڑ لیتی ہے۔ دلیپ کمار بنگلے میں جس بالکونی پہ کھڑا ہوتا ہے پچھلے جنم میں وہ یہیں سے کود کے مرا ہوتا ہے۔ پیار کرنے والے ایک جنم میں نہیں مل پاتے تو وہ ملنے کے لیے دوبارہ جنم لیتے ہیں اور مل جاتے ہیں۔ اس جنم میں اس کی بیوی ویجنتی مالا ہی ہے اور یوں یہ آواگان پر مبنی بھارتی سنیما کی پہلی فلم تھی اور اسی وجہ سے اس نے تہلکہ مچا دیا تھا۔
مدھومتی کا میوزک بہت لاجواب ہے اور مکیش کی آواز میں ریکارڈ ہونے والا 'سہانا سفر اور یہ موسم حسیں'، 'دل تڑپ تڑپ کے کہہ رہا'، 'آ جا رے پردیسی' اور دیگر گیت بھارتی فلم موسیقی کی شان ہیں۔
مغلِ اعظم (1960)
ہدایت کار کے آصف کی یہ فلم بھارتی فلم انڈسٹری کا شاہکار ہے۔ کمال امروہی، کے آصف، وجاہت مرزا اور احسان رضوی نے اس فلم کے مکالمے لکھے۔ پرتھوی راج کپور، دلیپ کمار، مدھو بالا اور درگا کھوتے نے مرکزی کردار نبھائے۔ فلم کی موسیقی نوشاد نے ترتیب دی اور کیا ہی ترتیب دی۔ گیت شکیل بدایونی نے لکھے۔
یہ فلم جب بن رہی تھی تو مدھوبالا اور دلیپ کمار کی بول چال بند تھی مگر پھر بھی فلم میں ایسے رومانوی مناظر ہیں جن کی سطح کو آج تک کوئی رومانوی منظر نہیں پہنچ سکا۔ ان رومانوی مناظر کے علاوہ وہ سین بھی خاصے کی چیز ہیں جن میں مغل اعظم اکبر بادشاہ یعنی پرتھوی راج کپور اور ان کے صاحبزادے شہزادہ سلیم یعنی دلیپ کمار آمنے سامنے آتے ہیں۔
اس فلم کے ساتھ کئی کہانیاں جڑی ہیں۔ مثلاً استاد بڑے غلام علی خان کو بلینک چیک دے کر ایک ٹھمری گانے کے لئے راضی کرنا، فلم کے سیٹ ملک کے باہر سے درآمد کروانا، دو پیار کرنے والوں مگر اب ایک دوسرے کی شکل بھی نہ دیکھنے والوں کا ایک ساتھ کام کرنا، دلیپ کمار کا شوٹنگ کے دوران مدھوبالا کو سچ مچ کا زوردار تھپڑ رسید کر دینا وغیرہ وغیرہ۔
استاد بڑے غلام علی خان کی ٹھمری 'پریم جوگن بن کے'، لتا منگیشکر کا 'موہے پنگھٹ پہ نند لال چھیڑ گئیو رے' اور محمد رفیع کا اونچے سروں میں گایا گیت 'محبت زندہ باد' عمدہ موسیقی کے لازوال نمونے ہیں۔
گنگا جمنا (1961)
نتن بوس کی ہدایت میں بننے والی اس فلم کے پروڈیوسر دلیپ کمار خود ہی تھے۔ اس فلم میں دلیپ کمار نے پوربی یا اودھی لہجہ اختیار کیا اور ایک دیہاتی قصباتی شخص کا کردار کیا ہی خوبصورتی سے نبھایا۔ یہ ایک سادہ دیہاتی نوجوان کی کہانی ہے جسے زمانے کی ناانصافی ڈاکو بننے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس فلم میں بھی دلیپ کمار کے ساتھ ویجنتی مالا کو کاسٹ کیا گیا۔ فلم کے مکالمے وجاہت مرزا نے لکھے جنہوں نے مغلِ اعظم کے مکالمے لکھے تھے اور مدر انڈیا کے بھی۔ موسیقی نوشاد نے ترتیب دی اور گیت شکیل بدایونی نے لکھے۔ 'اڑیں جب جب زلفیں تیری' سننے سے تعلق رکھتا ہے۔
اس فلم کو ہندی سنیما میں آج تک کی بہترین فلموں میں شمار کیا جاتا ہے اور دلیپ کمار نے جس فطری انداز سے ایک دیہاتی شخص کا کردار ادا کیا اس کی مثال بھارتی سنیما میں ملنا مشکل ہے۔ امیتابھ بچن جیسا اداکار اس کردار سے متاثر ہو کے فلموں میں آٰیا اور اس نے دلیپ کمار کا یہی اینگری ینگ مین والا روپ جدید دنیا کے شہری ماحول کے مطابق اپنایا اور شہری دنیا کا اینگری ینگ مین کہلایا۔ فلم فیئر کی ناانصافی دیکھیں کہ اس نے دلیپ کمار کو نظرانداز کیا اور اس سال راج کپور کو بہترین اداکار کا ایوارڈ دیا۔ دلیپ کمار کا یہ رول ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ایوارڈز کے معیار پر سوالیہ نشان بن کر موجود رہے گا۔
مغل اعظم کے بعد جس فلم میں دلیپ کمار نے سب سے زیادہ نام کمایا وہ گنگا جمنا ہی تھی۔ امیتابھ بچن کا کہنا ہے کہ جب وہ الہٰ آباد میں پڑھ رہے تھے تو انہوں نے گنگا جمنا بار بار دیکھی تھی۔ امیتابھ دیکھنا چاہتے تھے کہ ایک پٹھان جس کا اتر پردیش سے دور دور کا بھی تعلق نہیں، وہ کس طرح وہاں کی بولی کو مکمل پرفیكشن کے ساتھ بولتا ہے۔
کرانتی (1981)
1970 کے عشرے میں دلیپ کمار کی دو تین ہی فلمیں ریلیز ہوئیں جس کے بعد انہوں نے فلموں سے بریک لے لی۔ 1980 کے عشرے میں انہوں نے نئے انداز میں کم بیک کیا اور بڑی عمر کے کردار نبھانے لگے۔
اداکار و ہدایت کار منوج کمار کی ہدایات میں بننے والی فلم کرانتی خاصی طویل ہے مگر کہانی بہت زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ لکھنے والے منوج کمار اور سلیم جاوید ہیں اور موسیقی لکشمی کانت اور پیارے لال جی نے ترتیب دی۔ 'زندگی کی نہ ٹوٹے لڑی' اس فلم کا معروف نغمہ ہے۔ فلم انگریزوں کے خلاف لڑنے والے آزادی پسندوں کی کہانی بیان کرتی ہے۔ دلیپ کمار کے علاوہ فلم میں منوج کمار، ششی کپور، ہیما مالنی اور پریم چوپڑہ شامل ہیں۔
شکتی (1982)
رمیش سپی کی ہدایات میں بننے والی اس فلم کی کہانی اور مکالمے سلیم جاوید نے تحریر کیے۔ یہ واحد فلم ہے جس میں دلیپ کمار اور امیتابھ بچن سکرین پر ایک ساتھ نظر آئے۔ جاوید اختر بتاتے ہیں کہ دلیپ کمار کے بیٹے کے لیے انہیں ایک لڑکے کی ضرورت تھی۔ جاوید اختر نے کہیں راج ببر کو دیکھا اور رمیش سپی سے کہا کہ اس لڑکے کو لے لیں۔ مگر بعد میں امیتابھ بچن اس رول کے لیے تیار ہو گئے۔ وہ ایسے کہ امیتابھ نے ابھی ابھی رمیش سپی کی ایک اور فلم میں کام کیا تھا جو فلاپ ہو گئی تھی اور اس نقصان کی تلافی کے طور پر امیتابھ نے شکتی میں رضاکارانہ طور پر کام کرنے کی حامی بھرلی اور یوں ہمیں شکتی جیسی فلم میسر آئی۔
ان دونوں کے علاوہ فلم میں راکھی، سمیتا پاٹیل، امریش پوری اور مختصر کرداروں کے لیے رشی کپور اور اشوک کمار بھی کاسٹ کیے گئے۔ فلم ایک ایماندار پولیس آفیسر اور دادا دلیپ کمار کی کہانی ہے جو وہ اپنے پوتے انیل کپور کو سناتا ہے۔ امیتابھ نے فلم میں دلیپ کمار کے بیٹے کا کردار نبھایا ہے جو جرائم پیشہ افراد کے ساتھ مل جاتا ہے اور باپ کو فرض کی ادائیگی میں اپنے ہی بیٹے پر گولی چلانی پڑتی ہے۔ فرض شناسی اس فلم کا مرکزی نکتہ ہے۔
بڑے باپ کے بیٹے آر ڈی برمن (پنچم دا) نے اس فلم کی موسیقی ترتیب دی اور آنند بخشی کے قلم سے نکلے 'ہم نے صنم کو خط لکھا' اور 'جانے کیسے کب کہاں اقرار ہو گیا' جیسے گیت ہمیشہ فضاؤں میں گونجتے رہیں گے۔ اس فلم کے لیے دلیپ کمار کو فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔
دلیپ کمار کے معاصر، مخالف اور بچپن کے دوست راج کپور نے فلم شکتی دیکھنے کے بعد بنگلور سے فون کر کے انہیں کہا تھا؛ 'لاڈے! آج فیصلہ ہو گیا، تم آج تک کے سب سے عظیم اداکار ہو'۔
سوداگر (1991)
ہدایت کار سبھاش گھائی کو اپنے کیریئر کا واحد فلم فیئر ایوارڈ اس فلم کے لیے ملا۔ اس فلم کی کاسٹ بہت بڑی تھی۔ دلیپ کمار تین دہائیوں کے بعد اداکار راج کمار کے ساتھ اکٹھے کاسٹ ہوئے۔ اس سے قبل دونوں ساتھی اداکار 1959 میں ریلیز ہونے والی فلم پیغام میں ایک ساتھ آئے تھے۔ فلم میں دو نئے اداکاروں ویوک مشران اور منیشا کوئرالا کو بھی لیا گیا۔ منیشا کوئرالا اپنی پہلی فلم میں جتنی حسین اور معصوم نظر آئی ہے اور کہیں نہیں نظر آئی۔ ان کے علاوہ امریش پوری، انوپم کھیر، دیپتی نول اور جیکی شروف بھی فلم کا حصہ تھے۔
فلم دو بہت قریبی دوستوں کی کہانی پر مبنی ہے جو خاندانی دشمنی کی بنا پر ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے ہیں اور آخری عمر میں ان کے پوتے پوتیاں انہیں پھر سے ملانے کا اہتمام کرتے ہیں۔
فلم کی موسیقی لکشمی کانت اور پیارے لال جی نے ترتیب دی اور ایسی ترتیب دی کہ ہر گیت ہی زبان زد خاص و عام ہوا۔ 'اِملی کا بوٹا' خاص طور پر بہت مقبول ہوا اور آج بھی اتنا ہی ہر دلعزیز ہے۔ سُروں میں الفاظ آنند بخشی نے پروئے تھے۔
دلیپ کمار کا فلمی کیریئر لگ بھگ 6 دہائیوں پر محیط ہے مگر ان تمام سالوں میں انہوں نے محض 63 فلموں میں کردار نبھائے۔ وہ فلمیں منتخب کرنے کے معاملے میں بہت محتاط تھے اور ایک وقت میں ایک ہی فلم میں کام کرتے تھے۔ اگرچہ 'گنگا جمنا' میں ان کی شاندار اداکاری پر فلم فیئر نے انہیں ایوارڈ نہ دے کر ناانصافی کی تاہم یہ بھی سچ ہے کہ بھارتی فلم انڈسٹری میں اب تک سب سے زیادہ فلم فیئر ایوارڈ دلیپ کمار ہی کو دیے گئے جن کی تعداد 8 ہے اور فلم فیئر ایوارڈ کے لئے سب سے زیادہ نامزدگیاں بھی انہی کے حصے میں آئیں۔ انہیں بہترین اداکار کے لئے 19 مرتبہ نامزد کیا گیا۔