شادی سے انکار پر لاہور جوہر ٹاؤن میں خاتون کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا گیا

شادی سے انکار پر لاہور جوہر ٹاؤن میں خاتون کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا گیا
جوہر ٹاؤن کے علاقے میں  تیزاب گردی کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا جہاں خاتون پر تیزاب پھینک دیا گیا۔

مریم نامی خاتون کو ہسپتال منتقل کردیا گیا جہاں انہیں طبی امداد فراہم کی گئی۔ تیزاب کے باعث مریم کا چہرہ جھلس گیا ہے۔ پولیس نے ملزم کے خلاف تیزاب گردی کا مقدمہ درج کرلیا۔متاثرہ خاتون نے بتایا کہ احمد نامی شخص نے اس پر تیزاب پھینکا، ملزم احمد مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا، اس نے صبح مجھے موٹرسائیکل پر ساتھ چلنے کو کہا، اور شادی سے انکار پر اسٹیل کے جگ سے تیزاب میرے اوپر پھینک دیا۔ سربراہ لاہور پولیس غلام محمود ڈوگر نے واقعے پر نوٹس لیتے ہوئے ایس پی صدر سے رپورٹ طلب کرلی اور فوری مقدمہ درج کرکے ملزم کےخلاف کارروائی کا حکم دیا۔

پاکستان میں تیزاب گردی: بدلہ لینے کا  آسان مگر تباہ کن  ہتھیار

پاکستان میں تیزاب کے حملوں سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے بنائے گئے ادارے ایسڈ سروائیور فاؤنڈیشن کی ترجمان ویلیری خان نے بتایا کہ ’پاکستان میں سنہ 2014 میں تیزاب گردی کے 143 کیسز سامنے آئے اور اس سال یہ تعداد بڑھی ہے۔ پاکستان میں تیزاب گردی کے شکار صرف مرد، عورتیں یا بچے ہی نہیں ہیں بلکہ معاشرے کے سب سے پسے ہوئے طبقے یعنی خواجہ سراؤں کی بھی ایک بڑی تعداد اس بھیانک جرم کا شکار رہی ہے، جس سے ان کے مصائب میں اور اضافہ ہو گیا ہے۔  ماہرین کے مطابق خواتین کے خلاف تیزاب گردی مردوں کے ہاتھ میں ایک آسان ہتھیار ہے جس سے وہ انکی بات نہ ماننے والی خواتین کو مزہ چکھاتے ہوئے اپنی انا کو تسکین دیتے ہیں۔ ماہر سماجیات محمد عمار نے نیا دور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمرانی طور پر دیکھا جائے تو تیزاب گردی در اصل پدر شاہی نظام کے بہرہ مند فرد کی جانب سے اس نظام کے باغیوں کو سبق سکھانے کی ایک کوشش ہوتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی طاقتور شخص اپنے سامنے حرف انکار نہیں چاہتا اقور اگر ایسا کوئی کمزور کرے تو اسے سبق سکھانے کے درپے ہوجاتا ہے۔ تیزاب کردی کے نقصانات اسکا شکار ہونے والی خواتین کے لیئے جسمانی، سماجی، معاشی بگاڑ لاتے ہیں اور اذیت کا باعث بنتے ہیں اس لئے یہ ایک آسان اور منفی مقاصد کو پورا کرنے کے لیئے ایک وسیع اثر حربہ ہوتا ہے جسے استعمال کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں تیزاب گردی کے خلاف قانون سازی

پاکستان میں پہلی مرتبہ تیزاب گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے 2011 میں قانون بنایا گیا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ قانون متاثرین کی بحالی پر مرتک ہونے کی  بجائے سزا پر مرکوز ہے حالانکہ قانون متاثرین کی مدد کے لیے ہونا چاہیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون کے بہت سے مثبت پہلو ہیں لیکن یہ ابھی بھی ناکافی ہے۔ ’قانون جس پہلو پر خاموش ہے وہ تیزاب کی کُھلےعام فروخت ہے، اسی طرح متاثرہ شخص کی بحالی کو کیسے ممکن بنایا جائے، قانون اس پر بھی خاموش ہے۔‘