نظام محصولات کی تشکیل نو کے بغیر اہداف حاصل نہیں ہو سکتے

قوانین کا کمزور نفاذ، جس میں نااہلی اور بدعنوانی شامل ہے، ہمارے ٹیکس نظام کی اصل خرابی ہے۔ اس کو دور کرنے کے بجائے ہر سال ٹیکس قوانین میں فنانس بل کے ذریعے اور اس کے درمیان ایس آر اوز کے ذریعے بغیر سوچے سمجھے آئینی ترامیم کی جاتی ہیں جن سے معاملات مزید بگاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

نظام محصولات کی تشکیل نو کے بغیر اہداف حاصل نہیں ہو سکتے

وفاقی بجٹ کا اعلان، جو اب محض ایک سالانہ رسم بن کر رہ گیا ہے، 12 جون 2024 کو متوقع ہے۔ پاکستان کو اپنا مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لئےغیر پیداواری اور بلا جواز شاہانہ اخراجات میں خاطر خواہ کٹوتی کے ساتھ ساتھ ٹیکس پالیسی کا بھی از سر نو جائزہ لینے اور ٹیکس مشینری کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، جیسا کہ ہمارے گذشتہ ہفتے کے کالم میں اس پر روشنی ڈالی گئی تھی۔

سالانہ بجٹ کے تخمینے عوام سے لاتعلقی کے عکاس ہیں

پاکستان میں ٹیکس نظام جابرانہ، غیر منصفانہ، یکطرفہ اور غیر پیداواری ہے۔ کل کاروبار کی کارپوریٹائزیشن (corporatization) محض 2 فیصد ہے۔ پاکستان میں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں کارپوریٹ سیکٹر پر بھاری ٹیکس لگا کر غیر دستاویزی شعبے کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریفارمز اینڈ ریسورس موبلائزیشن کمیشن (Reforms & Resource Mobilization Commission) نے، جس کا قیام  یکم دسمبر 2022 کو اس وقت کے چوتھی بار وزیر خزانہ بننے والے اسحاق ڈار جو کہ اب ملک کے چوتھے نائب وزیر اعظم اور 39 ویں وزیر خارجہ ہیں، کے حکم سے ہوا، کئی کارپوریٹ مخالف تجاویز پیش کیں۔ جیسے غیر تقسیم شدہ منافع پر ٹیکس لگانا جس پر کمپنیاں پہلے ہی ٹیکس ادا کر چکی ہیں! یہ تجویز کیا گیا حالانکہ اس سے قبل اسی طرح کی شق عائد کی گئی تھی [انکم ٹیکس آرڈیننس2001 کی شق 5 اے] جس کو سندھ ہائی کورٹ نے 2021 میں خلاف قانون قرار دیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف اپیل کرنے کی اجازت کو سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا تھا، جس کا فیصلہ ابھی تک ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی ویب سائٹ پر عوام کے لئے دستیاب نہیں ہے۔

جنوری 2024 کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں رجسٹرڈ کمپنیوں کی تعداد 212,108 تھی، جس میں سالانہ اضافہ تقریباً 25,000 ہوتا ہے۔ ملائیشیا، انڈونیشیا اور ترکی جیسے ممالک میں یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔ اگر پاکستان کو غیر دستاویزی معیشت کی حوصلہ شکنی کرنی ہے تو اسے کارپوریٹائزیشن کے ذریعے تیزی سے صنعتی توسیع کی ضرورت ہے۔ کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو 20 فیصد تک کم کر کے ٹیکس پالیسی اس عمل میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ غیر کارپوریٹ کاروباری اداروں کے لیے شرح 30 فیصد ہونی چاہیے، تا کہ سرمایہ دار کمپنیز کا انتخاب کریں۔ سیلز ٹیکس 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے جیسا کہ جاپان، ویت نام اور سنگاپور وغیرہ میں ہے۔

ٹیکسوں کو صنعتی توسیع اور معاشی ترقی کے لیے محرک کے طور پر کام کرنا چاہیے تاکہ مزید ملازمتیں پیدا ہوں۔ پاکستان میں درآمدی پابندیوں کے ساتھ غیر منصفانہ، غیر منطقی، رجعت پسند اور غیر منصفانہ ٹیکس ریگولیشنز صنعتی اور کاروباری نمو پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ معیشت پر اس کے اثرات کا اندازہ کیے بغیر، حکومتی ٹیکس آمدنی کے اہداف کو پورا کرنے پر واحد دباؤ نے تجارت اور صنعت کو مفلوج کر دیا ہے۔ اگر یکے بعد دیگرے حکومتوں نے معاشی ترقی پر زیادہ توجہ دی ہوتی تو اس کے نتیجے میں ٹیکسوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا۔ معاشی جمود کے ساتھ محصولات کو بڑھانا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان میں بیمار معیشت پر بھاری بھرکم ٹیکسز کی بہتات نے شرح نمو کے ساتھ محصولات کے نظام کو بھی تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔

پیداواری صلاحیت اور معاشی نمو کو بہتر بنانے کے لیے ضروری کوششوں کے بغیر محصولات کے اہداف کو بڑھاتے رہنا ہمارا اصل مخمصہ ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں جان و مال کی حفاظت اور قانون کی پاسداری نہیں ہوتی، ٹیکس کے کچھ فوائد کی دستیابی کے باوجود سرمایہ کار کبھی آگے نہیں آتے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) متواتر اسٹیٹوٹری ریگولیٹر آرڈرز (SROs) متعارف کر کے غیر یقینی صورت حال پیدا کرتا ہے، غیر متنازعہ ریفنڈز کو روکتا ہے، ناجائز طور پر ٹیکس لگا کر اس کی وصولی کے مطالبات کرتا ہے اور اپنے بجٹ کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے ہر قسم کے منفی ہتھکنڈوں کا سہارا لیتا ہے، جیسے بینکوں اور تیل کمپنیوں جیسے بڑے ٹیکس دہندگان سے اربوں کے ایڈوانس لینا! ٹیکس مشینری کے اس طرح کے اقدامات کاروبار کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ان جابرانہ اقدامات کے باوجود، ایف بی آر ماضی میں نظرثانی شدہ اہداف کو بھی پورا کرنے میں ناکام رہا ہے، ٹیکس کی حقیقی صلاحیت کو حاصل کرنے کی کیا بات کی جائے، جو کہ جی ڈی پی کے 16 فیصد کے حساب سے 32 ٹریلین روپے ہے، اگر ہم متوازی معیشت (قانونی اور غیر قانونی دونوں) کو مدنظر رکھیں۔ انکم ٹیکس قانون قانونی یا غیر قانونی آمدنی پر ٹیکس لگانے میں کوئی فرق نہیں کرتا۔

ہمارے سرکاری عہدوں پر فائز اقتصادی ماہرین کو پیداواری صلاحیت اور کارکردگی میں بہتری، دیرپا معاشی ترقی اور کاروبار کرنے کی لاگت کو کم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ اقدامات ہی ریاست کے لیے مزید محصولات کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ یکے بعد دیگرے حکومتوں کی ناعاقبت اندیش ٹیکس اور ریگولیٹری پالیسیوں نے لاکھوں لوگوں کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہے۔ پاکستان کو اس رجحان کو ختم کرنے کے لیے تیزی سے اور فیصلہ کن انداز میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

آمدنی حاصل کرنے کی کارکردگی دراصل وسائل کے بہترین استعمال کے سوا کچھ نہیں ہے۔ چونکہ سرمایہ کاری کی تشکیل معیشت کی شرح نمو کا ایک اہم عامل ہے، اس لیے عوامی پالیسی کو کم ترجیحی سیکٹرز میں وسائل کے بہاؤ کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، اس کے بجائے انہیں اہم شعبوں کی طرف موڑنا چاہیے۔ پرتعیش اشیا اور دیگر کم ترجیحی اشیا (جیسے کھلے پلاٹ، مہنگی کاریں، زیورات وغیرہ) پر زیادہ ٹیکس لگا کر حکومت اعلیٰ ترجیحی شعبوں کے لیے وسائل کے اجرا کو یقینی بناتے ہوئے ایسی اشیا کی کھپت اور پیداوار کو روک سکتی ہے۔

ٹیکس نظام کا بنیادی کام حکومت کے لیے اس کے عوامی اخراجات کے ساتھ ساتھ مقامی حکام اور اسی طرح کے عوامی اداروں کے لیے محصولات میں اضافہ کرنا ہے۔ لہٰذا، ٹیکس پالیسی کے حوالے سے ترقیاتی حکمت عملی کا پہلا ہدف یہ یقینی بنانا ہے کہ اس فنکشن کو مؤثر طریقے سے انجام دیا جائے۔ اس محاذ پر پاکستانی ٹیکس افسران کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے۔ گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران مالیاتی خسارہ بلند رہنے اور سالانہ مقررہ محصولات کے اہداف کے باوجود اور کئی بار نیچے کی طرف نظرثانی کرنے کے باوجود فیڈرل بورڈ آف ریونیو اپنے مقرر کردہ اہداف حاصل نہیں کر سکا۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب، مالی سال 2022-23 میں 11.4 فیصد پر افسوس ناک حد تک کم تھا۔ اس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا تناسب محض 8.5 فیصد تھا۔

ٹیکس کا دوسرا مگراتنا ہی اہم کام آمدنی اور دولت کی تقسیم نو کی پالیسی کے ذریعے عدم مساوات کو کم کرنا ہے۔ انکم ٹیکس کی بلند شرحیں، کیپٹل ٹرانسفر ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اختیار کیے گئے کچھ ذرائع ہیں۔ پاکستان میں بتدریج منصفانہ ٹیکسوں سے انتہائی غیر مساوی ٹیکسوں کی طرف تبدیلی آئی ہے۔

ترقی پسند ٹیکسوں کے ذریعے عدم مساوات کو دور کرنے کی بجائے فرضی (presumptive) اور کم سے کم (minimum) ٹیکسوں کے ساتھ ساتھ متعدد ودہولڈنگ دفعات (آسانی سے جمع کیے جانے والے ٹیکس) نے ٹیکس کے بنیادی فلسفے کو تباہ کر دیا ہے۔ اس انحراف نے ٹیکسوں کے بوجھ کو امیروں سے غریبوں پر مؤثر طریقے سے منتقل کر دیا ہے۔

معاشی انصاف کا تعلق زیادہ تر ٹیکس کے بوجھ اور عوامی اخراجات کے فوائد کی تقسیم سے ہے۔ یہ سماجی انصاف کے وسیع تر تصور کا ایک جزو ہے، جس میں تقسیم انصاف کے علاوہ خواتین اور بچوں کے ساتھ سلوک اور معاشرے میں نسلی اور مذہبی رواداری جیسے سوالات شامل ہیں۔ ٹیکس پالیسی آمدنی اور دولت کی مطلوبہ خطوط پر تقسیم کو متاثر کرنے کا ایک جمہوری طریقہ ہے۔

اس پالیسی کے اہم اجزاء یہ ہو سکتے ہیں؛ (الف) آمدنی، دولت اور جائیداد کے لین دین پر براہ راست ٹیکس لگانا، (ب) زیادہ آمدنی والے گروہوں کی طرف سے خریدی گئی اشیا (کسٹمز ڈیوٹی، ایکسائز لیوی، اور سیلز ٹیکس) پر ٹیکس لگانا، اور (ج) کم آمدنی والے گروہوں کی طرف سے خریدے گئے سامان پر سبسڈی (منفی ٹیکسیشن)۔ پاکستان میں ترقی پسند ٹیکسیشن سے رجعت پسند ٹیکسیشن کی طرف بڑھنا یقیناً تباہ کن ثابت ہوا ہے کیونکہ ہمارا معاشرہ پہلے ہی معاشی، سیاسی، جغرافیائی اور مذہبی بنیادوں پر منقسم ہے۔

ہمارے ہاں انکم ٹیکس کی وصولی تقریباً 10 ٹریلین روپے ہونی چاہیے۔ اگر 20 ملین افراد جن کی سالانہ قابل ٹیکس آمدنی 1.5 ملین روپے ہے (ایک بہت ہی قدامت پسند تخمینہ) سے موجودہ ریٹس پر انکم ٹیکس لیا جائے تو کل وصولی 7000 ارب روپے سے کم نہیں ہو گی۔ اگر ہم کارپوریٹ اداروں، دیگر غیر انفرادی ٹیکس دہندگان اور افراد (جس کی آمدنی 600,000 روپے سے 1,000,000 روپے کے درمیان ہے) سے انکم ٹیکس کو بھی شامل کریں تو مجموعی اعداد و شمار 10 ٹریلین روپے ہو سکتے ہیں۔ ایف بی آر نے مالی سال 2022-23 کے دوران صرف 3086 ارب روپے انکم ٹیکس کے طور پر اکٹھے کئے!

ایک اور چونکا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ ایف بی آر کے فیلڈ آفیشلز کی مالی سال 2022-23 میں اپنی کوششوں سے انکم ٹیکس جمع کرنے میں مایوس کن کارکردگی جو کہ محض 4.66 فیصد ہے۔ وہ 144.308 بلین روپے (موجودہ طلب میں سے) اور 2.85 بلین روپے (بقایاجات میں سے) جمع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ان اعداد و شمار سے ایف بی آر کی کارکردگی کی انتہائی افسوس ناک صورت حال کی تصدیق ہوتی ہے، جہاں افسران کو دوگنی تنخواہ، بونس اور اعزازیہ مل رہا ہے۔

کل انکم ٹیکس کی وصولی 3086 ارب روپے میں سے ایف بی آر کو ودہولڈنگ ٹیکس ایجنٹوں سے 1874.29 بلین روپے (کل وصول کردہ رقم کا 60.74 فیصد) ملے۔ ودہولڈنگ کے نظام میں بھی ٹیکس حکام کی ملی بھگت سے بڑے پیمانے پر کرپشن عروج پر ہے۔ کچھ ودہولڈنگ ٹیکس ایجنٹ، عوام سے تو ٹیکس وصول کرتے ہیں یا کٹوتی کرتے ہیں، لیکن سرکاری خزانے میں جمع نہیں کراتے یا ادا کرنے والے اور وصول کنندہ آپس میں مل جل کر قومی خزانے کو اربوں روپے سے محروم کر دیتے ہیں۔ کرپٹ ٹیکس حکام کی ملی بھگت سے مالی سال 2022-23 کے کل جی ڈی پی کے تخمینے کی بنیاد پر ودہولڈنگ ٹیکس کی حقیقی صلاحیت 5500 ارب روپے سے کم نہیں تھی۔

اسی طرح سیلز ٹیکس، فیڈرل ایکسائز اور کسٹم ڈیوٹی میں بے تحاشہ بدعنوانی کی وجہ سے مالی سال 2022-23 میں مجموعی وصولی اصل صلاحیت سے بہت کم تھی۔ گذشتہ مالی سال [2022-23] میں ایف بی آر نے سیلز ٹیکس کی مد میں 2591 ارب روپے، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے تحت 370 ارب روپے اور کسٹم ڈیوٹی کے تحت 932 ارب روپے جمع کیے۔ کل بالواسطہ ٹیکسز کا مجموعہ 3893 ارب روپے تکلیف دہ حد تک کم تھا۔ معیشت کے حجم کے لحاظ سے صرف سیلز ٹیکس کی وصولی 7000 ارب روپے ہونی چاہیے تھی اور کل بالواسطہ ٹیکس کسی بھی صورت 9000 ارب سے کم نہیں ہونے چاہئیں تھے۔

قوانین کا کمزور نفاذ، جس میں نااہلی اور بدعنوانی شامل ہے، ہمارے ٹیکس نظام کی اصل خرابی ہے۔ اس کو دور کرنے کے بجائے ہر سال ٹیکس قوانین میں فنانس بل کے ذریعے اور اس کے درمیان ایس آر اوز کے ذریعے بغیر سوچے سمجھے آئینی ترامیم کی جاتی ہیں جن سے معاملات مزید بگاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کا واحد حل سسٹم کی مکمل تشکیل نو (reconstruction)، خود کاری (automation) اور ڈیجیٹلائزیشن (digitization) میں مضمر ہے اور اس کے لئے مکمل اور قابل عمل روڈ میپ 'کم شرح والے وسیع اور متوقع ٹیکسز' میں دیا گیا ہے، [نظر ثانی اور توسیع شدہ ایڈیشن 2020، پرائم، اسلام آباد]۔ سال بہ سال اس پر عمل درآمد کو سیاسی مجبوریوں کے نام پر مؤخر کیا جاتا رہا ہے۔

مضمون نگار وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں ایڈجنکٹ فیکلٹی، ممبر ایڈوائزری بورڈ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے سینیئر وزٹنگ فیلو ہیں۔