کوہستان ویڈیو سکینڈل، افضل کوہستانی بھی مارے گئے

مقتول نے سات برس تک انصاف کے حصول کی جنگ لڑی

2012ء کے کوہستان ویڈیو سکینڈل کو بے نقاب کرنے والے افضل کوہستانی کو بدھ کی رات ایبٹ آباد میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ وہ کوہستان ویڈیو سکینڈل کو میڈیا اور بعدازاں عدالت میں لے کر گئے تھے۔

افضل کوہستانی کو نامعلوم حملہ آوروں نے شہر کے مصروف ترین علاقے سربان چوک میں گولی مار کر قتل کیا جو بعدازاں جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

عینی شاہدین کے مطابق افضل کوہستانی پر متعدد فائر کیے گئے جس کے باعث وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ فائرنگ سے تین اور لوگ بھی زخمی ہوئے جنہیں ایوب میڈیکل کمپلیکس ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا ہے۔

https://youtu.be/vUzvis0-VZc

کوہستان ویڈیو سکینڈل 2012ء میں میڈیا پر آیا تھا جب آٹھ لڑکے اور لڑکیوں کو ان کے قبیلے کے ارکان نے کوہستان کے ایک پسماندہ گاؤں میں اس وقت فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا جب ان کی ایک ویڈیو منظرِعام پر آئی تھی جس میں پانچ خواتین تالیاں بجا رہی تھیں اور گیت گا رہی تھیں جب کہ خاندان کے مرد ارکان رقص کر رہے تھے۔ مقامی قبائلیوں کے نزدیک نوجوانوں نے مقامی روایات سے بغاوت کی تھی اور وہ ان کے لیے بدنامی کا باعث بنے تھے۔

ویڈیو کے لیک ہونے کے بعد لڑکیوں کے قبیلے کا جرگہ ہوا جس نے مقامی رواج کے تحت لڑکے اور لڑکیوں کو قتل کرنے کا حکم جاری کیا۔

ویڈیو میں نظر آنے والے لڑکوں میں سے ایک کے بھائی افضل نے یہ ویڈیو جاری کی اور یہ الزام عائد کیا کہ لڑکیوں کو 30 مئی 2012ء کو مقامی مذہبی رہنما کے حکم پر قتل کر دیا گیا تھا جو 40، 50 ارکان پر مشتمل جرگہ کی قیادت کر رہے تھے۔ تاہم، حکام نے دعویٰ کیا کہ قتل کی ایسی کوئی واردات نہیں ہوئی اور لڑکیاں زندہ ہیں۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے سات جون 2012ء کو اس معاملے پر سوموٹو ایکشن لیا اور 17 جولائی کو معاملے کی تفتیش کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن تشکیل دیا جس نے 2017ء میں یہ رپورٹ جاری کی کہ لڑکیاں زندہ ہیں۔

تین جنوری 2013ء کو افضل کے تین بھائیوں شاہ فیصل، شیر ولی اور رفیع الدین کو ان کے گھر کے باہر گولی مار کر قتل کر دیا گیا اور ایک برس قبل افضل کے گھر میں لگنے والی آگ میں ایک بچہ جل کر جاں بحق ہو گیا۔

گزشتہ برس جولائی میں پالس پولیس سٹیشن نے سپریم کورٹ کے احکامات پر دوبارہ مقدمہ درج کیا اور چار مشتبہ افراد عمر خان، صابر، محمد سرفراز اور سعید کو گرفتار کر لیا گیا۔ دورانِ تفتیش ملزموں نے تین لڑکیوں بیگم جان، شیریں جان اور بازغہ کو فائرنگ کر کے قتل کرنے کا اعتراف کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے لاشیں مقامی پہاڑی نالے میں بہا دی تھیں۔



افضل پریقین تھا کہ ملزم جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس نے اس وقت یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’’ان ملزموں نے ان تمام پانچ لڑکیوں کو شدید ترین تشدد کرکے ہلاک کیا ہے اور اب وہ اپنے ظلم پر پردہ ڈالنے کے لیے ان کی قبروں کی نشاندہی نہیں کر رہے۔‘‘

افضل کو مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں جس کے باعث سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا حکومت کو انہیں سکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی تھی لیکن ان احکامات پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا۔

افضل نے رواں برس مئی میں بشام میں میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پالس میں ہونے والے ایک جرگہ میں ان کے قتل کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔ افضل نے ان دھمکیوں کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں اس نام نہاد ثقافت کے خلاف لڑائی جاری رکھوں گا جس میں جانوروں کو انسانوں سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اور گزشتہ روز افضل کی زبان بھی ہمیشہ کے لیے خاموش کر دی گئی ہے۔