شاہد خاقان عباسی کو شہباز شریف کی جگہ اپوزیشن لیڈر بنانے کا فیصلہ

شاہد خاقان عباسی کو شہباز شریف کی جگہ اپوزیشن لیڈر بنانے کا فیصلہ
سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (نواز) کے مرکزی رہنما سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی دو روز قبل ابھی کراچی پہنچے ہی تھے کہ انہیں لندن سے پارٹی صدر شہباز شریف کا فون آ گیا جو ذرائع کے مطابق قدرے پریشانی میں یہ جاننا چاہ رہے تھے کہ ان کی جیب میں جو پرچی ہے اس پر کیا لکھا ہے۔ ذرائع کے مطابق اسی روز شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمن کو لمبی فون کال کر کے ان سے بھی طویل گفتگو کی اور ان کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ پتہ کریں کہ شاہد خاقان عباسی کی جیب میں موجود پرچی پر کیا درج ہے۔

مقتدر حلقوں نے بالآخر مسلم لیگ (ن) میں سے مریم نواز گروپ ہی کے نامزد کردہ شاہد خاقان عباسی کو پاکستان اور پارلیمان میں اب پارٹی کی قیادت کے لئے قبول کر لیا ہے جنہیں قومی اسمبلی میں شہباز شریف کی جگہ اپوزیشن لیڈر کی پوزیشن سنبھالنے کا ٹاسک دے کر لانچ کیا جا چکا ہے۔

ذرائع کے مطابق سابق وزیر اعظم کو پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں اور پی ٹی آئی سمیت ملک کی تمام سیاسی قوتوں اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر موجود بعض سیاسی شخصیات کے ساتھ رابطے اور مذاکرات کر کے جن 6 نکات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے، ان 6 نکات کا کاغذ (پرچی) دراصل خود مقتدر حلقوں کی طرف سے انہیں دیا گیا ہے تاکہ وہ بھرپور اعتماد کے ساتھ اپنا مشن مکمل کر سکیں۔



ذرائع کے مطابق نون لیگ میں مریم نواز گروپ سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعظم کو یہ ٹاسک لندن میں قیام پذیر اپوزیشن لیڈر اور پارٹی صدر شہباز شریف سے بالا بالا سونپا گیا۔ شہبازشریف کو جونہی اس واردات کا علم ہوا تو اس بابت ان کی بے چینی بڑھ گئی کہ اسٹیبلشمنٹ نے پارٹی صدر ہونے کے باوجود انہیں کراس کرتے ہوئے ان کے نائب یعنی پارٹی کے سینئر نائب صدر کو براہ راست کوئی ٹاسک دے دیا ہے اور کاغذ کا کوئی ٹکڑا تھما کر فٹافٹ کراچی بھی بھیج دیا ہے، لہٰذا جلا وطن پارٹی صدر اور اپنے چانس کے منتظر شہبازشریف نے سینیئر نائب صدر سے فوری رابطہ کر کے یہ جاننے کی کوشش کی کہ پرچی پر انہیں کیا ایجنڈا تھمایا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق شاہد خاقان عباسی کے 6 نکاتی ایجنڈے میں اصل نکتہ اداروں کے اختیارات اور دائرہ ہائے کار کا تعین ہے جس پر انہیں برسر اقتدار PTI سمیت تمام سیاسی، بالخصُوص پارلیمانی قوتوں کا اتفاق رائے حاصل کرنا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق لیگی وزیر اعظم کو صرف مستقبل کے متفقہ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے لانچ کیا گیا ہے۔

دوسری طرف فیصل واؤڈا کے نااہل ہو جانے کا امکان ہے جس کے پیش نظر کراچی کی یہ نشست ضمنی الیکشن میں حاصل کرنے کے لئے نوُن لیگ نے تگ و دو شروع کر دی ہے جو 2018 کے عام انتخابات میں محض چند سو ووٹوں کے فرق سے شہباز شریف فیصل واؤڈا سے ہار گئے، یا ہروا دیے گئے تھے۔ شاہد خاقان عباسی کی ڈاکٹر فاروق ستار اور مفتاح اسماعیل کے ہمراہ تاجروں سے ملاقاتیں بھی اسی سلسلے اور آنے والے بلدیاتی انتخابات میں کراچی میں نوُن لیگ کا وجود قائم کرنے کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے ہوئی ہیں۔



ذرائع کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت کے فیصل واؤڈا نے جس روز ایک لائیو ٹی وی ٹاک شو میں فوجی بوٹ میز پر رکھا تھا، اسی روز انہیں فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے اپنی اس حرکت سے دراصل مقتدر قوتوں کے سیاست میں خفیہ کردار اور مداخلت کا چرچا کیا تھا۔

ادھر مقتدر حلقے مولانا فضل الرحمٰن کی تازہ دھمکی سے قدرے اپ سیٹ ہو گئے ہیں کیونکہ اسلام آباد کا دھرنا ختم کرنے کے بدلے چودھری برادران نے مولانا سے اہم یقین دہانی انہی حلقوں کی طرف سے کروائی تھی۔ تبدیلی کا وعدہ پورا نہ ہونے پر اب شدید سیاسی فرسٹریشن میں مبتلا مولانا فضل الرحمٰن نے نیا پتہ کھیلتے ہوئے امانت کا راز کھول دینے اور یقین دہانی کروانے والے اصل چہروں کو بے نقاب کرنے کی جو دھمکی دی ہے تو مقتدر حلقوں میں کھلبلی مچ گئی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں سسٹم یا موجودہ سیٹ اپ میں، یا دوسرے لفظوں میں سلیکٹرز اور سلیکٹڈ کے مابین شدید تناؤ پیدا ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

لہٰذا انہوں نے چوھدری شجاعت حسین کے ذریعے مولانا کو فون کروا کے سمجھانے کی کوشش کی اور پیغام دیا ہے کہ وہ جلدبازی میں کوئی ایسی حرکت نہ کریں، انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔