ٹی وی چینلز پر کرکٹ پروگرام یکسانیت اور پھکڑ پن کی جھلک بن گئے

ٹی وی چینلز پر کرکٹ پروگرام یکسانیت اور پھکڑ پن کی جھلک بن گئے
کورونا کی اس وبا میں ہر کسی کو دو ہفتوں سے کرکٹ کا بخار بار بار تنگ کرے جارہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی وی چینلز بھی اس سحر سے محفوظ نہ رہے۔ ناظرین کی تفریح طبع کے لیے کوئی نہ کوئی شو اسکرین پر جلوہ گر ہوتا رہا۔ میچ سے پہلے، وقفے میں اور میچ کے اختتام پر بے لاگ سیر حاصل تبصرے نشر ہوئے۔ اب کرکٹ کا سیزن ہو تو جناب ٹی وی چینلز والوں کو بھی تجزیہ کار اور بھولے بسرے کرکٹرز کی یاد ستااٹھتی ہے۔ جبھی کسی نہ کسی چینل پر ان کی خدمات حاصل کرلی گئیں۔ دو تین ٹیسٹ یا ون ڈے کھیلنے والے کرکٹرز بھی ٹی وی پر بیٹھ کر خوب ماہرانہ رائے دینے میں مصروف رہے۔ کس کو کھلانا چاہیے، کون بالنگ کرائے، کون جیتے گا، یہ سب کسی  ماہر نجومی کی طرح پیش گوئیاں بیان کی گئیں۔  رنگین اور قد آور سیٹس، اسپانسرز کی بھرمار اور مہمان کھلاڑیوں کی یلغار میں سجے ان کرکٹ شوز میں یقین جانیں ایسا تماشہ ہوا جسے دیکھ کر گمان ہوا کہ آخر کب ہم سنجیدہ ہوں گے؟ ۔

ہر سال کی طرح اس بار بھی دو بڑے ٹی وی  چینلز نے پی ایس ایل پر خصوصی نشریات ڈیزائن کیں۔ اب یہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا خبط ہی کہا جاسکتا ہے کہ چینلز کے ان شوز میں کرکٹ کے علاوہ ہر موضوع پر ڈھیر ساری باتیں ہوئیں۔ کوئی ’ہر لمحہ پرجوش‘ کا نعرہ لگاتا تو کوئی ’جشن ِ کرکٹ‘ کا پہاڑا پڑھ رہا تھا  لیکن ٹھہریے کرکٹ کے ان شوز کو دیکھ کر یقین جانیں اکتاہٹ ہونے لگی   کیونکہ موضوع چاہے کرکٹ تھا لیکن ان شوز میں اس کا تعلق بالکل اس طرح تھا جیسے اسٹیڈیم کے باہر کھڑے ہو کر اہلکار  ٹکٹ چیک کرتا ہے۔

کسی سیاست دان، فنکار یا گلوکار کو مہمان بنا کر ان کے ساتھ وہ ’ٹھنڈی جگتیں‘ ماری جاتی ہیں جنہیں اگر آپ سبی یا جیکب آباد کی تپتی گرمی میں بھی لے جائیں تو وہ پھر بھی ٹھنڈی ہی رہیں گی۔ دونوں شوز کا موازنہ کریں تو کم و بیش یکساں ہی  رہے  اور بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو مہمان ایک شومیں آیا وہ اگلے ہی  دن  دوسرے کے شو میں بیٹھ کر وہی گھسی پٹی باتیں کررہا ہوتا ہے،جنہیں سن سن کر ناظرین کے کان پک چکے ہیں۔ سونے پر سہاگہ دونوں پروگرام میں شامل کامیڈین گیٹ اپ بدل کر براجمان ہوتے  رہے۔سارا زور صرف سیاست دان بن کر ہنسنے ہنسانے پر رہا۔ سمجھ نہیں آتا کہ ہمارے یہاں سیاست دانوں کا مذاق اڑانے کو ہی طنز و مزاح  کیوں سمجھا جانے لگا ہے۔ روایتی پھکڑ پن کی زنجیروں میں آخر ہمارے مزاح کیوں قید ہو کر رہ گیا ہے۔

جس نوعیت کے ان شوز میں کامیڈین مختلف گیٹ اپ میں آتے رہے تو جناب اس طرح کے ’خبر ناک‘ ٹائپ کے آدھا درجن پروگرامز مختلف چینلز سے نشر ہورہے ہیں۔ پھر تو ’ہر لمحہ پرجوش‘  یا ’جشن کرکٹ‘ بس صرف ان شوز کے ٹائٹل تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔  دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کرکٹ شوز میں بیٹھے ہوئے کرکٹرز  جو کبھی کسی زمانے میں ’مقدر کے سکندر‘ تھے یا پھر ’ کرکٹ کے لطیف لمحات‘ کے گواہ وہ بے چارے ہونقوں کی طرح اُن مہمانوں اور کامیڈین کو دیکھتے رہے، بلکہ سچ پوچھیں تو بعض دفعہ یہ ’مان نہ مان میں تیرا مہمان‘ کی عکاسی کررہے ہیں۔بہت سارے عوام کی طرح ان پروگراموں میں یہ بات بھی مشترک رہی کہ اسپانسرز کا پیغام ہر جگہ نمایاں رہا۔ چاہے وہ میز پر رکھے مشروبات کی صورت میں یا، چپس، ہینڈ سینٹی ٹائزر یا پھر چوکا یا چھکے،یا وکٹ گرنے کے مناظر میں۔ سب کچھ رہا  لیکن کرکٹ تبصرہ ایسا جیسے آٹے میں نمک ہو۔وہ تو بھلا ہو پاکستا ن کرکٹ بورڈ کے ذمے داروں کا جن کی کوتاہیوں اور لاپرواہیوں کی وجہ سے پی ایس ایل کا میلہ وقت سے پہلے ہی ملتوی کردیا گیا ورنہ سچ پوچھیں تو کرکٹ کے نام پر نجانے آگے کیا  کیا کچھ سہنا پڑتا