سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی ضمانت میں توسیع اور علاج کی غرض سے باہر جانے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اپنے احکامات میں وضاحت کی ہے کہ پہلی ضمانت جن طبی اور انسانی بنیادوں پر دی گئی، ان میں میاں صاحب کے علاج کو ایک انتہائی فوری اور اہم ضرورت قرار دیا گیا تھا۔ یہ سیاسی اور شخصی راست بازی کا فقدان تھا کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت اور ادارے کو بھی اپنے احکامات میں وضاحت کا عنصر شامل کرنا پڑا۔ جہاں اعلیٰ عدلیہ کو ذمہ داروں کے خلاف زیادہ سخت موَقف اپنانے کی ضرورت تھی کیوں کہ عدالت سے جھوٹ بولا گیا وہاں اس فیصلے میں اب بھی ضمانت کا راستہ دکھایا گیا ہے۔ اس فیصلے کا فوری اثر پہلے شہباز شریف کی بیرون ملک روانگی اور پھر مسلم لیگ نواز کے تنظیمی ڈھانچے میں اچانک ردوبدل کی صورت میں عوام کے سامنے آیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز نے مرضی سے نہیں بلکہ مجبوری میں صرف اپنی خاندانی سیاست کی حکمت عملی میں تبدیلی کا اعلان کیا ہے۔ نہ چہرے بدلے ہیں اور نہ ہی زیادہ تر لوگوں کا مقام اور خاندان کی نظر میں ان کی اہمیت میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔
یہ ضرور ثابت ہوا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی نظر میں غالباً شاہد خاقان عباسی اور رانا تنویر نے اپنا مقام کھویا نہیں ہے اور نہ ہی خواجہ آصف اور احسن اقبال کی تاریخی وفاداری پر شریف فیملی کو کوئی شک یا اعتراض ہے۔ خواجہ آصف سے تو کسی بھی وقت اسمبلی کے باہر یا اندر کسی ادارے کے خلاف کسی بھی قسم کی تقریر کروانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور خاص طور پر اگر ووٹ کو عزت دینے کی ضرورت پڑی تو خواجہ آصف سے بہتر مہرہ اس وقت سیاسی بازار میں میسر نہیں ہو گا۔
وہ کون سے عوامل ہیں جن کی بنیاد پر رانا تنویر کو پی اے سی کا چیئرمین بننے کا اہل سمجھا گیا؟ اور اب دوسری پارٹیوں کے ردعمل اور پارٹی کے اندر سے اٹھی آوازوں نے اس معاملے کو تذبذب اور ابہام کا شکار کر دیا ہے؟ اسمبلی کی سب سے اہم کمیٹی کے ساتھ اس طرح کا سلوک اس پارٹی کی سوچ کا سب سے بڑا عملی تضاد ہے۔ مریم اورنگزیب اس پارٹی کی ترجمان مقرر ہوئی ہیں۔ ان کی اہلیت کی بنیاد شریف خاندان سے ذاتی وفاداری پر استوار ہے۔
خواجہ سعد رفیق، جاوید لطیف یا ظفرالحق کی تلخیاں محض وقتی ہیں۔ ان رہنماؤں کو شاید اپنے بارے میں کوئی شک ہو مگر شریف خاندان کو ان کے سیاسی قد کاٹھ کا بخوبی علم ہے۔ چنانچہ ان کا غصہ وقتی ہے اور یہ جلد ٹھنڈا ہو جائے گا۔ اصل چیز عہدہ نہیں اختیارات ہیں اور اس حقیقت کو یہ تینوں رہنما جلد جان جائیں گے۔
مسلم لیگ نواز کے موجودہ تنظیمی ڈھانچے میں سب سے اہم اور مبہم عہدہ نائب صدر کا ہے جو تعداد اور افادیت دونوں سے مبرا ہے۔ مریم اور حمزہ سے لے کر کامران مائیکل تک مجموعی طور پر 16 نائب صدور مقرر کیے گئے ہیں اور اتنی ہی تعداد میں اضافے کی گنجائش بھی موجود ہے۔ اس طرح کا ڈھانچہ اس سیاسی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جس میں اصل اختیارات پر خاندانی کنٹرول برقرار رہے گا۔
حمزہ شہباز کو نائب صدور کی صف میں کھڑا کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ اب پنجاب کے اندر شہباز فیملی کی گرفت وقت کے ساتھ کمزور ہوتی جائے گی، اگرچہ رانا ثنااللہ پنجاب کی باگ دوڑ سنبھال رہے ہیں، وہ شہباز شریف کے دست راست رہے ہیں لیکن پنجاب میں ان کے سیاسی اختیارات کی حیثیت بھی آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا۔
ایک بات واضح ہے کہ شریف برادران نے سیاست سے فی الحال ریٹائرمنٹ کا فیصلہ لیا ہے اور اب پارٹی کی باگ دوڑ کے لیے مریم اور حمزہ کو میدان میں چھوڑا گیا ہے۔ ان دونوں سیاسی لاڈلوں کی عملی سیاست کا دارو مدار عدالتوں سے ملنے والی رعایت پر ہوگا نہ کہ ان کی سیاسی بصیرت اور تجربے پر۔
مسلم لیگ نواز نے اس ردو بدل کے فورا بعد نئے عہدے داروں کو متحرک ہونے کے لیے چابی دے دی ہے اور پچھلے دو دن کی سیاسی سرگرمیاں اس بات کا عملی ثبوت ہیں۔ آج پہلا عملی مظاہرہ میاں صاحب کی جیل میں واپسی کی صورت میں نظر آئے گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مریم نواز نیا عہدہ سنبھالتے ہی ٹویٹر پر متحرک ہو گئی ہیں۔ کسی روایتی اجلاس کی صدارت کیے بغیر وہ نواز شریف کی جگہ بیانات جاری کرتی رہیں گی۔ اب یہ پارٹی صرف میاں نواز شریف کی ہے اور وہ اپنے احکامات اور مرضی جیل یا ہسپتال سے مریم نواز کی وساطت سے ہی پہنچایا کریں گے جب کہ عوام کے سامنے فی الحال شاہد خاقان عباسی، رانا تنویر یا خواجہ آصف پارٹی کو لے کر چلیں گے اور ان کی ڈوریاں کوئی اور کھینچے گا۔
جمہوری گھروں کے ان بچوں کی سادگی پر کیا کہنا… چاہے مریم ہو یا حمزہ، یہ دونوں پاکستانی سیاست کے انوکھے لاڈلے ہیں۔ دونوں کو یہ تو پتہ ہے کہ عمران خان کو مینڈیٹ کس نے دیا اور اس کٹھ پتلی وزیراعظم کی ڈوریاں کون ہلاتا ہے؟
افسوس یہ ہے کہ نہ ہی حمزہ کو یہ پتہ ہے کہ اس کی ماں، بہنوں، بھائیوں اور بیویوں کے اکاونٹس میں پیسے کون بھجواتا تھا؟ اور نہ ہی مریم اپنے دادا، والد حتیٰ کے بھائیوں اور خاوند کے معاشی معاملات سے واقف ہیں تاہم وہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلوں سے فکری طور پر ضرور متفق ہیں۔
ایک فوجی حکمران کے سیاسی گملے میں پروان چڑھنے والے ایک کاروباری شخص کے نام سے منسوب سیاسی پارٹی مسلم لیگ نواز کا اس شخص کے سزا یافتہ ہونے کے بعد بھی اس نام کو پارٹی سے منسوب رکھنا اور اسے تاحیات چیئرمین بنانا اس ملک کی سیاسی پختگی، بصیرت اور روایات کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔
مسلم لیگ نواز نے جو تجربہ کار سیاسی گھوڑے میدان میں اتارے ہیں، ان میں سے اکثر عمر یا حالات کے اس موڑ پر کھڑے ہیں، جہاں اگلے تین سے چار سال میں ان کی سیاسی اننگز ویسے ہی ختم ہو جائے گی اور میدان میں بچیں گے مریم نواز، حمزہ اور طلال چوہدری وغیرہ۔ اس سے زیادہ قیادت اور سیاسی بصیرت کا بحران کیا ہو گا جب ایک سیاسی جماعت کے 16 نائب صدور ہوں۔
مسلم لیگ نواز کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس قدر بڑے پیمانے پر ردوبدل کے بعد بھی عوام کو یہ پتہ نہیں چل رہا کہ اب پارٹی کی قیادت کون کرے گا؟ شاید جمہوریت میں انہیں یہ جاننے کا حق حاصل نہیں یا پھر انہیں اس جان کاری کی ضرورت ہی نہیں اور یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے۔