بطور وزیراعظم نواز شریف کے دوسرے دور میں، شریف فیملی نے آئندہ صدر پاکستان کے لئے شریف برادران کے والد میاں شریف کے ذاتی دوست ریٹائرڈ جسٹس رفیق تارڑ کو بطور امیدوار چنا جو بتایا جاتا ہے کہ ابا جی کے اس قدر بے تکلف دوست تھے کہ روزانہ لگنے والی رات کی بیٹھک میں انہیں گندے لطیفے سنایا کرتے تھے۔ پہلے تو بڑی رازداری میں کئے گئے اس چناؤ کو خفیہ رکھا گیا۔ مرحوم انور قدوائی جو بطور چیف رپورٹر نوائے وقت ریٹائر ہونے کے بعد میر شکیل الرحمن سے دوستی کے سبب کر بطور انچارج ایڈیٹوریل پیج روزنامہ جنگ جوائن کر چکے تھے اور کبھی کبھی کالم بھی لکھ دیتے تھے۔ صرف انہوں نے خصوصی طور پر کالم لکھ کر اس میں اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اگلے صدارتی امیدوار کا نام ابھی صیغہ راز میں رکھا گیا ہے۔ بس اتنا سمجھ لیں کہ نہائت پاکباز، پارسا اور نیک شخصیت ہیں جن کا نام سامنے آنے پر پوری قوم کو ایک خوشگوار سرپرائز ملے گا۔
نام کا اعلان ہوا تو اگلی صبح ہی ملک کے سب سے بڑے کالم نگار، پاکستان کے Art Buchwald اردشیر کاؤس جی نے روزنامہ DAWN میں اپنے کالم میں بتایا کہ موصوف کی قانونی قابلیت کا یہ عالم ہے کہ قتل کے ایک ملزم کو موت کی سزا سنانے بارے ان کا ایک فیصلہ کالعدم کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے خاص طور پر لکھا کہ اگر اس فیصلے پر عمل ہوجاتا اور اپیل کنندہ پھانسی لگا دیا جاتا تو یہ ایک عدالتی قتل ہوتا۔
تاہم ان کے نام کا اعلان ہوتے ہی ان کی نامزدگی اس بنیاد پر چیلنج کر دی گئی کہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور نواز شریف کی حکومت کے جھگڑے کے دوران جسٹس (ر) رفیق تارڑ نے کسی جریدے کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں جسٹس سجاد علی شاہ کو عدالتی دہشت گرد کہا تھا جس پر وہ عدلیہ کو سکینڈلائز کرنے سے متعلق آئین کے آرٹیکل کی زد میں آتے ہیں، لہٰذا صدر مملکت کے منصب سمیت بطور امیدوار کسی بھی پارلیمانی نشست کا الیکشن لڑنے کے لئے کوالیفائی نہیں کرتے، کیونکہ صدر پاکستان کا منصب پارلیمنٹ کا حصہ ہے۔
سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج جسٹس مختار جونیجو چیف الیکشن کمشنر تعینات تھے۔ انہوں نے سماعت کے بعد یہ پٹیشن allow یعنی منظور کرتے ہوئے نہائت پاکباز، پارسا اور نیک شخصیت کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے اور رفیق تارڑ کو صدارتی الیکشن لڑنے کا نا اہل قرار دے دیا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف آئینی پٹیشن لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی تو اسے توقع کے عین مطابق جسٹس ملک قیوم کے سنگل بنچ کے سپرد کر دیا گیا جو پچھلے 16 سال سے کمپنی جج بھی فرائض سرانجام دے رہے تھے، لیکوئڈیشن جج بھی تھے، پنجاب لوکل گورنمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین بھی تھے، آئینی و سیاسی امور کو نمٹانے کے بھی exclusively ذمہ دار تھے۔ اس لئے کہ شریفوں سے قربت رکھتے تھے اوراس کے ساتھ ساتھ لاہور ہائی کورٹ کے سب سے بڑے کماؤ پوت مشہور تھے۔
بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا یا۔ یقین تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے اس سنگل بنچ نے جسٹس (ر) رفیق تارڑ کے خلاف الیکشن کمیشن کا فیصلہ اڑا دیا اور انہیں صدارتی الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی۔
اگلا منظر: کچھ عرصہ بعد جب ملک میں قومی کرکٹ ٹیم کے بعض بڑے بڑے کھلاڑیوں کے میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کا طوفان اٹھا اور نواز شریف حکومت نے اس کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا تو اسی شام جسٹس ملک قیوم فلائٹ پکڑ کے ایوان صدر پہنچ جاتے ہیں اور صدر مملکت جسٹس (ر) رفیق تارڑ سے کہتے ہیں تارڑ صاب، میں تہاڈی پٹیشن allow کیتی سی تے آج تسی صدر الیکٹ ہو کے ایتھے بیٹھے ہوئے او۔
ہُن تسی کرکٹ جوا جوڈیشل انکوائری کمیشن دی چیرمین شپ مینوں دوو۔ (تارڑ صاحب! میں آپ کے حق میں فیصلہ نہ دیتا تو آپ آج پریذیڈنسی میں نہ ہوتے، اب آپ یہ قرض چکائیں اور جوڈیشل کمیشن کی چیئرمینی مجھے دیں)
ذرائع کے مطابق جسٹس (ر) رفیق تارڑ جو بطور صدر پاکستان قومی کرکٹ بورڈ کے پیٹرن ان چیف تھے، جسٹس ملک قیوم کو وزیراعظم ( نواز شریف) کے حوالے سے اشارہ کرتے ہوئے سرگوشی کے انداز میں کہتے ہیں کہ ‘اوئے ایہدے توں لے لے، ایہدے کولوں ایہہ کم کروا لے’ ( نواز شریف سے یہ کام کروا لو) مگر بتایا جاتا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کا سب سے دبنگ جج اڑ گیا اور صدر سے کہتا ہے نئیں نئیں، میں تہاڈے کولوں ای لینی اے (نہیں نہیں، میں تو آپ ہی سے آرڈر کرواؤں گا اور ابھی کروا کے جاؤں گا) اور بڑے دھڑلے سے مجوزہ عدالتی انکوائری کمیشن کے پریذائڈنگ آفیسر (سربراہ) کے آرڈر کروا کے پہلی دستیاب فلائٹ سے اسی رات واپس لاہور پہنچ گئے اور اگلی صبح مزید خود اعتمادی کے ساتھ کورٹ کر رہے تھے۔
اسی کمیشن نے سلیم ملک کو کرکٹ جوا کا مجرم قرار دے کر فارغ کر دیا تھا، جس کے بعد وہ ایک عرصہ لاہور پریس کلب میں تاش پر جوا کھیلتا رہا۔ جسٹس ملک قیوم بڑی دن رات محنت اور پوری دلجمعی سے کام کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ مبینہ جواری سٹارز کو بلا کر اپنے چیمبر اور گھر بھی ملاقاتیں کرتے اور ان کے بیانات ریکارڈ کرتے رہے۔ جب وہ انکوائری کر رہے تھے تو میرا بطور اعلیٰ عدلیہ رپورٹر دیگر متعدد ججوں کی طرح جسٹس ملک قیوم سے بھی بے تکلفانہ ملنا جلنا تھا۔ کرکٹ جوا جوڈیشل کمیشن کی انکوائری کے دوران ایک بار اپنے عدالتی چیمبر میں دوران ملاقات اپنی زیر ترتیب سفارشات شیئر کرتے ہوئے انہوں نے خود مجھے بتایا جیویں ہن راشد لطیف اے، اوہ غریب بندہ اے، سنیا اے 7 بھیناں دا کلّا (اکلوتا) بھرا اے، میں اونہوں فائن نئیں کیتا، چھڈ ؍دتّا اے (راشد لطیف غریب آدمی 7 بہنوں کا اکلوتا بھائی ھے، لہٰذا میں نے اسے کلیئر کردیا ہے) ۔