راشد لطیف اور سلیم ملک، پاکستان میچ فکسنگ تاریخ کے دو مرکزی کردار آمنے سامنے

راشد لطیف اور سلیم ملک، پاکستان میچ فکسنگ تاریخ کے دو مرکزی کردار آمنے سامنے
پاکستان کے سابق کپتان اور میچ فکسنگ کے الزامات کے تحت کرکٹ سے تاحیات پابندی کا شکار سلیم ملک نے ایک مرتبہ پھر ایک پریس کانفرنس کی ہے جس میں انہوں نے پاکستان کے ایک اور سابق کپتان راشد لطیف سے متعلق کچھ پرانے اور کچھ نئے الزامات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ راشد لطیف ایم کیو ایم کا ورکر تھا اور الطاف حسین کو اپنا باپ کہا کرتا تھا۔ راشد لطیف کھلاڑیوں کو ڈرایا کرتا تھا کہ بوری بند لاش ملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ راشد لطیف جس شخص سے وسیم اکرم کے خلاف لکھوا رہا تھا، اسی کی آڈیو لیک کر دی۔ سلیم ملک کا کہنا تھا کہ راشد لطیف نے ان پر میچ فکسنگ کے الزامات لگائے تو پھر آ کر میرے سامنے قسم کھائے۔ انہوں نے کہا کہ اس کو آگے لانے والے جاوید میانداد تھے اور بعد میں اس نے جاوید بھائی کو ہی چھرے گھونپے۔ یہ صرف الزام لگا لگا کے نوکریاں لیتا رہا ہے، پی ٹی وی میں پچھلے دس سال سے بیٹھا ہے کیونکہ یہ لوگوں پر الزام لگاتا ہے صرف۔

سلیم ملک نے الزام لگایا کہ اصل میں پاکستان ٹیم کو خراب کرنے والا یہ بندا تھا۔ اپنی کپتانی کی خاطر اس نے پوری ٹیم کو قربانی کا بکرا بنایا۔ اپنی بوٹی کی خاطر اس نے سب کی قربانی کی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور سپریم کورٹ کو اس کے خلاف ایکشن لینا چاہیے، یہ چیزیں اب آہستہ آہستہ لوگوں کے سامنے آنا شروع ہو چکی ہیں اور ان پر انکوائری ہونی چاہیے۔

یہ معاملہ نیا نہیں۔ 90 کی دہائی سے پاکستان میں میچ فکسنگ اور جوئے سے متعلق الزامات جاری رہے ہیں مگر سلیم ملک اور راشد لطیف اس سکینڈل کے مرکز رہے ہیں۔ ایک طرف سلیم ملک تھے جن پر میچ فکسنگ کے الزامات لگائے گئے اور دوسری جانب راشد لطیف تھے جو میڈیا رپورٹس کے مطابق اس زمانے میں ایک موٹی تازی فائل لے کر گھوما کرتے تھے جس میں کھلاڑیوں اور کچھ دیگر لوگوں سے متعلق مبینہ طور پر شواہد ہوا کرتے تھے۔ یہ راشد لطیف ہی تھے جو 1994 میں سلیم ملک کی کپتانی میں زمبابوے کے خلاف کھیلی گئی ٹیسٹ سیریز کے دوران میچ فکسنگ کے الزامات سامنے لائے۔ اس سیریز کے بعد سلیم ملک پر آسٹریلوی کھلاڑیوں نے بھی الزامات لگائے کہ وہ ان کے پاس خراب کارکردگی کے عوض موٹی رقموں کی پیشکش لے کر آئے تھے۔

سلیم ملک کے بعد پاکستان کی کپتانی وسیم اکرم کے پاس گئی مگر راشد لطیف نے ان پر بھی میچ فکسنگ کے الزامات لگائے تھے۔ اس حوالے سے بھارتی میگزین آؤٹ لک انڈیا کو 1997 میں دیا گیا ان کا ایک انٹرویو انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس میں راشد لطیف نے کہا تھا کہ انگلینڈ میں 1996 کی سیریز کے پہلے ٹیسٹ کے دوران ایک بھارتی شخص ان کے پاس آیا اور اس نے ان کو پیشکش کی کہ وہ پاکستان کا ٹوٹل اگلے دن صبح 300 تک نہ جانے دیں۔ اس وقت ٹیم کا مجموعی سکور 290 تھا جب کہ 9 کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے اور ان کے ساتھ دوسری طرف عطاالرحمٰن بیٹنگ کر رہے تھے لیکن راشد لطیف نے جا کر منیجر اور وسیم اکرم کو بتا دیا۔ انہوں نے کہا کہ اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ وسیم اکرم کو نہیں بتانا چاہیے تھا۔

اس فائل میں لیکن صرف سلیم ملک اور وسیم اکرم ہی کے نام نہیں تھے۔ ایک اور بڑا نام جس کے خلاف انہوں نے الزامات لگائے تھے، سعید انور کا تھا جو کہ اس وقت دنیا کے بہترین ون ڈے بلے بازوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ راشد لطیف کے مطابق ان کے پاس ایک ٹیپ تھی جس میں سلیم ملک اور سعید انور کی بات چیت سنی جا سکتی تھی اور چند دیگر کھلاڑیوں کی بھی۔ جب اس پورے سکینڈل کی تحقیقات شروع ہوئیں تو اس ٹیپ کا بھی ذکر آیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس میں سعید انور کی آواز تو تھی لیکن وہ کس سے بات کر رہے تھے، یہ سنائی نہیں دے رہا تھا کیونکہ صرف ایک طرف کی آواز ریکارڈنگ میں سنی جا سکتی تھی۔ دوسری جانب کی آواز ٹیپ میں سے کاٹ دی گئی تھی جس کے باعث یہ آڈیو ٹیپ ڈاکٹرڈ ثابت ہوئی اور اس پر کوئی ایکشن نہ لیا جا سکا۔ راشد لطیف کے مخالفین کا ماننا تھا کہ انہوں نے اس ٹیپ میں سے اپنے ایک قریبی ساتھی کی ٹیپ کاٹ کر انکوائری کمیشن کے سامنے پیش کی تھی۔

راشد لطیف نے صرف پاکستانی کھلاڑیوں کا نام نہیں لیا بلکہ انہوں نے بتایا کہ بھارت کی ٹیم کے بھی بڑے کھلاڑی اس کام میں ملوث تھے۔ انہوں نے نوجوت سنگھ سدھو، بھارتی کپتان اظہرالدین اور ایک اور سابق بھارتی کپتان کپل دیو کے نام بھی لیے۔ انہوں نے کہا کہ کپل دیو سب سے بڑے جواری تھے۔ جاوید میانداد کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جاوید میانداد بھی سٹہ کھیلتے تھے لیکن وہ ’مثبت سٹہ‘ کھیلتے تھے۔ یعنی وہ اپنی کارکردگی پر پیسے لگاتے تھے کہ وہ 50 کریں گے یا 100 کریں گے اور پھر بعد ازاں وہ کر کے بھی دکھاتے تھے۔

یہاں ایک چیز انتہائی اہم ہے۔ سلیم ملک نے کہا کہ جاوید میانداد راشد لطیف کو ٹیم میں لانے والے تھے اور راشد نے ان کی پیٹھ میں چھرے گھونپے۔ مگر یہاں راشد لطیف تو کہہ رہے ہیں کہ جاوید میانداد ’مثبت سٹہ‘ کھیلتے تھے۔ بہت سے لوگ سوچ سکتے ہیں کہ تو پھر یہ چھرا گھونپنا تو نہ ہوا۔ دراصل یہ ایک عجیب و غریب دعویٰ ہے کہ انسان مثبت سٹہ کھیلے۔ مثال کے طور پر جاوید میانداد نے ایک میچ میں اپنے اوپر سٹہ لگایا کہ میں کم از کم 50 رنز کروں گا۔ اور پھر وہ نہ کر پائیں تو یہ کیسے ثابت ہوگا کہ ان کی وکٹ اچھی بال کی وجہ سے گری یا انہوں نے جان بوجھ کر گنوائی؟ ایک مرتبہ اگر یہ الزام لگ جائے کہ آپ کے بکیوں کے ساتھ تعلقات ہیں تو عزت اور تکریم تو خاک میں مل ہی جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ راشد لطیف کے الزامات درست ہوں لیکن ان کا یہ کہنا کہ جاوید میانداد مثبت سٹہ کھیلتے تھے، ایسے ہی کہ جیسے کوئی شخص چاہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔

بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ ان تمام کھلاڑیوں پر الزامات کے بعد راشد لطیف کو 1997 میں قومی ٹیم کا کپتان بنا دیا گیا۔ اس زمانے میں بھی راشد لطیف پر ایم کیو ایم ورکر ہونے کے الزامات لگے اور جاوید برکی جو کہ میچ فکسنگ پر کمیٹی کے سربراہ تھے نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ باسط علی اور راشد لطیف ایم کیو ایم کے ورکر تھے۔ راشد لطیف نے جاوید برکی اور پاکستان ٹیم کے سابق منیجر ماجد خان پر الزام لگایا کہ وہ اپنے آپ کو کوئی بہت بڑی چیز سمجھتے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا بورڈ بھی کھلاڑیوں کی سٹے بازی کو چھپاتا رہا تھا تو انہوں نے کہا کہ جب آسٹریلوی کھلاڑیوں نے سلیم ملک پر الزامات لگائے تو جاوید برکی نے بیان دیا کہ ان کھلاڑیوں نے بغیر سائن کے حلف نامے جمع کروائے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان کھلاڑیوں کے حلف نامے دستخط کے ساتھ تھے۔ سابق پی سی بی چیف ایگزیکٹو عارف عباسی سے متعلق انہوں نے کہا کہ میچ فکسنگ کے الزامات کی تحقیقات کرنے والے جج فخر الدین جی ابراہیم کو انہوں نے بتایا کہ وہ دنیا کے کسی بھی ملک جا کر یہ انکوائری کر سکتے ہیں لیکن آسٹریلوی بورڈ کو اپنے خط میں انہوں نے کہا کہ کھلاڑیوں کو اپنے بیانات جمع کروانے کے لئے خود پاکستان آنا ہوگا۔

راشد لطیف نے وسیم اکرم پر بھی الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ سابق پاکستانی فاسٹ باؤلر عطاالرحمٰن نے ان کے پاس ایک مجسٹریٹ کا اٹیسٹ کیا ہوا حلف نامہ جمع کروایا تھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وسیم اکرم نے 1994 میں نیوزی لینڈ کے دورے پر انہیں خراب باؤلنگ کرنے کے عوض ایک لاکھ روپے کی پیشکش کی تھی۔ یاد رہے کہ عطاالرّحمٰن خود بھی یہ دعویٰ کر چکے ہیں اور وسیم اکرم پر الزامات لگانے والوں میں ان کے علاوہ فاسٹ باؤلر عاقب جاوید بھی شامل ہیں جنہوں نے اب سے چند ماہ قبل دعویٰ کیا تھا کہ وسیم اکرم نے انہیں پیسوں کی پیشکش کی لیکن ان کے انکار پر وسیم نے ان کا کریئر تباہ کر دیا اور انہیں 25 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ لینا پڑی۔

2003 میں بطور پاکستان ٹیم کے کپتان کے، راشد لطیف نے ICC کو ایک خط میں لکھا کہ میچ فکسنگ اب بھی کرکٹ کا ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ حیران کن طور پر کرکٹ بورڈ کے علم میں لائے بغیر لکھے گئے اس خط پر راشد لطیف کو معاف کر دیا گیا اور انہیں پاکستان کا کپتان بھی برقرار رکھا گیا۔ بعد ازاں 2011 میں ایک انٹرویو کے دوران راشد لطیف نے کہا تھا کہ کرکٹ میں جوا آصف اقبال کے وقت سے تھا لیکن انہوں نے خود پہلی مرتبہ اسے زمبابوے کے خلاف 90 کی دہائی میں ہوتے دیکھا۔ سلیم ملک کو اس وقت تک ملک قیوم رپورٹ میں سامنے لائے گئے حقائق کے بعد سزا ہو چکی تھی اور وہ تاحیات پابندی کا شکار تھے لیکن راشد لطیف کا کہنا تھا کہ صرف سلیم ملک کو سزا دینا غلط تھا کیونکہ اگر صرف ثبوتوں کی بات ہے تو وہ جیسے باقیوں کے خلاف واضح نہیں تھے، ایسے ہی سلیم ملک کے خلاف بھی واضح نہیں تھے۔

لیکن دوسری جانب رپورٹر علیم عثمان نیا دور کے لئے لکھی گئی اپنی ایک رپورٹ میں بتا چکے ہیں کہ ان سے ملک قیوم نے خود اپنے چیمبر میں بیٹھے ہوئے کہا تھا کہ راشد لطیف غریب بندا ہے، سات بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے۔ اسے میں نے چھوڑ دیا ہے۔ وسیم اکرم کے بارے میں بھی وہ ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ وہ ان کا پسندیدہ کھلاڑی تھا، اس لئے انہوں نے اس پر پابندی کا فیصلہ نہیں دیا۔

میچ فکسنگ پاکستان کرکٹ کا ایک خوفناک، افسوسناک لیکن حقیقی باب ہے۔ یہاں کوئی اسے پیسے کمانے کے لئے استعمال کرتا ہے، تو کوئی کپتان بننے کے لئے۔ ان تمام کھلاڑیوں کے ایک دوسرے سے متعلق الزامات کو دیکھا جائے تو نظر یہی آتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو اس کھیل میں خود کو پارسا کہہ سکے۔ لیکن جیسے اس ملک میں کبھی کسی طاقتور کو سزا نہیں ہوئی، ویسے ہی ملک کا نام بدنام کرنے والے ان کرکٹرز کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ افسوسناک ترین بات یہ ہے کہ بالکل قومی سیاست کی طرح جب اداروں کو اپنی ساکھ بچانی ہو تو کسی ایک کمزور کو پکڑ کر سزا دے دی جاتی ہے، اور باقی سب بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ چھوٹا چور باہر اور بڑا ٹیم کے اندر بیٹھا ہوتا ہے۔ جب تک جزا اور سزا کا نظام ٹھیک سے کام نہیں کرے گا، نہ انصاف ہوگا، اور نہ ہی کھیل سے میچ فکسنگ کا خاتمہ۔