اگر پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ کے کردار کی بات کی جائے تو وہ ہمیشہ سے متنازع بلکہ بعض اوقات تو سیاہ نظر آتا ہے۔ جسٹس منیر سے لے کر جسٹس نسیم حسن شاہ تک اور پھر ڈوگر کورٹس سے لے کر افتخار چوہدری مارکہ جوڈیشل ایکٹویزم تک جو کہ آج تک جاری ہے سب متنازع حیثیت رکھتے ہیں۔ تاہم ان سب کے باوجود پاکستانی عدلیہ میں ایسے منصفین بھی گزرے ہیں جن کی ایمانداری اور اصولوں کی پاسداری کو عدلیہ کے ماتھے کا جھومر قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے 7 سال تک چیف جسٹس رہنے والے چیف جسٹس، جسٹس کارنیلئس وہ شخصیت ہیں جنہیں نہ جھکنے والا نہ بکنے والا کے مصداق عدلیہ کے بلند ترین معیارات کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ 1960 سے 1968 تک ملک کے چیف جسٹس رہے۔
تاہم اب اس زعم خوشنما میں بھی بال آ گیا ہے۔ بی بی سی نے لکھا ہے کہ لیجنڈری پاکستانی جادوئی فاسٹ باؤلر فضل محمود نے اپنی کتاب ’فرام ڈسک ٹو ڈان‘ میں جاوید برکی کو کپتانی دیے جانے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ اوپر سے آئے ہوئے احکامات کے سبب جاوید برکی کو کپتانی سونپی گئی تھی۔ اور اوپر سے احکامات وصول پانے والے اور کوئی نہیں بلکہ جسٹس کارنیلئس تھے جب کہ وہ اس وقت بیک وقت کرکٹ بورڈ کے سربراہ اور ملک کے چیف جسٹس تھے۔ جاوید برکی کے والد لیفٹیننٹ جنرل واجد علی برکی سابق صدر ایوب خان کے قابل اعتماد ساتھی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جن تین فوجی جرنیلوں نے صدر سکندر مرزا سے تیارشدہ استعفے پر دستخط کرائے تھے ان میں جنرل واجد علی برکی بھی شامل تھے۔
فضل محمود اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ1961 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کو انگلینڈ کا دورہ کرنا تھا۔ انہی دنوں کی بات ہے کہ وہ ایک دن وہ اپنے دفتر میں بیٹھے تھے کہ ایک فون کال آئی۔ آپریٹر نے کہا کہ فضل صاحب میں آپ کو یہ گفتگو سنوا رہا ہوں لیکن آپ خاموشی سے سنیے گا، کچھ نہیں بولیے گا، ورنہ میری نوکری چلی جائے گی۔
فضل محمود لکھتے ہیں کہ اس کے بعد اس شخص نے مجھے جو ٹیلی فونک گفتگو سنوائی وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی ایڈہاک کمیٹی کے اُس وقت کے سربراہ جسٹس اے آر کارنیلیئس اور کسی اعلیٰ افسر کے درمیان تھی۔ اس میں وہ اعلیٰ افسر جسٹس کارنیلیئس سے کہہ رہے تھے ہم جس کے بارے میں کہہ رہے ہیں آپ نے اسے پاکستانی ٹیم کا کپتان بنانا ہے۔جسٹس کارنیلیئس کا جواب تھا: سر آپ فکر نہ کریں۔
آواز آئی۔ فضل محمود کا کیا ہوگا؟ جواب دیا گیا اس کا ہم خیال رکھ لیں گے۔ فضل محمود نے اپنی کتاب میں مزید لکھا ہے یہ گفتگو سن کر ان کا خون کھول اٹھا تھا اور وہ کئی راتوں تک نہ سو سکے۔ فضل محمود نے لکھا ہے کہ جب انگلینڈ کے دورے میں پاکستانی ٹیم پے درپے شکست سے دوچار ہوئی تو پورے ملک میں انھیں انگلینڈ بھیجنے کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ اخبارات میں کالم اور مضامین لکھے گئے۔ پہلے تو کرکٹ بورڈ نے اس پر توجہ نہ دی لیکن پھر ایک دن انھیں پیغام ملا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ جسٹس کارنیلیئس ان سے ملنا چاہتے ہیں۔
تو وہ ان سے سپریم کورٹ میں ان کے چیمبر میں ملے۔ فضل محمود کے مطابق جسٹس کارنیلیئس نے جب ان سے کہا کہ آپ انگلینڈ جاکر ٹیم میں شامل ہو جائیں تو وہ حیران رہ گئے کیونکہ انھوں نے ہی اعلیٰ حکام کو انھیں کرکٹ سے دور رکھنے کے بارے میں یقین دہانی کرائی تھی اور اب وہ ان سے ٹیم میں شامل ہونے کی درخواست کر رہے تھے۔
فضل محمود نے لکھا ہے کہ ’انھوں نے جواب دیا کہ وہ پریکٹس میں نہیں ہیں لہذا ان کے لیے یہ ممکن نہیں۔ جسٹس کارنیلیئس بہت شرمندہ تھے اور انھوں نے ان سے معذرت بھی کی اور کہا کہ پاکستانی ٹیم کو آپ ہزیمت سے بچالیں۔‘ فضل محمود نے اپنی کتاب میں جسٹس کارنیلیئس کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا ہے وہ اس لیے بھی حیران کن ہے کہ جسٹس کارنیلیئس کو عام طور پر ایک اصول پسند شخص کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔
یاد رہے جاوید برکی موجودہ وزیر اعظم پاکستان اور کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان کے رشتہ دار ہیں۔