روک سکو تو روک لو

روک سکو تو روک لو
مولانا صاحب کے دھرنے کو ایک ہفتہ ہونے کو آ رہا ہے۔ کل رات اور آج کی بارش سے دھرنے کا میدان گیلا ہونے کیساتھ ٹھنڈ بھی بڑھنے لگی ہے، لیکن دھرنے میں موجود افراد میں نہ تھکن کے آثار دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی وہ ان نامساعد حالات کے شاکی ہیں۔ بلکہ، گزرتے وقت کیساتھ ان کا عزم مزید توانا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

مولانا کے آزادی مارچ اور دھرنے نے جہاں حکومت کی سٹی گم کر دی ہے، وہاں ہمارے 'مہربان' بھی گھبرائے ہوئے لگتے ہیں۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ ایک طرف حکومتی کمیٹی کے اراکین مولانا سے ملاقات کیلئے وقت مانگ رہے ہیں تو دوسری طرف 'مہربانوں' نے اس امتحان سے نکلنے کیلئے مشترکہ دوستوں چودھری شجاعت اور پرویز الہیٰ کو میدان میں اتار دیا ہے۔



اس میں کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ مولانا ایک منجھے ہوئے زیرک سیاستدان ہیں اور وہ یہ بات مارچ سے پہلے بھی جانتے تھے کہ فوری استعفیٰ شائد ممکن نہ ہو۔ لیکن، چند دنوں میں ہی مولانا نے وہ حاصل کر لیا جو عمران اور قادری 126 دن کے دھرنے کے ذریعے حاصل نہ کر سکے۔

مولانا کے دھرنے کو ناکام کہنے والے کیا اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ نواز شریف، مریم اور صفدر کی ضمانت پہلے کیوں نہ ہو سکی۔ میڈیا پر عائد پابندیاں پہلے کیوں نہ ختم ہو سکیں۔ چودھری منیر (مریم نواز کے سمدھی) غلام ربانی، حنا ربانی کی فائلیں نیب نے کیوں بند کر دیں۔ پہلے جب عدالت عظمیٰ کے حکم پر نواز شریف کو علاج کیلئے 6 ہفتوں کی رہائی ملی تو انہیں سابق وزیراعظم کا پروٹوکول نہیں دیا گیا اب کیوں دیا گیا۔



خاطر جمع رکھیے کہ شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق، رانا ثنااللہ، حمزہ شہباز اور دیگر کی رہائی بھی بہت جلد متوقع ہے، کیونکہ یہ سب ضمیر کے قیدی ہیں۔

اس دھرنے نے 'مہربانوں' کے بنائے قلعہ کی فصیل پر گہری ضرب لگائی ہے جس کی آواز دور تک سنی گئی ہے۔ آنے والے وقت میں یہ مسمار ہو کر رہے گا کیونکہ یہ وقت کا فیصلہ ہے 'روک سکو تو روک لو'۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔