اسلام آباد میں زیرو پوائنٹ کے قریب صحافی اسد علی طور پر مبینہ طور پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں ان کی گاڑی کو ایک اور گاڑی نے ٹکر ماری اور ملزمان فوری طور پر موقع سے فرار ہو گئے۔
سینیئر صحافی حامد میر نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے لکھا کہ صحافی اسد طور پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ گذشتہ برس بھی اسلام آباد میں ان پر حملہ ہوا تھا۔ حامد میر نے اسلام آباد پولیس سے مطالبہ کیا کہ اس حملے کے پیچھے چھپے افراد کو فی الفور گرفتار کیا جائے۔
تاہم، نیا دور ذرائع کے مطابق یہ حملہ نہیں بلکہ ایک حادثہ تھا اور اس گاڑی کا ڈرائیور بھی اب گرفتار ہو چکا ہے۔ اسد طور نے نیا دور کی رابعہ محمود سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی گاڑی کو ٹکر لگی تھی جس سے یہ دو قلابازیاں کھاتی ہوئی دور جا گری لیکن ان کی بچت سیٹ بیلٹ کی وجہ سے ہو گئی۔ انہیں نے مزید بتایا کہ گاڑی میں دو مرد حضرات اور ایک خاتون تھیں اور ان کا تعلق گجرات سے تھا۔ یہ ایک شادی میں شرکت کے لئے اسلام آباد آئے تھے۔
بعد ازاں حامد میر نے بھی اپنی ٹوئیٹ ڈیلیٹ کر دی۔ انہوں نے ایک اور ٹوئیٹ میں لکھا کہ اسد طور کی گاڑی سے ٹکرانے والی گاڑی کے ڈرائیور کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور امید ہے کہ اسے قانون توڑنے کی سزا ملے گی۔
اسد علی طور نیا دور اردو کے لئے سپریم کورٹ سے رپورٹنگ کرتے ہیں اور ان کے یوٹیوب چینل پر بھی قریب 80 ہزار فالؤر ہیں۔ گذشتہ روز انہوں نے نیا دور کے پروگرام Islamabad Buzz سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ عمران خان کو کچھ ریٹائرڈ افسران کی فہرستیں دی گئی ہیں اور ان سابق افسران کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ حاضر سروس افسران جو ان کی کمانڈ میں کام کر چکے ہیں، ان میں سے چند ایک کو مارچ کے موقع پر راضی کر کے استعفا دلوا دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان افسران میں سے چند بھی استعفا دے کر سٹیج پر آ جائیں اور کوئی چھوٹی موٹی تقریر کر دیں تو وہ ایک تاثر دینے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ فوج میں بغاوت ہو رہی ہے۔
"عمران خان اسی امید پر بھروسہ کیے ہوئے اسلام آباد آ رہے ہیں۔ ان کا اصل ہدف اسلام آباد نہیں، راولپنڈی ہے۔ کہ وہاں پر کچھ دباؤ بنایا جائے اور اس دباؤ کی مدد سے اسلام آباد کی حکومت کو چلتا کیا جائے۔”
وہ اس پر مزید تفصیلات اپنے یوٹیوب چینل پر ایک ویڈیو بلاگ میں سامنے لائے تھے۔ مکمل کہانی یہاں پڑھی جا سکتی ہے۔
گذشتہ برس مئی میں اسد علی طور پر اسلام آباد میں ہی حملہ ہوا تھا جب تین افراد نے ان کے فلیٹ میں گھس کر انہیں زد و کوب کیا تھا۔ اسد طور اس کے بعد اسپتال پہنچے تھے اور انہوں نے اپنے ساتھ بیتنے والی روداد سنائی تھی۔
یہ کیس عدالت میں کئی ماہ چلتا رہا تھا لیکن اس پر کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی تھی۔ یاد رہے کہ اس کیس میں CCTV ویڈیوز موجود تھیں جن میں حملہ آوروں کو دیکھا جا سکتا تھا لیکن نادرا نے چہروں کی شناخت سے معذوری ظاہر کی تھی۔
اس کے چند روز بعد اسد علی طور پر حملے کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران ہی حامد میر نے ایک انتہائی سخت تقریر کی تھی جس کے بعد ان پر پابندی لگائی گئی تھی جو قریب ایک برس تک برقرار رہی۔
اس خبر میں تازہ ترین معلومات کا اضافہ کر کے ہفتے کی رات 00:11 پر اپ ڈیٹ کیا گیا