تاریخ شناس حیدرآباد پکا قلعہ کی 'مسماری' کا معاملہ: 'یہ لاپرواہی نہیں بلکہ جرم ہے'

تاریخ شناس حیدرآباد پکا قلعہ کی 'مسماری' کا معاملہ: 'یہ لاپرواہی نہیں بلکہ جرم ہے'
 

صوبہ سندھ کے ضلع حیدرآباد میں موجود اٹھارویں صدی کے پکا قلعہ کا مین گیٹ اور دیواروں کو 'مسمار کرنے' پر دو ٹھیکیداروں پر کیس دائر کیا گیا ہے۔

گزشتہ چند دنوں سے پکا قلعہ کی مرمت کے دوران ہونے والی 'مسماری' کی ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوئی ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے قلہ کی دیواروں کو ہتھوڑوں سے توڑا جا رہا ہے۔

ویڈیو وائرل ہونے بعد سماجی روابط کی ویب سائٹس ٹوئٹر اور فیس بوک پر کافی لوگوں نے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے تاریخ کو مٹانے کا عمل قرار دیا اور ذمہ داران کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

اس کے کچھ دن بعد ہی وسیم شیخ سکیورٹی آفیسر کلچر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ایف آئی آر داخل کروائی گئی۔
ٹھیکیدار وسیم بھٹو اور ولی ﷲ بھٹو پر سیکشن 19(1) اینٹیکیوٹی ایکٹ 1975 ، سیکشن 427 اور 34 پاکستان پینل کوڈ تحت کیس دائر کیا گیا۔

ایف آئی آر کے مطابق ٹھیکیداروں نے قلعہ کی دیواروں کی مرمت کا کام دو مہینے پہلے شروع کیا تھا جس کا کنٹریکٹ پلاننگ ڈیولپمینٹ مانیٹرنگ امپلیمینٹیشن سیل کی طرف سے دیا گیا تھا۔ شکایت کے مطابق وہ ٹھیکیدار وہاں پر موجود تھے۔

سابقہ ڈائریکٹر آرکیالوجی سہزور طیابانی کا کہنا تھا کے یہ لاپرواہی نہیں بلکہ ایک جرم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سینئر آفیسر نسیم اختر جلبانی نے صدام بھٹو کو ہدایت دی تھی کہ پہلے دیوار کے ایک حصے کا کام شروع کرے اور مکمل ہونے بعد دوسرے حصہ کا کام کیا جائے۔ جب کہ صدام نے بیک وقت دونوں دیواروں کا کام شروع کردیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جلبانی صاحب کو بارہا منع کرنے کے باوجود ایک بھی نہیں سنی گئی اور کام جاری رکھا۔

اس معاملے پر عبدالحق بانبھڑ رٹائرڈ آفیسر اور ماہرِ آرثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ کسی بھی آثر قدیمہ کے ڈھانچے کو مسمار نہیں کیا جا سکتا جب تک ماہرین کی کمیٹی جائزہ نہیں لیتی اور سائیٹ کا معائنہ نہیں کرتی، جس کا ٹھیکیدار کو کوئی اختیار نہیں کے وہ خود مسماری کا فیصلہ کرے۔

آس پاس رہنے والے رہائشی مکینوں کا کہنا ہے کہ درجنوں مزدور دیوار کو توڑنے لگے جب دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہوا تو سارے مزدور کھانا کھانے میں مصروف تھے تو دوسری طرف دھڑام سے قلعہ کا مین گیٹ اور دیوار گر پڑی، جو حادثے کا باعث بن سکتی تھی۔

تیس ایکڑ پر مشتمل پکا قلعہ جو اس وقت پکی اینٹوں سے بنا تھا جس کا مین گیٹ شاہی بازار کی طرف ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ مین گیٹ کسی بھی صورت میں انکروچمینٹ نہیں آتی۔

18ویں صدی میں سندھ کے حکمران میاں غلام شاھ کلہوڑو نے حیدرآباد میں ایک پہاڑی ٹیلے پر پکا قلعہ بنوایا۔
جب کہ ٹالپوروں کی دورِ حکمرانی میں جب میر فتح علی خان نے خدا آباد، جو سندھ کے ضلع دادو میں واقع ہے، کو خیر باد کیا تو انہوں نے اپنا دارالخلافہ حیدرآباد کو بنایا۔ انہوں نے قلعہ کو رہاشی مقصد کیلئے استعمال کیا اور اس وقت کے حکمران خاندان کے لوگوں کو اس قلعے میں بسایا۔ اس کے ساتھ انہوں نے مذہبی سرگرمیاں جاری رکھنے کیلئے مساجد کی تعمیر بھی کروائی تھی۔ 1843ء میں جب ٹالپوروں کو انگریز سرکار نے شکست دی تو قلعہ انگریز فوج کے قبضے میں آیا۔ قبضہ کرنے کیلیے حملہ کیا گیا اور بمباری کی وجہ سے دیواریں کمزور ضرور ہوئی مگر قلعہ اپنے ڈھانچے پر برقرار رہا جس میں سینکڑوں گھر تعمیر ہوئے۔

جے کمار فری لانس صحافی ہیں اور حیدر آباد، سندھ سے تعلق رکھتے ہیں۔