'کشمیر کو بھول کر بھارت سے تعلقات بہتر کریں، UAE نے سرمایہ کاری مشروط کر دی'

بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام پر پاکستان کے مؤقف کی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کھل کر تائید نہیں کی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں ممالک کے بھارت کے ساتھ تعلقات اب اس نہج پر ہیں کہ وہ بھارت کو کسی صورت ناراض نہیں کرنا چاہتے۔

'کشمیر کو بھول کر بھارت سے تعلقات بہتر کریں، UAE نے سرمایہ کاری مشروط کر دی'

جن ممالک سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں ان میں سے متحدہ عرب امارات نے سرمایہ کاری کے لیے ایسی شرط رکھی ہے جس کے تحت پاکستان کو اپنے بنیادی قومی مفاد پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ متحدہ عرب امارات نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے متعلق 5 اگست کے بھارتی اقدام کو بھول کر آگے بڑھے اور بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے۔ یہ انکشاف کیا ہے صحافی کامران یوسف نے۔

یوٹیوب پر اپنے حالیہ وی-لاگ میں صحافی کامران یوسف نے حال ہی میں پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کی ملک کی 100 سے زائد کاروباری شخصیات سے ملاقات پر تبصرہ کیا۔ صحافی کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ جب جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی ہوئی تو اس وقت انہوں نے  'Low Key'رہنے کا فیصلہ کیا۔ تب یہ تاثر دیا گیا کہ نئے آرمی چیف اس طرز پر کام نہیں کریں گے جس طرز پر پرانے آرمی چیفس کام کرتے آئے ہیں۔

صحافی نے کہا کہ آرمی چیف کی ٹرم کے آغاز میں کچھ مخصوص لوگ جن کا خیال ہے کہ وہ ملکی معیشت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ہر آرمی چیف کے سامنے اپنا 'چورن' بیچتے ہیں، انہوں نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی کوششیں کیں تا کہ وہ معیشت کی بحالی کا اپنا 'خود ساختہ' پلان انہیں دے سکیں لیکن جی ایچ کیو کی جانب سے معذرت کر لی گئی۔ تاہم اب کچھ ماہ گزرنے کے بعد آرمی چیف بھی پرانی روایت کے مطابق ملک کے تاجران اور کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں کرنے لگے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت اور اس کی بحالی میں فوج ایک مضبوط سٹیک ہولڈر ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جنرل عاصم منیر کی آغاز میں اپنائی گئی پالیسی رخصت ہونے کو ہے۔

آرمی چیف نے بتایا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت سمیت دیگر ممالک سے 100 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے بات چیت چل رہی ہے۔ اگر وہ کان کنی، زراعت، کارپوریٹ فارمنگ، لائیو سٹاک، ڈیری فارمنگ میں سرمایہ کاری کریں یا تھر کول جیسے کسی پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو ان کے 4 بڑے نام ہیں جو پاکستان میں 25، 25 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے جس پر انہیں حکومت کی جانب سے بھرپور سپورٹ فراہم کی جائے گی۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے پاکستان میں آئل ریفائنری میں 10 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی یقین دہانی کروائی گئی جس میں چین کی طرف سے بھی اہم کردار ادا کیے جانے کی توقع ہے۔

کامران یوسف نے کہا کہ سننے میں تو یہ پلان بہترین لگتا ہے لیکن اس پر کچھ سوالات اٹھتے ہیں۔ 4 گھنٹے تک جاری رہنے والی طویل ملاقات میں آرمی چیف نے بتایا کہ انہوں نے اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو آگاہ کر دیا تھا کہ وہ پاکستان میں محض ایک، 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے وہاں نہیں آئے۔ بعدازاں شہزادہ محمد بن سلمان نے آرمی چیف کو خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت پاکستان میں 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آرمی چیف نے سعودی شہزادے سے کہا کہ وہ ملکی زرمبادلہ کے مسائل پر قابو پانے کے لیے 10 ارب ڈالر مختص کریں جو روپے کی صورت میں واپس کیے جائیں گے۔

صحافی نے کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی پرانی قیادت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اتنے خوشگوار تھے کہ ان سے جو بھی قرض لیا جاتا تھا وہ گرانٹ بن جاتا تھا۔ ماضی میں جب بھی ضرورت ہوتی تھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے پاکستان کی مدد کر دی جاتی تھی۔ جب نواز شریف وزیر اعظم بنے تو کئی ارب روپے بطور تحفہ دیے گئے۔ تاہم نئی جنریشن کی نئی قیادت کاروباری سوچ کی حامل ہے اور وہ ملکی معیشت کی ترقی کے لیے دیگر شعبہ جات جیسے آئی ٹی، سیاحت وغیرہ میں بھی کام کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو 2021 میں تحریک انصاف کے دور حکومت میں آئی ایم ایف کے ساتھ 3 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکج پاکستان کو ملا تو سعودی عرب نے پاکستان کے سامنے اتنی کڑی شرائط رکھیں جن کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی۔ یہاں تک کہا گیا کہ اگر پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہوا تو 72 گھنٹوں میں وہ رقم سعودی عرب کو واپس کرنا ہو گی۔ 

جب آئی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائی معاہدہ ہوا تو اس کے لیے آئی ایم ایف نے شرط رکھی تھی کہ پاکستان سعودی عرب، یو اے ای سے اضافی رقم لے گا اور تب تک پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام نہیں ملے گا جب تک برادر ممالک سے رقم نہیں ملے گی۔ بہت منتوں کے بعد 2 ارب ڈالر سعودی عرب اور 1 ارب ڈالر یو اے ای کی جانب سے دیے گئے۔

آرمی چیف نے ملاقات میں ایک اور بات کی کہ وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سہارے چلے جس کے نتیجے میں سخت شرائط کی وجہ سے عام آدمی کو بجلی کے بلوں جیسے بحران کا سامنا ہے۔ درحقیقت سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک اب پاکستان کو ایسے ہی کوئی رقم نہیں دیں گے۔ وہ پاکستان کی معیشت اور صلاحیت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، اس لیے اب وہ اسی صورت میں رقم دیتے ہیں جب ملک آئی ایم ایف پروگرام میں ہو۔ سعودی عرب اور یو اے ای کی جانب سے آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر رقم آنا بالکل بھی ممکن نہیں لگتا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے ایسی شرط رکھی ہے جس کے تحت پاکستان کو اپنے بنیادی قومی مفاد پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔

بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام پر پاکستان کے مؤقف کی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کھل کر تائید نہیں کی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں ممالک کے بھارت کے ساتھ تعلقات اب اس نہج پر ہیں کہ وہ بھارت کو کسی صورت ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے یہ شرط رکھی ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے متعلق 5 اگست کے بھارتی اقدام کو بھول کر آگے بڑھیں اور تعلقات کو بہتر کریں۔ آنے والے دنوں میں یہ چیزیں کھل کر سامنے آئیں گی کہ آیا پاک فوج کو یہ شرط منظور ہو گی یا نہیں۔