Get Alerts

نظریۂ ضرورت کی موت: وہ پانچ دن جنہوں نے قوم کو جکڑے رکھا

نظریۂ ضرورت کی موت: وہ پانچ دن جنہوں نے قوم کو جکڑے رکھا
سپریم کورٹ نے کر دکھایا۔ اس نے ایک لکیر کھینچ دی ہے کہ اس کے بعد پاکستان مزید برداشت نہیں کرے گا اور اس سے نیچے آئین کو نہیں گرایا جا سکتا۔

وہ لکیر یہ ہے کہ ایک سویلین وزیر اعظم غیر سویلین حمایت ختم ہونے کے بعد آئین پامال نہیں کر سکتا۔ اور یہ حمایت ختم ہونے کے ثبوت اب واضح ہیں۔

لیکن فی الحال عدالت کو کریڈٹ دیا جانا چاہیے کیونکہ اس نے وہی کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا اور یہی درست بھی تھا: ڈپٹی سپیکر کے 3 اپریل کے اقدام کو غیر قانونی قرار دینا، پھر اس اقدام کے نتیجے میں کیے گئے باقی اقدامات کو بھی غیر قانونی قرار دینا، اور تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم دینا۔ لیکن اگر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے تبصروں کو دیکھا جائے تو پانچ دن تک سمجھ نہیں آئی کہ ہمارے جذبات سے کیوں کھیلا جا رہا ہے۔

ہماری آئین پر حملوں سے عبارت تاریخ میں کبھی کسی وزیر اعظم نے تحریکِ عدم اعتماد سامنے آنے کی صورت میں اسمبلی تحلیل نہیں کی۔ کبھی کسی آمر یا عوام سے کٹے ہوئے سیاستدان نے آئین کے واضح الفاظ کو اس حد تک توڑنے مروڑنے کی کوشش نہیں کی۔

تاریخ:

جب بھی ہماری اسمبلیاں تحلیل ہوئی ہیں، وہ یا تو فوجی آمروں نے کی ہیں یا پھر بیوروکریٹس نے اور پھر ان اقدامات کو سپریم کورٹ نے کسی نہ کسی بہانے جواز فراہم کیا ہے۔ پہلی بار یہ مولوی تمیز الدین کیس میں جسٹس منیر نے نظریۂ ضرورت کے تحت کیا جب 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلی تحلیل کی تھی۔ پھر 1988 میں جب جونیجو حکومت کی برطرفی کو حاجی سیف اللہ نے چیلنج کیا تھا، تو سپریم کورٹ نے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دینے کے باوجود اسمبلی بحال کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ 1990 میں بینظیر بھٹو حکومت ختم ہوئی تو غلام اسحاق خان کے اس اقدام کو احمد طارق نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا لیکن سپریم کورٹ کے بنچ کی اکثریت نے اس اقدام کو اقربا پروری، کرپشن، ہارس ٹریڈنگ اور خراب کارکردگی کی بنیاد پر جواز فراہم کیا۔

غلام اسحاق خان نے اس کے بعد آنے والی نواز شریف کی حکومت بھی 1993 میں گرا دی جسے سپریم کورٹ نے بحال کر دیا۔ وزیر اعظم کو لیکن پھر ایک طے شدہ فارمولے کے تحت یہ اسمبلی خود تحلیل کرنی پڑی جب کہ ان کے ساتھ صدر نے بھی استعفا دیا اور یہ فارمولہ طے کیا تھا محکمہ دفاع کے ایک اعلیٰ افسر نے جسے آرمی چیف کہا جاتا ہے۔

اگلی حکومت بینظیر بھٹو کی تھی جسے فاروق لغاری نے 1996 میں برطرف کر دیا اور 'امیر المومنین' بننے کے خواہش مند نواز شریف کے لئے راہ صاف کی۔ یہ فیصلہ بھی سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا اور ایک بار پھر سیاست پر گہری نظر رکھنے والے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں 7 رکنی بنچ نے ایک کے مقابلے میں چھ ججز کی برتری سے صدر کے حق میں فیصلہ دیا اور اس بار بھی جواز اقربا پروری اور کرپشن کا ہی گھڑا گیا تھا۔

پانچ دن کیوں؟

ایک سوال جو قانون دانوں کے دماغوں میں موجود رہے گا، اور جس نے پانچ دن تک پوری قوم کو ذہنی دباؤ میں رکھا، وہ یہ کہ سپریم کورٹ کو اتنا وقت کیوں لگ گیا؟

اتوار کو لیے گئے سو موٹو سے لگتا تھا کہ شاید ایک سیدھے سادے سے کیس پر سپریم کورٹ ایک فوری فیصلہ سنانے والی ہے۔ شروعات اس سوال سے ہوئی کہ کیا سپریم کورٹ پارلیمانی عمل میں مداخلت کر سکتی ہے، کیونکہ پارلیمانی کارروائی کو کچھ تحفظ حاصل ہے۔

خوش قسمتی سے، سپریم کورٹ کے سامنے یہ سوال ابھی حال ہی میں آیا تھا جب اسے شک تھا کہ نواز شریف کا سپیکر ان کی نااہلی کا نوٹس الیکشن کمیشن کو نہیں بھجوائے گا۔ عدالت نے واضح کر دیا تھا کہ سپیکر غیر قانونی کام کر کے عدالتی مداخلت سے ماورا نہیں رہ سکتا۔

سو موٹو نوٹس تفتیشی کارروائیاں ہوتی ہیں؛ عدالت عوامی اہمیت کا ایک سوال سامنے رکھتی ہے اور اٹارنی جنرل سے اس پر معاونت طلب کرتی ہے۔ عام طور پر یہ تمام پارٹیوں کو نہیں سنتی گویا یہ متحارب فریق ہوں۔ اس کے باوجود اس نے اپوزیشن کو سننے سے کارروائی کا آغاز کیا جو شروع میں اس کارروائی کے لئے تیار نہیں تھی اور عدالت کے تبصروں نے ملکی میڈیا میں سرخیاں بنا دیں۔ ہمیں شروع میں ہی بتا دیا گیا کہ عدالت خود کو صرف سپیکر کی رولنگ تک محدود رکھے گی اور پالیسی یا سیاسی معاملات تک نہیں جائے گی۔ لیکن پھر، اس نے اپوزیشن سے دریافت کیا کہ انہوں نے نیشنل سکیورٹی کی کارروائی میں حصہ کیوں نہیں لیا۔ یہ سوال پالیسی اور اپوزیشن کی سیاست سے متعلق نہیں تو اور کیا تھا؟

اس بات کی کیا اہمیت ہے کہ روپیہ اپنی قدر کھو رہا تھا یا اپوزیشن جماعتیں غیر قدرتی طور پر اکٹھی ہوئی تھیں؟ یہ بنچ کی جانب سے کیے گئے تبصرے تھے۔ جب ایک عدالت کہہ رہی ہو کہ چاہے آسمان گر جائے انصاف ضرور ہوگا تو ہمیں یہ کیوں بتایا جا رہا تھا کہ سب کو ساتھ مل کر چلنا چاہیے، اور یہ کہ فیصلہ 'مناسب' ہوگا اور 'قومی مفاد' میں؟ عدالت اپنا وقت ڈپٹی سپیکر کے محض الزامات کی بنیاد پر فیصلہ کرنے پر تبصرے میں کیوں ضائع کر رہی تھی؟

اگر عدالت نے کوئی فیصلہ دیا بھی ہوتا کہ کسی سازش کا عنصر موجود ہے تو کیا ڈپٹی سپیکر ایک آئین میں دیے گئے طریقہ کار سے باہر کا حکم دے سکتا تھا؟ کیا ارکانِ قومی اسمبلی اتنے سادہ ہیں کہ وہ خود سے یہ طے نہیں کر سکتے اور اپنا دماغ استعمال کر کے ووٹ نہیں دے سکتے؟ کیا ہمارے منتخب نمائندوں کو ان غیر منتخب دانا بزرگان سے مسلسل ہدایات کی ضرورت ہے جو ان منتخب ارکان کو کسی قابل نہیں سمجھتے؟

لیکن حالات لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہو رہے تھے اور جسٹس منیب اختر کچھ ایسے ہی تبصرے کر رہے تھے۔ سپیکر کا عوامی نمائندوں کو رائے دینے سے روکنا غلط تھا، وہ انہیں حقائق سے آگاہ کر سکتے تھے اور پھر انہیں اپنی رائے خود قائم کرنے کی اجازت دی جا سکتی تھی۔

مزید برآں، نیشنل سکیورٹی کمیٹی میں کیا ہوا اور میمو میں کیا لکھا تھا، اس پر عدالت بات کیوں کر رہی تھی؟ کیا ہم یہ سمجھیں کہ اگر نیشنل سکیورٹی کمیٹی میں اس قسم کا کوئی الزام لگایا گیا ہوتا کہ کسی غیر ملکی حکومت اور اپوزیشن نے مل کر کوئی سازش کی ہے، تو اس بنیاد پر عدالت فیصلہ کرتی کہ سپیکر کا فیصلہ آئینی تھا یا غیر آئینی؟

کہانی میں آخری ٹوئسٹ اس وقت آیا جب عدالت نے یہ سوال اٹھایا کہ الیکشن کی تیاری میں کتنا وقت درکار ہوگا۔ چیف الیکشن کمشنر کو بلا کر یہ کیوں پوچھا گیا کہ ہم کتنے عرصے میں انتخابات کے لئے تیار ہوں گے؟ اس وقت لگ رہا تھا کہ فیصلہ نظریۂ ضرورت کے تحت ہی ہونے جا رہا تھا۔ لیکن پھر یکایک روشنی پھیل گئی: ایک واضح اور غیر مبہم فیصلہ، سوری کے کیے گئے فیصلے سے جنم لینے والی تمام خرابی آن کی آن میں صاف ہو گئی۔

کیا کسی کو نتائج بھگتنا ہوں گے؟ شاید یہ مطالبہ کچھ زیادہ ہی ہو جائے گا۔ فی الحال ہم کچھ دیر اپنے آئین کی چمک دمک سے محظوظ ہوتے ہیں جسے شاید پہلی بار اس کے حقیقی معانی اور پوری آن بان کے ساتھ تسلیم کر لیا گیا ہے۔




عبدالمعز جعفری کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔

عبدالمعز جعفری قانون دان ہیں اور مختلف آئینی و قانونی معاملات پر کالم لکھتے ہیں۔ ان کے مضامین انگریزی روزنامے Dawn میں شائع ہوتے ہیں۔