کشمیر تنازع: کونسا ملک کس کا حمایتی؟

کشمیر تنازع: کونسا ملک کس کا حمایتی؟
بھارت نے 5 اگست کو راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کردیا تھا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہوگا۔

راجیہ سبھا میں بل کے حق میں 125 جبکہ مخالفت میں 61 ووٹ آئے تھے۔ بھارت نے اب یہ دونوں بل لوک سبھا سے بھی بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کرالیے ہیں۔

پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے واقعے کا فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

ڈان پر شائع ہونے والے ایک تجزیے کے مطابق  چند عالمی فورمز نے موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار ضرور کیا ہے، ان میں سے ایک بین الاقوامی کمیشن برائے جیورسٹ ہے۔ اس فورم نے اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر سے جاری ہونے والی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے وادی میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف اپنے بیان میں یہاں تک کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر ’کھلی قانونی چُھوٹ کے ساتھ بھارتی فوج کے ہاتھوں ہونے والے غیر قانونی قتلِ عام، جبری گمشدگیوں اور ٹارچر کے ساتھ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری پہلے کی طرح صرف یہی کہیں گے کہ، ’ہم تمام فریقین سے کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘

چین نے سخت بیان جاری کیا ہے لیکن اس میں سب سے زیادہ زور لداخ پر دیا گیا جس کے چند علاقوں پر چین اپنی ملکیت کا دعوی رکھتا ہے۔

گلف نیوز میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق، متحدہ عرب امارات کے سفارتکار نے بھارتی اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔ رپورٹ میں لکھا تھا کہ، ’انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے فہم کے مطابق ریاستوں کی تنظیمِ نو آزاد بھارت کی تاریخ میں کوئی انوکھی بات نہیں ہے اور ایسا مرکزی طور پر علاقائی تفریق میں کمی لانے اور استعداد بڑھانے کے غرض سے کیا گیا ہے۔ انہوں نے جموں و کشمیر کے حوالے سے کیے جانے والے حالیہ فیصلے کو بھارتی آئین کے مطابق بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔

دوسری طرف سعودی عرب کی نیوز ایجنسی نے 6 اگست کو یہ بتایا کہ، سعودی ولی عہد کو ’آج پاکستانی وزیرِاعظم عمران خان نے ٹیلی فون کیا۔ ٹیلیفونک گفتگو میں خطے میں پیدا ہونے والی صورتحال اور اس کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر تبادلہ خیال ہوا۔ اس دوران پاکستانی وزیرِاعظم نے کشمیر کے تناظر میں پیدا ہونے والی حالیہ صورتحال کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔‘ بس اور زیادہ کچھ نہیں کہا۔

عمران خان نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے سے متعلق بھارت کا غیرقانونی اقدام علاقائی امن اور سیکیورٹی کے لیے سنگین خطرے کا باعث بنے گا۔

انہوں نے زور دیا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو سامنے رکھتے ہوئے حق خود ارادیت کی جدوجہد کے لیے کشمیریوں کی سفارتی، اخلاقی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا۔

اس موقع پر ترک صدر رجب طیب اردوان نے مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا اور اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ ترکی اس معاملے میں اپنی حمایت جاری رکھے گا۔

عمران خان سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران ملائشیاکے وزیر اعظم  مہاتیر محمد نے کہا تھا کہ ملائیشیا، مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کا قریب سے جائزہ لے رہا ہے اور وہ رابطے میں رہے گا۔

انہوں نے کہا تھا کہ وہ نیویارک میں اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس کی سائڈ لائن پر وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے منتظر بھی ہیں۔

سب سے زیادہ قابلِ ذکر ردعمل امریکا کا ہے۔ وزارت خارجہ نے سب سے پہلے صورتحال کی اہمیت کو تسلیم کیا اور پھر صرف اتنا کہا کہ، ’ہم جانتے ہیں کہ بھارتی حکومت نے ان اقدامات کو اندرونی معاملہ قرار دیا ہے‘ جب مودی حکومت نے 5 اگست کو کشمیر کے حوالے سے اقدام اٹھایا تھا، اسی دن زلمے خلیل زاد دوحہ میں طالبان کے ساتھ جاری مذاکراتی مرحلے سے نمودار ہوئے۔

تاہم یہ بات اہم ہے کہ جنوبی اور وسطیٰ ایشیائی امور کے امریکی ادارے (ایس سی اے) نے ٹوئٹ میں اپنے ردعمل کا اظہار کیا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق فیصلے پر امریکا کو اعتماد میں نہیں لیا۔

اس حوالے ٹوئٹ میں سے واضح کیا گیا کہ ’بھارتی میڈیا رپورٹس کے برعکس، نئی دہلی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے سے پہلے مطلع نہیں کیا اور نہ ہی مشاورت کی‘۔