ایک ارب ڈالر واپس لینے کے بعد سعودیہ پاکستان ادھار تیل معاہدہ بھی ختم

ایک ارب ڈالر واپس لینے کے بعد سعودیہ پاکستان ادھار تیل معاہدہ بھی ختم
پاکستان اور سعودی عرب ہمیشہ سے معاشی و سیاسی طور پر ہم رکاب رہے ہیں۔ جب جب پاکستان کی حکومتوں کو مشکل پیش آئی، انہوں نے سعودی معاشی طاقت کے در پر حاضری دی اور جواب میں  تیل کی دھار کے ساتھ ڈالروں کی بہار پائی۔

موجودہ حکومت نے بھی اقتدار کے معاملات سنبھالتے ہی اپنا سعودی آپشن  پہلے آپشن کے طور پر استعمال کیا۔ اور اکتوبر 2018 میں وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جس میں سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو 12 ارب ڈالر کا امدادی پیکج دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جسے پی ٹی آئی کی حکومت نے ایک سیاسی و خارجہ محاذ پر ٹرافی کے طور پر پیش کیا تھا۔

 اس وقت وزیر خزانہ اسد عمر اور سعودی وزیر خزانہ محمد عبداللہ الجدان کے درمیان مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے گئے تھے جس کے مطابق سعودی عرب نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی ہے کہ وہ پاکستان کے اکاؤنٹ میں 3 ارب ڈالر ایک سال کیلئے ڈپازٹ کرے گا جس کا مقصد ادائیگیوں کے توازن یعنی بیلنس آف پیمنٹ  کو سہارا دینا ہے۔

اس معاہدے کی جو تفصیلات سامنے آئیں تھیں ان کے مطابق معاہدے میں یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ تاخیر سے ادائیگی کی بنیاد پر سعودی عرب پاکستان کو سالانہ 3 ارب ڈالر مالیت کا تیل دے گا اور یہ سلسلہ 3 سال تک جاری رہے گا جس کے بعد اس پر دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔امدادی پیکج کے تحت سعودی حکومت نے 3 ارب ڈالر بھی پاکستان کے اکاؤنٹ میں رکھوانے تھے جن میں سے ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط 19 نومبر 2018 ، دوسری قسط 14 دسمبر 2018 اور تیسری قسط 25 جنوری 2019 کو موصول ہوئی تھی.

تاہم ابھی تو پاکستانی معیشت کے اعشاریئے لڑکھڑا ہی رہے تھے کہ سعودی حکومت نے اب پاکستان کو دیے گئے تین ارب ڈالر میں سے ایک ارب ڈالر واپس لے لیے ہیں جس کی تصدیق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی کی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود کا وہ متنازعہ بیان جس کے بعد اپوزیشن نے ان پر کڑی تنقید کی ہے، اسکے مطابق وہ سعودی عرب سے کشمیر کے معاملے پر ناخوش نظر آئے۔ اسی میں ہی انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ سعودی حکومت نے اپنی بے حال ہوتی معیشت کے پیش نظر تین میں سے ایک ارب ڈالر پاکستانی اکاونٹس سے  نکلوالیا ہے۔ 


 جیو نیوز نے انکے بیان کے حوالے سے لکھا ہے کہ  کورونا وائرس کی وجہ سے سعودیہ کی معیشت پر کافی دباؤ آیا ہے، تیل کی قیمتیں جس طرح گری ہیں یہ ایک تاریخی حقیقت ہے، اس کا اثر ان کی معیشت پر پڑا، انہوں نے ہماری مشکلات کو سمجھا اور ہم نے ان کی مشکلات کو سمجھنا ہے ان کے لیے ہم کل بھی حاضر تھے آج بھی حاضر ہیں۔


تاہم ابھی اسی ایک ارب ڈالر کے واپس جائے جانے کا سوگ منایا جا رہا تھا کہ معلوم ہوا ہے کہ ادھار تیل کا معاہدہ بھی ختم ہوچکا ہے۔

وزارت خزانہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب سے 3 ارب 20کروڑ ڈالر کا تیل ادھار ملنےکی سہولت ایک سال کے لیے تھی جس کی تجدید ہوسکتی تھی۔

ترجمان وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے ادھار تیل کی سہولت رواں سال 9 جولائی کو ختم ہوگئی ہے اور اس معاہدے میں توسیع کی درخواست سعودی عرب کے ساتھ زیر غور ہے۔

یاد رہے کہ چین نے حال ہی میں بھارت کو باہر کرتے ہوئے ایران کی چاہ بہار بندر گاہ کے کئی حصوں کی تعمیر میں سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ اسکا انتظام بھی سنبھال لیا ہے۔ اور ایکسپریس ٹریبیون کی خبر کے مطابق پاکستان نے چین سے ایک ارب ڈالر لے کر ہی سعودی عرب کو ادائیگی کی ہے۔