سعودی عرب کے ساتھ راستے جدا کرنے کی باتیں: اندر کی خبر کیا ہے؟

سعودی عرب کے ساتھ راستے جدا کرنے کی باتیں: اندر کی خبر کیا ہے؟
پاکستان اور سعودی عرب ہمیشہ سے معاشی و سیاسی طور پر ہم رکاب رہے ہیں۔ جب جب پاکستان کی حکومتوں کو مشکل پیش آئی، انہوں نے سعودی معاشی طاقت کے در پر حاضری دی اور جواب میں  تیل کی دھار کے ساتھ ڈالروں کی بہار پائی۔

موجودہ حکومت نے بھی اقتدار کے معاملات سنبھالتے ہی اپنا سعودی آپشن  پہلے آپشن کے طور پر استعمال کیا۔ اور اکتوبر 2018 میں وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جس میں سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو 12 ارب ڈالر کا امدادی پیکج دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جسے پی ٹی آئی کی حکومت نے سیاسی و خارجہ محاذ پر ایک ٹرافی کے طور پر پیش کیا تھا۔

اس معاہدے کی جو تفصیلات سامنے آئی تھیں ان کے مطابق معاہدے میں یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ تاخیر سے ادائیگی کی بنیاد پر سعودی عرب پاکستان کو سالانہ 3 ارب ڈالر مالیت کا تیل دے گا اور یہ سلسلہ 3 سال تک جاری رہے گا جس کے بعد اس پر دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔ امدادی پیکج کے تحت سعودی حکومت نے 3 ارب ڈالر بھی پاکستان کے اکاؤنٹ میں رکھوانے تھے جن میں سے ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط 19 نومبر 2018، دوسری قسط 14 دسمبر 2018 اور تیسری قسط 25 جنوری 2019 کو موصول ہوئی تھی۔

تاہم، اب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس بات کی تصدیق کی کہ سعودی حکومت نے اپنی بے حال ہوتی معیشت کے پیش نظر تین میں سے ایک ارب ڈالر پاکستانی اکاونٹس سے نکلوا لیا ہے۔

جیو نیوز نے ان کے بیان کے حوالے سے لکھا ہے کہ  کورونا وائرس کی وجہ سے سعودیہ کی معیشت پر کافی دباؤ آیا ہے، تیل کی قیمتیں جس طرح گری ہیں یہ ایک تاریخی حقیقت ہے، اس کا اثر ان کی معیشت پر پڑا، انہوں نے ہماری مشکلات کو سمجھا اور ہم نے ان کی مشکلات کو سمجھنا ہے۔ ان کے لئے ہم کل بھی حاضر تھے آج بھی حاضر ہیں۔

تاہم، ابھی اسی ایک ارب ڈالر کی واپسی کا سوگ منایا جا رہا تھا کہ معلوم ہوا ہے کہ ادھار تیل کا معاہدہ بھی ختم ہو چکا ہے۔

وزارت خزانہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب سے 3 ارب 20 کروڑ ڈالر کا تیل ادھار ملنے کی سہولت ایک سال کے لئے تھی جس کی تجدید ہو سکتی تھی۔

ترجمان وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے ادھار تیل کی سہولت رواں سال 9 جولائی کو ختم ہو گئی ہے اور اس معاہدے میں توسیع کی درخواست سعودی عرب کے ساتھ زیرِ غور ہے۔

یاد رہے کہ چین نے حال ہی میں بھارت کو باہر کرتے ہوئے ایران کی چاہ بہار بندر گاہ کے کئی حصوں کی تعمیر میں سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ اس کا انتظام بھی سنبھال لیا ہے۔ اور ایکسپریس ٹریبیون کی خبر کے مطابق پاکستان نے چین سے ایک ارب ڈالر لے کر ہی سعودی عرب کو ادائیگی کی ہے۔

اس پر جہاں حکومت کی معاشی پالیسی پر تنقید جاری ہے، وہیں تجزیہ کار شاہ محمود قریشی صاحب کی جانب سے حالیہ بیانات کی ٹائمنگ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ شاہ محمود قریشی کا ایک ایسے وقت میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات پر تبصرہ کرنا کہ جب ان کے ساتھ ہمارا ادھار تیل کا معاہدہ ختم ہو رہا ہے، چین ایران کے ساتھ تجارتی معاہدہ کر رہا ہے جب کہ خود چینی صدر کا دورہ پاکستان اسی سال کے آخر میں متوقع ہے۔ یہ سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ایسے موقع پر کہ جب سعودی عرب خطے میں اپنی پوزیشن کھو رہا ہے اور اس کو معاشی مشکلات کا بھی سامنا ہے، چین خطے کی طاقتور ترین طاقت کے طور پر خود کو امریکہ کا متبادل ثابت کرنے کی کوشش میں ہے، پاکستانی وزیر خارجہ کا یہ کہنا کہ ہمیں سعودی عرب کی کشمیر پر حمایت نہ ملی تو اس کے بغیر ہی آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیں گے شاید خطے کی بدلتی صورتحال میں اپنی آپشنز کھلی رکھنے کا ایک طریقہ ہے۔

مگر یاد رہے کہ پاکستان کی معیشت میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقوم ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان میں سے 45 فیصد سعودی عرب اور اس کے قریب ترین اتحادیوں متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک میں مقیم پاکستانی بھیجتے ہیں۔ ان ممالک کے ساتھ کسی بھی قسم کی ناچاقی ملکی معیشت کے لئے ایک بڑی مشکل کا باعث بن سکتے ہیں۔