نئی مردم شماری کی منظوری  سےانتخابات معمہ بن گیے

نئی حلقہ بندیوں کے لیے قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ اور ترمیم کے لیے اسمبلی میں دو تہائی اکثریت چاہیے جو کہ اس وقت ممکن نہیں۔ ترمیم کے لیے اسمبلی میں نمبر پورے نہیں اور پرانی مردم شماری پر الیکشن آئین کے مطابق ممکن نہیں رہے۔

نئی مردم شماری کی منظوری  سےانتخابات معمہ بن گیے

مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں آج نئی ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری دے دی گئی، لیکن اس کے ساتھ ہی انتخابات معمہ بن گیے، سوالات اٹھنے لگے۔ انتخابات کتنے وقت میں ہوں گے؟ ہوں گے بھی یا نہیں؟ اور اگر ہوں گے تو ترمیم کیسے ممکن ہوگی؟ کیونکہ اب آئینی طور پر انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہی ہوں گے یعنی نئی حلقہ بندیاں ہوں گی۔ لیکن نئی حلقہ بندیوں کے لیے قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ اور ترمیم کے لیے اسمبلی میں دو تہائی اکثریت چاہیے جو کہ اس وقت ممکن نہیں۔ ترمیم کے لیے اسمبلی میں نمبر پورے نہیں اور پرانی مردم شماری پر الیکشن آئین کے مطابق ممکن نہیں رہے۔ اب شاید ایک بار پھر الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ مل بیٹھ کر آئین کی کوئی نئی تشریح کریں گے۔ اور انتخابات کروا سکیں۔ لیکن ایک بات طے ہوگئی اب انتخابات قریب قریب ہوتے نظر نہیں آرہے۔ 

دوسری جانب نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ اس وقت قومی اسمبلی میں 342 نشستیں ہیں جن میں سب سے زیادہ پنجاب کی نشستیں ہیں، لیکن نئی حلقہ بندیاں صوبوں کے نمبرز کو بڑھانے گھٹانے کا نتیجہ ثابت ہوں گی، یعنی قومی اسمبلی میں بلوچستان (جس کی تعداد سب سے کم ہے) کی سیٹس تعداد میں اضافہ اور پنجاب( جس کی سب سے زیادہ سیٹیس ہیں) کے نمبرز اور حیثیت بدلی جاسکتی ہے۔  

فواد چوہدری نے بھی آج اپنے ایک ٹویٹ میں نئی مردم شماری کو پنجاب کے نمبر کم کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "‏نئی مردم شماری پنجاب کے سیاسی حقوق پر بہت بڑا ڈاکہ ہے۔کیا ہوا کہ پنجاب کی آبادی اتنی کم ہوگی کہ قومی اسمبلی کی آٹھ نشستیں کم ہو گئیں؟ نہ طریقہ کار پر بحث ہوئی نہ نتائج کی شفافیت کا پتہ، اس کے نتیجے میں جہلم اور چکوال جیسے اضلاع صرف ایک نشست کے اضلاع بن جائیں گے۔ ملتان، لاہور اور گوجرانوالہ کو بھی نشستیں کھونے پڑیں گی،پنجاب کے سیاستدانوں کا رویہ مایوس کن ہے اب خود اس مردم شماری کو عدالت میں چیلنج کروں گا" ۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی بھی اس فیصلے سے خوش نظر نہیں آرہی۔ اجلاس میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے تحفظات کا اظہار کیا۔ چند دن پہلے ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے کہا تھا کہ وزیر اعظم نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس بار پیپلز پارٹی کے کان پکڑ کر ایم کیو ایم کے مطالبات منوائیں گے اور پھر بات سچ ثابت ہوئی پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کی بڑی جماعت ہونے کے باوجود چاہتے نہ چاہتے ہوئے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی۔ کراچی حیدرآباد میں جن حلقہ بندیوں سے بلدیاتی انتخابات میں بھاگے تھے اب بڑے انتخابات میں وہی حلقہ بندیاں ان کے گلے پڑگئی ہیں۔

بلاگر شعبہ صحافت سے منسلک ہیں اور ان دنوں اسلام آباد میں ایک نجی چینل کے ساتھ وابستہ ہیں۔