گرفتاری اور نااہلی سے عمران خان کی مقبولیت کم ہو پائے گی؟

ہماری ہئیت مقتدرہ نے مقبول ترین سیاسی قیادت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی روایت برقرار رکھی ہے اور ان سیاست دانوں کو استعمال کیا ہے جن کی اپنی سیاسی ساکھ عوام تو کیا، یہ خود بھی جانتے ہیں۔ ایسے فیصلے ہمیشہ جگ ہنسائی کا باعث ہی بنتے ہیں کیونکہ عوام سب جانتے ہیں۔

گرفتاری اور نااہلی سے عمران خان کی مقبولیت کم ہو پائے گی؟

آخر کار وہی ہوا جس کا خدشہ پچھلے چند ماہ سے ظاہر کیا جا رہا تھا۔ سابق وزیراعظم عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں 5 سال کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا اور 3 سال کی قید کی سزا بھی سنا دی گئی۔ یہ بات شروع دن سے عیاں تھی کہ اس مقدمہ میں عمران خان کو سزا سنائی جائے گی۔ پاکستان کے مقبول ترین سیاست دان کو چونکہ ملکی اور عالمی ہئیت مقتدرہ کی طرف سے قبولیت نہیں ہے لہٰذا ان کی مقبولیت کو ختم کرنے کے لیے مبینہ طور پر یہ ناٹک رچایا گیا۔

بلاشبہ ایک فیصلہ زمین پر بیٹھ کر انسان کرتا ہے اور ایک فیصلہ عرش پر جلوہ افروز خدا کرتا ہے۔ انسانی فیصلہ منظرعام پر آ گیا ہے جبکہ خدا کا فیصلہ ابھی آنا ہے۔ کیا سیشن جج ہمایوں دلاور کے اس فیصلے کے بعد عمران خان عوامی طور پر غیر مقبول ہو سکتے ہیں؟ اس کا جواب ہر ذی شعور نفی میں ہی دے گا۔ سب جانتے ہیں کہ یہ فیصلہ مکس اچار حکمران اتحاد نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں کیوں کیا ہے اور ہماری ہئیت مقتدرہ مکس اچار حکمران اتحاد کے پیچھے کھڑی ہو کر یہ کام کر رہی ہے۔

ایک عدالتی بنچ نے ملک کے مقبول ترین سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو کو بھی سزا سنائی تھی۔ پھر ایک جج نے دختر ذوالفقار علی بھٹو بے نظیر کو بھی سزا سنائی تھی مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ عوامی ردعمل نے اس فیصلے کو اڑا کر رکھ دیا۔ سیاست دان جیل جاتے رہتے ہیں، جیل ان کا سسرال کہلاتی ہے۔ جب سیاست دان باہر آتا ہے تو ہیرو بن کر آتا ہے۔ عمران خان پر بیرون ملک جانے کا بہت دباؤ تھا مگر وہ نہیں گیا، ڈٹ کر مقابلہ کرتا رہا۔ جج ہمایوں دلاور کا بغض مبینہ طور پر عیاں تھا اور مکس اچار حکمران اتحاد بھی یہی چاہتا تھا۔ ابھی اس عدالتی فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا جا سکتا ہے اور آخر میں صدر پاکستان عارف علوی ابھی ایوان صدر میں براجمان ہیں، تب تک جب نئے صدر کے چناؤ کے لیے الیکٹورل کالج مکمل نہیں ہوتا۔

ہماری ہئیت مقتدرہ نے مقبول ترین سیاسی قیادت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی روایت برقرار رکھی ہے اور ان سیاست دانوں کو استعمال کیا ہے جن کی اپنی سیاسی ساکھ عوام تو کیا، یہ خود بھی جانتے ہیں۔ توشہ خانہ سے تحائف خریدنے والے نواز شریف، آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی سب جو 10 فیصد ادائیگی کے بعد وہ تحفے بھی گھر لے جاتے تھے جن کی قانون میں اجازت نہیں ہے مگر عمران خان 50 فیصد ادائیگی کے بعد وہ تحفے جن کی قانون میں اجازت ہے وہ گھر لے گیا۔ اس کے باوجود مجرم قرار پایا ہے۔ ایسے فیصلے ہمیشہ جگ ہنسائی کا باعث ہی بنتے ہیں کیونکہ عوام سب جانتے ہیں۔

ایک لیڈر عمران خان کے خوف کے باعث یہ الیکشن سے بھاگ رہے تھے۔ اب عمران خان کے بغیر اس الیکشن کی کیا ساکھ رہ جائے گی، یہ سب جانتے ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ 75 سال بعد بھی ہماری ہئیت مقتدرہ اور اس کے کٹھ پتلی سیاست دانوں نے کچھ نہیں سیکھا۔ اقتدار کی خواہش اور دولت کمانے کی ہوس نے شیخ مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان کو بھی سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کی سفاک غلطی کر دی ہے۔ تاریخ کی عدالت میں جس طرح شیخ مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹو امر ہوئے، عمران خان بھی ہو گا۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔