کسی بھی ناول نگار کے لئے سب سے بڑا امتحان اُس وقت شروع ہوتا ہے جب اسے یہ فیصلہ کرنا پڑ جائے کہ کس عہد کے تہذیبی منظرنامے میں اتر کر اسے اپنے ناول میں تجسیم کرنا ہے۔ اگر وہ عہد ناول نگار کے اندر پھیلا ہو تو پھر وہ بہت سارے امتحانات سے بچ جاتا ہے کیونکہ سب کچھ اس پر بیت چکا ہوتا ہے اور بیتے ہوئے کو لکھنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا مگر جب کسی ناول نگار کو ایک ایسے دور میں اترنا پڑ جائے کہ جو اس نے جیا ہی نہ ہو تو پھر قدم قدم پر آزمائشیں اسے بہت ساری مشکلات میں ڈال کر اس سے حوصلے چھین لیتی ہیں اور محض تخیل کے زور پر تخلیق کیا گیا ناول قاری کی حمایت حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں رہتا۔
اگر بات کی جائے نیلم احمد بشیر کے ناول ' طاؤس فقط رنگ' کی تو اس ناول کا زمانہ بھرپور وسعتیں لئے اُن کے اندر ہی کہیں پڑا ہوا ہے جسے وہ پوری طرح سے جی چکی ہیں اور ایک ایک منظر کی وہ عینی شاہد ہیں۔ بھرپور مشاہدہ اور تجربہ ہونے کے باوجود بھی یوں لگتا ہے جیسے ' طاؤس فقط رنگ' لکھتے ہوئے انہیں قدم قدم پر ویسی ہی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا جو کسی اور عہد میں اترتے ہوئے ایک ناول نگار کو کرنا پڑتا ہے۔ انہیں ناول کے تخلیقی کرب نے مشکلات میں ہی ڈالے رکھا اور سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔ اس کی وجہ ' طاؤس فقط رنگ' کا روایت سے مکمل طور پر انکار کرتا ہوا وہ مرکب اور پیچیدہ پلاٹ ہے جس نے اپنی جڑیں برگد کی طرح ان کے اپنے جسم و جاں میں ہی پھیلا رکھی ہیں۔ اگر کسی ناول نگار کو ایک سے زائد تہذیبوں میں اتر کر اپنے کردار تخلیق کرنے پڑ جائیں اور مختلف روایات سے سجے سماجی جزیروں میں رہ کر کہانی کاشت کرنی پڑ جائے تو اس سے زیادہ مشکلات اور اس سے بڑا امتحان کسی ناول نگار کے لئے اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایسی صورت حال میں کہانی کے بے ربط ہونے اور بار بار ذائقے بدلنے کا کافی احتمال رہتا ہے۔ مگر نیلم احمد بشیر کے اندر بہتے حوصلوں کی فراوانی دیکھئے کہ ان کی بدولت ' طاؤس فقط رنگ' کا معاملہ یکسر مختلف بن جاتا ہے۔
یہ ایک ایسے بڑے کینوس کا ناول ہے کہ جس کا منظرنامہ آسمان جتنا وسیع اور کہانی کہکشاؤں کی طرح سے پھیلی ہوئی ہے جس میں روپذیر واقعات ستاروں کی مانند چمک رہے ہیں۔ ناول کا سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ اس کی کہانی نے نہ تو روایت کی سرحدوں کو پھلانگا ہے اور نہ ہی کسی روایتی کردار نے کہانی میں گھس کر اسے گہنانے کی کوشش کی ہے بلکہ اس کی کہانی اردو ناول نگاری میں جدت طرازی سے بھی آگے کی ایک نئی لہر ثابت ہوئی ہے۔
بنیادی طور پر ناول کی کہانی نائن الیون کے بطن سے ہی جنم لیتی ہے مگر حقیقت میں ' طاؤس فقط رنگ' کی تخلیقی دنیا اس جانگسل واقعہ سے کوسوں دور ہے اور کہانی اس ہولناک حادثے سے کنی کترا کر اپنے راستے کھوجتی ہوئی اتنا آگے بڑھ جاتی ہے کہ کہیں بھی نائن الیون کی ایک چیخ تک سنائی نہیں دیتی۔ جب کہانی اپنے راستوں پر چل پڑتی ہے تو پھر قرطاس سے واقعات کا ایسا چشمہ پھوٹ پڑتا ہے کہ قاری اس میں بہتا چلا جاتا ہے۔ مشکل پلاٹ ہونے کے باوجود نیلم احمد بشیر کی ناول پر گرفت ایسی مضبوط ہے کہ موڑ در موڑ کاٹتے ہوئے کہانی میں کہیں بھی بکھراؤ کی صورتِ حال پیدا نہیں ہوتی بلکہ ایک عمدہ ترتیب کے ساتھ واقعات کا منطقی اور فطری بہاؤ جاری رہتا ہے۔ کہانی پیڑ کی طرح اپنے اندر کئی ٹہنیاں رکھتی ہے جن پر نت نئی حیرانیوں کے رنگا رنگ پھول اگتے رہتے ہیں۔
' طاؤس فقط رنگ' سے ہٹ کر اگر تھوڑی دیر کے لئے اردو ادب کی تاریخ کے اہراموں میں اتر کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اردو ناول کا سفر تقریباً ڈیڑھ صدی پر محیط ہے اور اس عرصہ کے دوران اردو ناول نے مختلف ادبی رجحانات کو جنم دیا ہے جنہوں نے اردو ناول کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دی ہے۔ یہ رجحانات تاریخی، علامتی، نفسیاتی اور سماجی کیفیات کے حامل ہیں، جن کی چھاؤں میں اردو ناول نے اپنا قد کاٹھ نکالا ہے۔ اس ضمن میں چند ایک بڑے اردو ناولوں کا نام لیا جا سکتا ہے جن میں عبداللہ حسین کا اداس نسلیں، انتظار حسین کا بستی، ممتاز مفتی کا علی پور کا ایلی اور شوکت صدیقی کا خدا کی بستی شامل ہیں۔ یہ معروف ناول ان چاروں ادبی رجحانات کی بالترتیب نمائندگی کرتے ہیں۔ مگر ' طاؤس فقط رنگ' ایسا شش جہت اور انوکھا ناول ہے جو کسی ایک روایتی ادبی رجحان کے آگے گھٹنے ٹیکنے کی بجائے مذکورہ بالا چاروں رجحانات کو نئے انداز میں ریفائن کرتا ہوا اپنے اندر ایک جدید اور منفرد دنیا کو تخلیق کرتا ہے۔
مثال کے طور پر ناول میں گیانا سے جڑا حیرت انگیز تاریخی واقعہ اِس کے تاریخی رجحان کا واضح استعارہ ہے جو قاری کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ جس میں پادری جم جونز امریکہ چھوڑ کے اپنے پیروکاروں کو بہتر زندگی کے خواب دکھا کر گیانا کے جنگلوں کی طرف نکل جاتا ہے اور اپنی ایک الگ سی دنیا بسا لیتا ہے جسے وہ جنت سے موسوم کر کے وہاں کے باشندوں کو ہر طرح کی آزادی دے دیتا ہے۔ گیانا کا یہ تاریخی ٹکڑا نیلم احمد بشیر نے اتنے دلکش پیرائے میں نقش کیا ہے کہ قاری اس جزیرے کا حصہ بن کر سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتا جاتا ہے۔
' طاؤس فقط رنگ' کا اگلا پڑاؤ وہ علامتی نظام ہے جس کے بین السطور میں جھلملاتی علامتوں کی تہہ میں اترتے ہی بات طاؤس یعنی امریکہ اور اس کی تہذیبی روایات تک پھیلتی چلی جاتی ہے اور یہی علامتیں ناول میں ایسے خوبصورت علامتی رجحان کو تشکیل دیتی ہیں کہ جو آگے چل کر میجک ریئل ازم کی عملی شکل میں ڈھل جاتا ہے اور میجک ریئل ازم جب اپنے کمالات دکھانا شروع کرتا ہے تو ناول نقطہِ عروج کی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے، خاص طور سے ڈیلائیلہ کے حیران کن کردار کو اگر میجک ریئل ازم کی ملکہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ یہ وہ کردار ہے جو ناول کے ساتھ ساتھ قاری کے حواس پر بھی نشے کی طرح سے چھایا رہتا ہے، جس کے بغیر طاؤس فقط رنگ۔۔۔۔ فقط طاؤس ہی رہ جاتا۔ ناول نگار نے نہ صرف ڈیلائیلہ کا دلچسپ کردار تخلیق کیا ہے بلکہ اس پر انحصار کرتے ہوئے کہانی کا سارا بوجھ بھی اسی پر ہی ڈال کر اسے کہانی کے حوالے کر دیا ہے جو ڈی کا روپ دھار کر مرکزی کردار مراد سے ٹکرا جاتی ہےاور پھر حیران کر دینے والے پراسرار واقعات کا نہ ختم ہونے والا ایک ایسا سلسلسہ شروع ہو جاتا ہے جو قاری کو اپنے اندر سے تحلیل کر کے اُن ماورائی فضاؤں کا حصہ بننے پر مجبور کر دیتا ہے۔
کردار نگاری کے حوالے سے ' طاؤس فقط رنگ' یکسر طور پر نئے نفسیاتی معاملات کو ڈسکس کرتا ہوا قاری کی نفسیات پر ایسا بھرپور وار کرتا ہے کہ ناول کے سبھی کردار متحرک ہو کر اپنی مکمل شباہتوں کے ساتھ قاری کو گھیر لیتے ہیں خاص طور سے مراد، شیری اور ڈی کے کردار اپنی جبلی خصلتوں کے اعتبار سے نئی نفسیات گری کی عمدہ مثالیں ہیں۔ ' طاؤس فقط رنگ' سماجی اتار چڑھاؤ کا ایک نئے سلیقے کا تخلیقی بیانیہ ہے جہاں نیلم احمد بشیر نے مختلف تہذیبوں سے چند کردار لے کر اور انہیں آمنے سامنے لا کر ایک نئی سماجی فضا تخلیق کرنے کی بہترین کوشش کی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ' طاؤس فقط رنگ' ایک بین التہذیبی ناول ہے تو بے جا نہ ہو گا، جس میں ایک سے زائد سماجی اقدار اور تہذیبی روایات متصادم ہونے کے بجائے ایک منطقی ملاپ سے کچھ نئے زاویے بناتی نظر آتی ہیں، بالکل اس طرح جیسے دو رنگ مل کر تیسرے رنگ کو وجود عطا کرتے ہیں۔ یقیناً یہ نیلم احمد بشیر کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ انہوں نے مختلف تہذیبوں کو آپس میں مدغم کر کے ایک نیا تہذیبی منظرنامہ تشکیل دینے کا ایک منفرد تجربہ کیا ہے۔
' طاؤس فقط رنگ' پڑھنے کے بعد اگر اسے کھنگال کر دیکھا جائے کہ اس کے اندر سے کیا برآمد ہوا ہے اور یہ سوچا جائے کہ کیا اس ناول نے قاری کے ذہن پر نئے سوالات لاد کر اسے فکری سفر پر روانہ کیا ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب صرف ایک ہی ہو سکتا ہے کہ ہاں۔۔۔اور وہ فکری سفر ہے 'مزاحمت'۔ جی ہاں طاؤس فقط رنگ ایک مزاحمتی ناول ہے جس میں ہر کردار اپنے منظرنامے پر قناعت کرنے کی بجائے جسمانی، باطنی اور نفسیاتی سطح پر شدید مزاحمت کرتا نظر آتا ہے یعنی درپیش حالات کو رد کر کے اپنے وجود، اپنی پہچان اور اپنی بقا کی جنگ لڑنا ہر کردار کی شناخت بن جاتی ہے۔۔۔اور ناول کا یہی مزاحمتی نقطہ ہی قاری کے دل و دماغ پر اپنی کامیابی کی تاریخ رقم کر دیتا ہے بلکہ اگر اس مزاحمتی حوالے کو ناول سے الگ کر کے دیکھا جائے تو اس کی کہانی ایک قدم بھی نہ چل پائے اور قاری کے قدموں میں ہی ڈھیر ہو جائے۔
' طاؤس فقط رنگ' بہترین پلاٹ سازی، انوکھی کہانی، جاندار جزئیات نگاری، مضبوط مشاہداتی رویہ، عمدہ اسلوب نگاری اور جدت طرازی کی بدولت روایت کی زنجیروں کو توڑتا ہوا عالمی ادب کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اگر یہ دستک سن لی گئی تو ' طاؤس فقط رنگ' جیسا منفرد ناول دنیا بھر میں اردو ادب کی آبرو کی ضمانت بن جائے گا۔