مہنگائی کا جن کوئی نئی آفت نہیں بلکہ یہ اب تو سیاست کرنے کا ایک بنیادی جز بن چکا ہے اور انتخابات سے لے کر حکومتوں کی تبدیلیوں کی کوششوں تک کی سیاسی چالیں عوامی طاقت کا ساتھ حاصل کرنے کے لئے اسی کے گرد گھومتی ہیں۔ جو سیاسی جماعتیں اس مہنگائی کی اصل ذمہ دار ہیں وہ بھی جب اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں تو ڈھٹائی کے ساتھ حکومت میں شامل جماعتوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے اس پر سیاست کرنے کو اپنی سیاسی صلاحیت سمجھنے لگتی ہیں۔
اسی عام آدمی کی تکلیف کے ازالے کے لئے آج کل جماعت اسلامی کی طرف سے احتجاج ہو رہا ہے اور وہ ڈی چوک پر کئی روز سے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ ایک سیاسی جماعت ہوتے ہوئے احتجاج ان کا جمہوری اور سیاسی حق ہی نہیں بلکہ موجودہ حالات میں ایک آئینی اور اخلاقی ذمہ داری بھی بن چکا ہے۔ اس دھرنے کی خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ ایک مثبت سوچ کا عکاس ہے جس میں کوئی بھی سیاسی مطالبہ شامل نہیں کیا گیا بلکہ عوام کو درپیش مشکلات حکومت کے سامنے رکھی گئی ہیں۔ اسی طرز سیاست کی پیروی کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو اس وقت اپنے اختلافات بھلا کر اس مہنگائی کے جن کے خلاف ایک ہو جانا چاہیے۔
وہ عوامی سیاسی جماعتیں جو حکومت میں شامل نہیں ہوتیں ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے حکومت کو ناصرف عوام مخالف پالیسیز کی نشاندہی کریں بلکہ ان پر ختم کرنے کے لئے دباؤ ڈالیں اور حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان سے مذاکرات کرے۔ اگر ان کو پورا کرنے کی کوئی گنجائش پیدا کی جا سکتی ہے تو پھر اس سے عوام کو ریلیف دے کر عوامی خدمت کا ثبوت دیں اور اگر ان کے لئے مطالبات کا ماننا مشکل ہو تو ان کے لئے یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ حقائق پر مبنی اپنے جوازات اور اس ضمن میں کی گئی کوششیں عوام کی عدالت میں پیش کر کے اپنی بے بسی پر ان کو اعتماد میں لیں۔
یہ احتجاج حکومت میں شامل جماعتوں کے لئے بھی ایک یاد دہانی ہے جس کا انہوں نے بھی انتخابات کے دوران عوام سے اپنے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا جس میں پیپلز پارٹی نے تو 300 یونٹس تک کی بجلی کو مفت کرنے کا نعرہ بھی لگایا تھا اور اب وہ کلی طور پر اقتدار میں نہیں بھی تو جزوی طور پر تو حکومت کا حصہ ہی ہیں لہٰذا ان کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے منشور میں دیے گئے قول کے ساتھ انصاف کریں تا کہ آئندہ انتخابات میں عوام کو ان پر اعتماد کرنے کا کوئی جواز میسر ہو اور اسی طرح حکومت میں شامل مرکزی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن نے بھی اپنے منشور میں جس پر انہوں نے کئی مہینے کمیٹی بٹھائی رکھی، میں کئی وعدے کئے تھے جن میں مہنگائی کا خاتمہ تو مرکزی نقطہ تھا لہٰذا اس کی لاج رکھنا ان کی بھی ذمہ داری بنتی ہے۔
جماعت اسلامی کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ 500 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو 50 فیصد رعایت، پیٹرولیم لیوی ختم، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی واپسی، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 20 فیصد کمی، اسٹیشنری آئٹمز پر لگائے گئے ٹیکس کا خاتمہ، حکومتی اخراجات کم کر کے غیر ترقیاتی اخراجات پر 35 فیصد کٹ، کپیسٹی چارجز اور آئی پی پیز کو ڈالروں میں ادائیگی کے معاہدے کا خاتمہ اور تمام معاہدوں کا ازسرنو جائزہ کے علاوہ زراعت اور صنعت پر ناجائز ٹیکس کو ختم کر کے 50 فیصد بوجھ کم کیا جائے۔ صنعت، تجارت اور سرمایہ کاری کو یقینی بنایا جائے تاکہ نوجوانوں کو روزگار ملے۔ اسی طرح تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس ختم کیے جائیں، مراعات یافتہ طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔
دھرنے کے اندر جماعت اسلامی کے امیر نے ایک مزدور کی 35000 کی تنخواہ کے اندر اس کے گھر کا بجٹ بنانے کا حکومت کو جو چیلنج دیا ہے وہ ایک سنجیدہ نقطہ ہے۔ اسی کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ حالات کو ٹھیک کرنے کے لئے اب اس پر سیاسی جماعتوں کو سیاست کرنے کی بجائے اس کا کوئی پائیدار حل ڈھونڈنا چاہیے۔ اس پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات ہونے چاہئیں اور اس پر مہنگائی کے بارے کوئی فارمولا تیار کیا جائے کہ ہر گھر کی بنیادی ضروریات کی اشیا کی قیمتوں جن میں خورونوش کی اشیا شامل ہیں، کی قیمتوں اور ان پر ٹیکسز لگانے کا تعین اس بجٹ کے اندر رکھنے کی پابندی کے ساتھ طے کر لیا جائے کہ ان پر ٹیکسز کی شمولیت کے بعد ان کی قیمت کبھی بھی اس حد سے تجاوز نہیں کرے گی اور اگر قیمتیں بڑھتی ہیں تو پھر ساتھ مزدور کی تنخواہ بھی بڑھانا ہو گی اور اگر آج بھی اس پر توجہ نہ دی گئی تو پھر عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ کسی بھی سیاسی جماعت خواہ وہ حکومت میں شامل ہو یا اپوزیشن میں، ان کو عوام کی کوئی پرواہ نہیں۔
خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
بنیادی انسانی حقوق جن میں تعلیم، صحت، خوراک اور دوسری بنیادی ضروریات شامل ہیں، کو پورا کرنا ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے لہٰذا حکومت اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے عمل کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عوام کے دل جیتنے کے لئے تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے کر یہ قانون بنائے کہ کوئی بھی حکومت جیسے بھی ہو خواہ اس کو سبسڈی ہی دینی پڑے یا اپنے اخراجات کہیں سے بھی پورے کرنے پڑیں، انسان کی بنیادی ضروریات کی اشیا جن میں دالیں، آٹا، گھی، بجلی، گیس، صحت اور تعلیم وغیرہ شامل ہیں، کے مجموعی اخراجات کو ایک مزدور کی تنخواہ سے تجاوز نہیں کرنے دیں گے تاکہ غریب عوام بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔
لگژری آئٹمز پر ٹیکسز ضرور لگائیں، اپنے اخراجات اور ترقیاتی پراجیکٹس منافع بخش سکیموں سے پورے کریں مگر بنیادی ضروریات کی اشیا کو ٹیکس سے ہمیشہ کے لئے استثنیٰ ملنا چاہیے یا پھر اس کے فرق کو سبسڈی سے پورا کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح بجلی پر ٹیکسز اورکپیسٹی چارجز کے پیچھے چھپا کر اس کو کمائی کا ذریعہ بنانے کی بجائے کم از کم 200 یونٹس تک کے بجلی اور گیس کے ریٹ کو مزدور کی تنخواہ سے مشروط کر کے اس پر اضافے کو بھی اسی فارمولے کے اندر رکھ دیا جائے۔
جس طرح سرکاری ملازمین جن کو سرکاری گھر اور بھاری بھرکم تنخواہوں اور کئی اور مراعات حاصل ہیں، کی مفت بجلی کی سہولت کو ختم کرنے کا قومی سطح پر دیرینہ مطالبہ چل رہا ہے اور اس کو ختم کرنے کا حکومت ارادہ بھی رکھتی ہے، پر عمل کر کے اس سے ناصرف قومی سطح پر امتیازی سلوک کو ختم کر کے قوم کے اندر اطمینان پیدا کرنے کا موقع ملے گا بلکہ خزانے پر بوجھ بھی کم ہو گا۔ اسی طرح سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہ کو بھی ایک مزدور کی تنخواہ کے برابر متعین کیا جائے اور ان کی ذمہ داریوں کی مد میں دیے جانے والے الاؤنسز کی بھی ایک حد متعین کی جائے تا کہ ملازمین اور عام آدمی کی زندگی میں امتیازی تاثر کو ختم کر کے معاشرے کے اندر برابری کے تصور کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔
ہم اپنی سیاست، خدمت اور حکومت سازی میں اسلامی ٹچ کے دعوے دار تو ہیں مگر ہم 22 ہزار مربع میل پر حکومت کرنے والے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لباس پر لگے پیوند بھول جاتے ہیں اور ان کا یہ قول کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی پیاسہ مر گیا تو عمرؓ کو یہ ڈر ہے کہ اس سے آخرت کے دن جوابدہی نہ ہو جائے، کا خوف ہمارے دلوں کا رخ نہیں کرتا یا حضرت ابوبکر صدیقؓ جن کے دور میں اسلامی ریاست کی توسیع کا عمل شروع ہوا ان کا یہ واقعہ جس میں وہ اپنے سامنے حلوے کی پلیٹ کو دیکھ کر دریافت کرتے ہیں کہ یہ کہاں سے آیا تو بتایا جاتا ہے کہ روزانہ کے خرچے سے تھوڑا تھوڑا بچا کر تیار کیا گیا ہے تو انہوں نے فوراً حکم دیا کہ اتنا راشن کم کر دیا جائے یا اپنا وظیفہ بڑھانے کی تجویز پر یہ دریافت کرنا کہ ایک مزدور کی تنخواہ کتنی ہے اور یہ اصول طے کرنا کہ اگر ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی فکر ہے تو پھر ان کی تنخواہ کے ساتھ مزدور کی تنخواہ کو بھی اسی کے برابر کر دیا جائے، پر عمل ہمارے اسلامی ٹچ کا کب حصہ بنے گا؟
میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو تو خوش ہونا چاہیے کہ ان کو دوستانہ احتجاج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس میں خالصتاً عوامی مشکلات کی بات کی گئی ہے جس سے عوام کو ان کی مشکلات پر نمائندگی سے ایک امید بندھی ہے اور عوام کے حکومت کے خلاف غصہ میں اس وقت تک کسی حد تک نرمی آئے گی جب تک حکومت اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان مذاکرات کے نتائج ان کے سامنے نہیں آ جاتے اور اگر انہوں نے اس دوستانہ ماحول والے احتجاج پر توجہ دیتے ہوئے عوامی غیض و غضب کو کم کرنے کی کوشش نہ کی تو پھر ان کے لئے مزید مشکلات کھڑی ہونے کے خدشات بھی موجود ہیں۔ اس خالصتاً غیر سیاسی احتجاج میں اگر ان کے سیاسی مخالفین بھی شامل ہو گئے، انتخابات میں بد انتظامی کا شور بھی اس آواز میں شامل ہو گیا اور عوام اس پر لبیک کہتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تو ان کے لئے بہت بڑی مشکل کھڑی ہو سکتی ہے۔ اس سے ترقیاتی کاموں میں خلل پڑے گا اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہو کر عام آدمی کی زندگی بھی مزید اجیرن ہوگی اور سیاسی عدم استحکام کا خواب بھی دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔