حال ہی میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد ہوائی سفر کرنے کا موقع ملا۔ میں نے سوچا کہ سفر کا کچھ ذاتی تجربہ بیان کر دوں۔ میری فلائٹ واشنگٹن سے براستہ جدہ اسلام آباد پہنچنا تھی۔ واشنگٹن میں چیک ان سے لے کر فلائٹ میں بیٹھنے تک سب کچھ نظم و ضبط اور احسن طریقے سے سر انجام پایا۔ سعودی ایئرلائن کا فلائٹ والا عملہ بھی بہت مہذب اور خوش اخلاق تھا۔ ہر دو مسافروں کے درمیان ایک سیٹ خالی تھی جس سے جدہ تک سفر کافی آرام دہ رہا۔
جدہ میں میرا قیام لگ بھگ 12 گھنٹے کے قریب تھا۔ اس کے بعد سعودی ایئرلائن کی اگلی فلائٹ اسلام آباد کے لیے روانہ ہونا تھی۔ جدہ سے تقریباً 12 گھنٹے بعد اگلی فلائٹ اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئی۔ مجھے دو دوستوں کی جانب سے یہ آفر ہوئی کہ اگر میں چاہوں تو مجھے لاہور یا اسلام آباد ایئرپورٹ پر وی آئی پی پروٹوکول مل جائے گا جس میں ہوتا یہ ہے کہ قطار میں لگے بغیر جلدی باہر چلا جاؤں گا مگر میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس سے انکار کر دیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ میں اگر امریکہ اور سعودی عرب میں قطار میں لگ سکتا ہوں تو پاکستان میں بھی مجھ میں اور دوسرے مسافروں میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئیے۔ یہاں بھی قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہئیے۔ تقریباً 5 گھنٹے کے بعد جہاز اسلام آباد ایئرپورٹ پر اتر گیا۔
اسلام آباد ایئرپورٹ پر اتر کے امیگریشن کی لائن میں لگا تو انکشاف ہوا کہ عملہ کم ہونے کی وجہ سے رش زیادہ ہے۔ ابھی قطار میں کھڑے چند منٹ ہی گزرے تھے کہ چند خواتین جو برطانیہ سے آ رہی تھیں، میرے عقب سے آئیں اور قطار توڑ کر پاس سے گزر کر کچھ آگے جا کھڑی ہوئیں۔ اس کے فوراً بعد اسی خاندان کی ایک اور عورت بھی میرے پاس سے گزر کر آگے بڑھ گئی جس پر میں خاموش نہ رہ سکا اور اس سے کہا کہ آپ کو قطار میں کھڑے ہونا چاہئیے۔ اس پر اس نے جواب دیا کہ اس کی بہن اور امی پہلے گزری ہے اور وہ ان کے پاس جانا چاہ رہی ہے جب کہ اس کی پہلے گزرنے والی بہن نے مجھے ایسے گھور کے دیکھا گویا میں نے ان کو قانون کا احترام کرنے کی بجائے گالی دے دی ہو۔
مجھ سے آگے والے صاحب جو کہ سپین سے آ رہے تھے نے مجھے چپ کروایا اور کہا کہ جانے دیں وہ عورتیں ہیں اور وہ برطانیہ میں رہ کر بھی یہ نہیں سیکھ سکیں کہ اپنے ملک پاکستان میں قانون کا احترام کیسے کرنا ہے تو کیا فائدہ ان سے بحث کا۔ اس کے علاوہ میرا اپنا بھی یہ خیال ہے کہ ہماری اکثریت جب تک ڈنڈے کا ڈر نہ ہو اس وقت تک قانون کا احترام نہیں کرتی۔ ہم مہذب معاشروں میں سختی سے قانون کا احترام کرتے ہیں مگر پاکستان میں اترتے ہی یوں لگتا ہے جیسے جنگل میں جانور آزاد چھوڑ دیے گئے ہوں۔
اس کے بعد بھی میرا نمبر آنے تک دو لڑکیوں نے پوری کوشش کی کہ مجھے پیچھے دھکیل کر مجھ سے پہلے قطار توڑ کر آگے نکل جائیں مگر اس موقع پر مجھے ڈھیٹ بن کر اپنے حق کا تحفظ کرنا پڑا۔ جب میرا نمبر آنے والا تھا اس وقت ایک آفیسر نے مجھے سے آگے چند لوگوں کو لا کھڑا کیا اور جب میں نے شور مچایا تو مجھے کہا کہ آپ دوسری قطار والوں سے درخواست کر کے وہاں آ جائیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان اس وقت تک نہیں بدل سکتا جب تک ہم خود اخلاقی طور پر قانون پر عمل نہیں کریں گے ورنہ ڈنڈے کے ڈر سے عمل کرنے کا کیا فائدہ۔ امید ہے اگر ہم عوام ٹھیک ہو جائیں گے تو انتظامیہ اور دیگر ذمہ داران بھی خودبخود ٹھیک ہو جائیں گے۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔