سیاست دانوں، عدلیہ اور دفاعی اداروں سمیت عوام کا کوئی پُرسان حال نہیں

نواز شریف کی منتخب حکومت کو کس طرح ختم کیا گیا اور من مانی کی پی ٹی آئی حکومت لا کر پھر کس طرح نواز شریف کو ذلیل و رسوا کیا گیا، یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ بدقسمتی سے میوزیکل چیئر کا کھیل اب بھی جاری ہے، کون نہیں کھیلنا چاہتا؟ جب تک کھلاڑی ہیں، کھیل جاری رہے گا۔

سیاست دانوں، عدلیہ اور دفاعی اداروں سمیت عوام کا کوئی پُرسان حال نہیں

آج ملک شدید قسم کی مایوسی، سیاسی محاذ آرائی، لاقانونیت، قتل و غارت اور ان کے نتیجے میں کساد بازاری اور معاشی انحطاط کا شکار ہے جبکہ عام آدمی کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے نظام، بلکہ ریاست خطرے کی زد میں دکھائی دیتی ہے۔ تاہم معاشرے کو جس مہلک ترین مرض کا سامنا ہے وہ عوام مخالف اشرافیہ طبقے، طاقتور بیوروکریسی، جاگیردار اور سرمایہ دار سیاست دانوں، ارب پتی مُلاؤں اور میڈیا ٹائیکونز کا گٹھ جوڑ ہے۔ باہم اختلافات کے باوجود، یہ سب دھڑے عوام کو دبائے رکھنے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے ایک ہیں۔ یہ طبقے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ قانون شکنی کا ارتکاب کرتے ہیں، نیز دولت اور طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریاست پر کنٹرول کا ثبوت دینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔

نوآبادیاتی نظام کے خاتمے اور اس ریاست کے قیام کے بعد بھی پاکستانی عوام کے حقوق انہیں دینے کے بجائے جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے نے سلب کر لیے۔ ایسا کرتے ہوئے اس طاقت ور طبقے نے ملک کو اپنی جاگیر اور خود کو ہر قسم کے قانون سے بالاتر سمجھا۔ قانون کی پامالی کے بدترین واقعات میں سے ایک 17 جون 2014 کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں پیش آنے والا سانحہ تھا۔ اس میں مبینہ طور پر پولیس کی فائرنگ سے 14 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے، لیکن کسی کی گرفتاری تو کجا، پولیس نے سانحہ میں معمول کی کارروائی سے بھی گریز کیا۔ عدلیہ اور ایگزیکٹو متاثرہ فریق کو انصاف فراہم کرنے میں تا حال ناکام ہیں۔

پاکستان کا اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ اشرافیہ اور حکمران عوام کے حقوق کی مطلق پروا نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں ایک جمہوری ریاست کے شہری سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک عوام ان کے 'رعایا' ہیں جنہیں وہ خیرات میں کچھ رعایتیں دے کر شاہانہ طرزِ حکومت قائم کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد ان پر ریاستی قوانین کا کوئی اطلاق نہیں ہوتا۔

انصاف سے محرومی اور حقوق کی پامالی کی وجہ سے پاکستان موجودہ حالات کا شکار ہے۔ 16 مارچ 2009 کو سیاسی جماعتوں، میڈیا، وکلا برادری اور سول سوسائٹی نے دو سالہ جدوجہد کے بعد عدلیہ کی کامیاب بحالی کا جشن منایا تھا۔ وہ بحالی ایک احتجاجی لانگ مارچ کے نتیجے میں عمل میں آئی تھی۔ تاہم بعد میں اعلیٰ عدلیہ کے بہت سے جج حضرات نے اس طرح کے احتجاج، لانگ مارچ اور دھرنے کوغیر آئینی قرار دیا۔ اُس وقت لانگ مارچ کرتے ہوئے آنے والے محترم نواز شریف صاحب عدلیہ کی بحالی کے ایک جانباز ہیرو دکھائی دیتے تھے، تاہم بعد میں بیرسٹر اعتزاز احسن نے بتایا کہ گوجرانوالہ سے پہلے ایک اہم شخصیت کی فون کال نے تمام معاملہ حل کرا دیا تھا۔ مسٹر احسن نے تحریک میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا لیکن بعد میں وہ بھی پشیمان دکھائی دیے اور اسی طرح علی احمد کرد بھی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عدلیہ بحالی بہت سی توقعات کو پورا کرنے میں ناکام رہی۔

عدلیہ بحالی سے جڑے ایک 'نئے پاکستان' کا خواب دیگر بہت سے خوابوں کی طرح بکھر گیا۔ آج کل 'نئے پاکستان' کے بعد، جو ایک انتہائی ناکام تجربہ تھا، ایک اور نئے تجربے کی بات کی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ اسے بھی ماضی کی شکست آرزو کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔ اس لیے اُنہیں نقش بنتے نظر آنے کے بجائے بگڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک اور بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ عدلیہ کی بحالی سے لے کر اب تک قائم ہونے والی تین حکومتیں کراچی امن و امان کیس، گمشدہ افراد کیس اور تیل، چینی اور بجلی کے نرخوں میں تخفیف کرنے کے سپریم کورٹ کے احکامات کو نظرانداز کرتی رہیں۔ اس وقت طاقتور سیاسی حلقوں نے عوام کو باور کرایا کہ اصل اختیار ان کے پاس ہے۔ اس تمام چکر میں پاکستان کے عام آدمی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ اورتو اور، ماتحت عدلیہ کی اصلاح ہو سکی اور نہ ہی عام آدمی کو انصاف مل سکا۔ چنانچہ وہ لوگ جو ایک سنہرے دور کی توقع لگائے بیٹھے تھے، نظام سے مایوس ہو کر اب ہر نئی توقع کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ ایسا کرنے میں حق بجانب بھی ہیں، آخر دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔

اعلیٰ عدلیہ نے بھرپور 'فعالیت' کے نام پر پھرتی تو بہت دکھائی لیکن کیا کچھ بھی نہیں، بلکہ سیاسی معاملات میں مداخلت کا الزام بھی لگا، جو درحقیت بہت حد تک درست بھی تھا۔ اسی دوران ایک سابق چیف جسٹس صاحب کے بیٹے کا مشہور زمانہ کیس منظرعام پر آیا جس نے عدلیہ کو اور بھی متنازعہ بنا دیا۔ اس وقت تک عدلیہ کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنے والی بار ایسوسی ایشنز اور وکلا رہنما کھل کر عدلیہ پر تنقید کرنا شروع ہو گئے تھے۔

اسی طرح جمہوریت کا تسلسل بھی ایک خوشنما خواب تھا۔ زرداری حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور پھر 'پرامن طریقے' سے اقتدار پی ایم ایل (نواز) کو منتقل ہو گیا، لیکن طاقتور طبقے نے ریاستی اداروں پر اپنا کنٹرول برقرار رکھتے ہوئے عوام تک جمہوریت کے ثمرات نہیں پہنچنے دیے۔ منتخب حکومت کو کس طرح ختم کیا گیا اور من مانی کی حکومت لا کر پھر کس طرح ان کو ذلیل و رسوا کیا گیا، یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ بدقسمتی سے میوزیکل چیئر کا کھیل اب بھی جاری ہے، کون نہیں کھیلنا چاہتا؟ جب تک کھلاڑی ہیں، کھیل جاری رہے گا۔

کھلاڑیوں کی طرف سے اٹھارھویں ترمیم کے بعد بھی مقامی حکومتوں کے قیام کی کوئی کوشش دیکھنے میں نہیں آئی۔ مقامی حکومتوں تک اختیارات کی منتقلی سے عوام کو تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی، ٹرانسپورٹ، ہاؤسنگ اور دیگر سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں، لیکن سپریم کورٹ بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مجبور نہ کر سکی کہ دستور پاکستان کے آرٹیکل 140 الف کے تحت مقامی حکومتوں کے لیے انتخابات کرائیں تا کہ اقتدار نچلی ترین سطح پر عوام کے منتخب لوگوں کو منتقل ہو سکے۔

اس تمام صورت حال کا منطقی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب لوگ کسی انقلاب کی راہ دیکھنے سے بھی بیزار ہیں۔ مشرف اور شوکت عزیز اور پھر زرداری دور میں انہوں نے اشرافیہ کو جیبیں بھرتے دیکھا، جبکہ ان کے لیے کچھ نہ کیا گیا۔ اس کے بعد نواز حکومت سے توقعات لگائی گئی تھیں، لیکن اس پاک سرزمین کے باسیوں کو شدت سے احساس ہونے لگا کہ اس ملک پر عوام کی نہیں، 'خاندانوں' کی حکومت ہے۔ یہاں ترقی کے لیے روابط، پیسہ، سیاسی طاقت اور چالبازی کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد تحریک انصاف اور پھر پی ڈی ایم نے مقتدر حلقوں کے زیراثر جس موجودہ بحران کو جنم دیا، اس کے نتیجے میں معیشت، ریاست کی عمل داری اور حکومت تیزی سے تحلیل ہو رہی ہیں۔

آئین کے آرٹیکلز 8 اور 28 کے تحت عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے اور آرٹیکلز 29 اور 38 کے تحت ان مقاصد کے حصول کو یقینی بنانے کے بجائے سیاست دان اپنے ذاتی مفاد کے لیے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ انہیں، جیسا کہ وہ دعوے کرتے ہیں، پاکستان میں جمہوریت کے فروغ سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ صرف اپنے وسائل استعمال کرتے ہوئے انتخابی کامیابی چاہتے ہیں۔ منتخب ہونے کے بعد وہ کی گئی 'سرمایہ کاری' کو منافع سمیت عوامی وسائل سے پورا کرتے ہیں۔ ان نمائندوں میں سے زیادہ تر واجب الادا ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے۔

موجودہ صورت حال اور مستقبل میں پیش آنے والی ایسی یا اس سے بھی شدید صورت حال سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ حکمران وقت کی چال پہچانیں اور عوام کو ان کے حقوق دیں۔ انہیں احساس ہونا چاہئیے کہ ملک کا عام شہری بھاری ٹیکس ادا کرتا ہے لیکن اسے کوئی سہولت نہیں ملتی۔ دوسری طرف سرمایہ دار اور نام نہاد حکمران جمہوریت کے بل بوتے پر بڑی ڈھٹائی سے ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ گذشتہ کئی عشروں سے ریاستی ادارے بتدریج تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ کسی حکومت کی طرف سے ان کو بہتر بنانے کی عملی اور واضح کوشش دیکھنے میں نہیں آئی۔

جہاں تک دفاعی اداروں کی پالیسی کا تعلق ہے تو عام شہری یہ دیکھ کر چکرا جاتا ہے کہ جن انتہا پسند گروہوں کو اثاثے قرار دے کر عشروں تک پالا گیا، اب انہی کے خلاف جنگ کرنا پڑ رہی ہے۔ کیا اس ملک کا کوئی والی وارث ہے؟ کیا کسی سے کوئی پوچھ گچھ کی جا سکتی ہے؟

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔