عوامی ورکرز پارٹی نے حکومت اور آئی ایم ایف کی عوام دشمن پالیسیوں پر غم و غصے کا اظہار کیا جن کے باعث ایندھن، خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ قیمتیں بڑھنے سے عام لوگوں کی مشکلات میں شدید اضافہ ہوا ہے جبکہ پاکستان ڈیفالٹ ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ موجودہ معاشی و سیاسی بحران اور افراتفری کی صورت حال، حکومت کی کوتاہ اندیش پالیسیوں اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اقتدار کی کشمکش کا براہ راست نتیجہ ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی نے اپنی فیڈرل ایگزیکٹو کمیٹی کے دو روزہ اجلاس کے بعد اتوار کو ایک اعلامیہ جاری کیا اور دفاعی اخراجات میں فوری اور قابل ذکر کٹوتی سمیت 1 فیصد حکمران اشرافیہ، سول و فوجی افسروں، ججوں، جاگیرداروں کی آمدنی پر خاطر خواہ ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔
اجلاس میں پارٹی قیادت نے کہا کہ روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے کیونکہ سابق اور موجودہ حکومتیں انتخابی فائدے کے لیے غلط پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی گندم کی ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کو کنٹرول کرنے میں ناکامی پر شدید تنقید کی اور ایندھن کی قیمتوں میں ہونے والے حالیہ اضافے، محصولات عائد کرنے اور آئی ایم ایف کے حکم پر کھانے پینے کی اشیا پر دی گئی سبسڈی ختم کرنے جیسے اقدامات کی مذمت کی ہے۔
پارٹی کے مطابق مہنگائی 27.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے جس نے اپریل 1975 کے بعد اشیائے ضروریہ اور خدمات کی قیمتوں میں سب سے تیزی سے اضافے کا 50 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے اور ابھی اس میں مزید اضافے کا امکان ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔
پارٹی قیادت نے کہا کہ پاکستان میں مہنگائی کے فوری محرک سیاسی بحران، عالمی سامراج کے پیدا کردہ تنازعات، یوکرین کی جنگ اور تیل اور اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کا باعث بنے۔ عوامی ورکرز پارٹی سمجھتی ہے کہ عالمی سرمایہ داری نظام، کارپوریٹ منافع خوری اور اجارہ داری کے مفادات ان تمام بحرانوں کے ذمہ دار ہیں جس کی وجہ سے محنت کش طبقات کے استحصال میں اضافہ ہوا ہے اور معاشرے میں سماجی و طبقاتی فرق مزید بڑھ گیا ہے۔ مزید یہ کہ سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے باعث پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گزشتہ سال آنے والے شدید سیلاب نے گلگت بلتستان سے لے کر سندھ، بلوچستان اور سرائیکی وسیب تک تباہی پھیلائی۔ انفراسٹرکچر اور خوراک اور فصلیں تباہ ہوئیں جس نے موجودہ معاشی بحران میں شدت پیدا کی۔
ماہرین کی رپورٹس کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں ٹرانسپورٹ کی سہولتیں 63 فیصد، خوراک 31 فیصد، رہائش 27.6 فیصد، تعلیم 10 فیصد اور صحت 11.8 فیصد مہنگی ہوئی ہے۔ عوامی ورکرز پارٹی نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر موجودہ سیاسی عدم استحکام اور حکمران اشرافیہ کی نااہلی اور بدعنوانی جاری رہی تو مزید لاکھوں افراد غربت کی لکیر سے نیچے جا سکتے ہیں اور محنت کش طبقے کی قوت خرید ختم ہو کر رہ جائے گی۔ پارٹی نے مطالبہ کیا کہ حکومت امیروں سے ملنے والی سبسڈی کو محنت کش لوگوں کی طرف موڑ دے جو معاشی بحران اور آسمان کو چھوتی مہنگائی سے کچھ ریلیف اور تحفظ کے مستحق ہیں۔
پارٹی نے سوشلسٹ اصولوں کی بنیاد پر معیشت اور معاشرت کی ترقی، منصفانہ روزگار کی فراہمی کو یقینی بنانے اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے وسائل اور دولت کی ازسر نو تقسیم پر مبنی ایک متبادل معاشی اور ترقیاتی ماڈل کی ضرورت پر مزید زور دیا۔ پارٹی کا مؤقف ہے کہ جی ڈی پی کا بڑا حصہ غیر پیداواری دفاعی اخراجات اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتا ہے۔ ان قرضوں کا بوجھ عوام پہ لادا جاتا ہے جبکہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ اور سامراجی پٹھو گروہ اس سے مستفید ہوتے ہیں۔
پارٹی خیبر پختونخوا اور ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات پر بھی تشویش کا اظہار کرتی ہے اور معاشی بدحالی اور ڈیفالٹ کو روکنے کے لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ پراکسی جنگوں کے خاتمے اور سفارتی اور تجارتی تعلقات کو معمول پر لانے کا مطالبہ کرتی ہے۔
پارٹی نے تمام ترقی پسند اور جمہوری قوتوں پر زور دیا کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور موجودہ نظام کو بدلنے کے لیے تبدیلی کا متبادل پروگرام شروع کریں کیونکہ موجودہ نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔
پارٹی نے معروف ترقی پسند سیاست دان اور وکیل لالہ لطیف آفریدی کے قتل پر بھی دکھ کا اظہار کیا اور ان کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔