'اگر طے ہو چکا میرا قتل کر دیا جانا'

'میں ایک لکھنے پڑھنے والا انسان ہوں۔ میرے گھر میں تو سب سے سخت چیز ایک مارکر ہی ہے۔ لیکن اگر اسرائیلیوں نے میرے گھر پر حملہ کیا۔ اگر وہ گھر گھر تلاشی لیتے ہوئے میرے دروازے تک بھی آ پہنچے، ہمیں قتل کرنے کے لئے، تو میں وہ مارکر اٹھا کر اسرائیلی فوجیوں کو ضرور ماروں گا۔ چاہے یہ میری موت سے قبل میرے جسم کی آخری جنبش ہی کیوں نہ ہو'۔

'اگر طے ہو چکا میرا قتل کر دیا جانا'

فلسطینی ماہرِ تعلیم رفعت الاریر گذشتہ روز ایک اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہو گئے۔ ٹوئٹر پر رفعت الاریر کی شہادت کی خبر شیئر کرتے ہوئے مصنف اور صحافی عبد الهادي العجلة نے لکھا کہ 'مشرقِ وسطیٰ میں انگریزی ادب کے محققین میں سے ایک بہترین محقق آج چلا گیا۔ اسے غزّہ میں ایک فضائی حملے میں نشانہ بنایا گیا۔ یہ لوگ الفاظ اور کتابوں، روشن دماغوں اور دلیل سے خوفزدہ ہیں'۔

رفعت الاریر کی شہادت نے جہاں اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کی اخلاقی گراوٹ اور منافقت کو مزید بے نقاب کرنے میں اپنا حصہ ڈالا ہے، وہیں اس نے دنیا بھر میں اسرائیل کے مظالم پر افسردہ شہریوں کو شدید غمزدہ بھی کر دیا ہے۔

چند روز قبل رفعت الاریر نے ایک یوٹیوب پاڈکاسٹ میں اپنا دل کھول کر سننے والوں کے سامنے رکھا تھا جب انہوں نے جذبات سے مغلوب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ:

'ہم جانتے ہیں حالات بہت مایوس کن ہیں۔ یہاں سے بھاگنے کی کوئی راہ نہیں ہے۔ جب کوئی راہِ فرار ہے ہی نہیں تو ہم کیا کریں؟ ہم سب ڈوب مریں؟ اجتماعی خودکشی کر لیں؟ کیا اسرائیل یہ چاہتا ہے؟ ہم یہ نہیں کرنے والے۔ میں اگلے دن ایک دوست کو کہہ رہا تھا کہ میں ایک لکھنے پڑھنے والا انسان ہوں۔ میرے گھر میں تو سب سے سخت چیز ایک مارکر ہی ہے۔ لیکن اگر اسرائیلیوں نے میرے گھر پر حملہ کیا۔ اگر وہ گھر گھر تلاشی لیتے ہوئے میرے دروازے تک بھی آ پہنچے، ہمیں قتل کرنے کے لئے، تو میں وہ مارکر اٹھا کر اسرائیلی فوجیوں کو ضرور ماروں گا۔ چاہے یہ میری موت سے قبل میرے جسم کی آخری جنبش ہی کیوں نہ ہو'۔

اور اب رفعت الاریر بھی شہید ہو چکے ہیں۔

لیکن اپنی موت سے قبل، گذشتہ ماہ یکم نومبر کو، رفعت نے ایک نظم لکھی تھی جس نے دنیا بھر میں ہر دردِ دل رکھنے والے کی آنکھوں کو نمناک چھوڑ دیا ہے۔ انگریزی ادب کے اس استاد نے نظم انگریزی زبان میں ہی لکھی تھی کہ دنیا بھر تک اس کی آواز پہنچ جائے۔ شاعر اور محقق سلمان حیدر نے اس نظم کو اردو سمجھنے اور پڑھنے والوں کے لئے ترجمہ کیا ہے جسے نیا دور قارئین کے لئے یہاں پیش کیا جا رہا ہے:

اگر طے ہو چکا، میرا قتل کر دیا جانا
تو تم زندہ رہنا
میری کہانی سنانے کے لیے
اور خریدنے کے لیے
میرے سامان کے عوض
کپڑے کا ایک ٹکڑا
جو سفید ہو اور دور تک لہراتا ہو
اور کچھ ڈور
تاکہ غزہ میں
آسمان کی طرف دیکھنے والا ایک بچہ
دیکھ سکے، اوپر بہت دور، ایک پتنگ کو
اس وقت جب وہ اپنے باپ کا انتظار کر رہا ہو
اور جانے والا
ایک شعلے میں لپٹ کر جا چکا ہو
پلٹنے کا کوئی وعدہ کیے بغیر
اپنے بدن کے ٹکڑے
اپنے پیچھے چھوڑ کر
اور میری پتنگ، جسے تم نے بنایا تھا
ایک لمحے کو بدل جائے
اس بچے کے لیے
ایک ایسے فرشتے میں
جو آسمان سے محبت لیے اتر رہا ہے
اگر لکھا جا چکا
میرا مار دیا جانا
تو مجھے ڈھل جانے دینا ایک امید میں
اور ایک کہانی میں۔۔۔