فلسطین کے موجودہ تنازعہ کی کہانی کا باقاعدہ آغاز پہلی عالمی جنگ کے دوران 1916 کے برطانیہ، فرانس اور روس کے اس خفیہ معاہدے سے ہوتا ہے جس میں ان تین طاقتوں کے درمیان یہ طے پایا کہ خلافت عثمانیہ کے ٹوٹ جانے کے بعد کس طرح مشرق وسطیٰ کے علاقے کی آپس میں بندر بانٹ کرنی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کس طرح طاقت کی ہوس میں ڈوبے ہوئے عربی جتھوں کے رہنماؤں نے نام نہاد 'لارنس آف عریبیہ' جیسے کرداروں کے ساتھ مل کرخلافت عثمانیہ کے خلاف مغربی طاقتوں کا ساتھ دیا اور نتیجتاً خلافت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرگیا۔ پھر جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے کہ کس طرح مغرب زادوں نے مشرق وسطیٰ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس خطے پر اپنی مرضی کا آرڈر مسلط کیا۔
اس گھناؤنی سازش میں سعودی خاندان، شاہ فیصل خاندان اور شریف حسین آف مکہ کے خاندان کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے جنہوں نے مغربی آقاؤں کے ساتھ مل کر ترکوں کے خلاف بغاوت کی جس سے ترک حکومت مشرق وسطیٰ کے علاقوں پر اپنا قبضہ قائم نہ رکھ سکی۔ اس وفاداری کے صلے میں مغربی استعمار نے سعودی خاندان کو حجاز (موجودہ سعودی عرب) دے دیا۔ یہ بھی یاد رہے کہ حجاز کا وعدہ شریف حسین آف مکہ سے کیا گیا تھا مگر جنگ کے بعد شریف حسین کے خاندان کو حجاز دینے کے بجائے اردن کی حکومت دے دی گئی۔ سعودی خاندان کی مغرب نوازی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ استعمار کی دوراندیشی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی طرح عراق کی حکومت شاہ فیصل کے خاندان کو ملی۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ یہ والے شاہ فیصل سعودی عرب کے شاہ فیصل نہیں ہیں جو اپنے بھتیجے کے ہاتھوں قتل ہوئے اگرچہ دونوں کی قسمت ایک جیسی ضرور رہی کیونکہ عراق کے شاہ فیصل کو عراق میں ایک بغاوت کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔
2 نومبر1917 کو تاج برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانوی حکومت اور کیبنٹ کی منظوری سے صیہونی رہنما والٹررتھس چائلڈ کے نام ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ فلسطین کا علاقہ 'احساس' کی بنیادوں پر یہودی کمیونٹی کا قومی وطن قرار دیے جانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اگر برطانوی استعمار کو یہودیوں اور صیہونیوں کا اس قدر احساس تھا تو ان کو مغرب اور یورپ کے وسیع و عریض علاقے میں کیوں نہ بسایا گیا؟ آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے علاقے جہاں آج بھی آبادی کم ہے مگر زمین اور ذرائع زیادہ ہیں وہاں کیوں نہ بسایا گیا جہاں وہ مسقتبل میں زیادہ خوشحال اور محفوظ رہ سکتے تھے؟
اس سازش کے ذریعے استعمار ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہ رہا تھا۔ پہلا یہ کہ 'یہودی مسئلہ' خالصتاً یورپی مسئلہ تھا اور یورپ والے اس مسئلے سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑوانا چاہتے تھے۔ یہودیوں کی ایک کثیر تعداد ایران، عراق، شام اور مشرق وسطیٰ کے دیگر علاقوں میں رہ رہی تھی اور اب بھی رہ رہی ہے مگر وہاں کبھی یہ مسئلہ سامنے نہیں آیا۔ یہودیوں کی نسل کشی اور ہولوکوسٹ جیسے سانحات بھی یورپ میں پیش آئے۔ مغربی استعمار کا فلسطین کا علاقہ یہودیوں کو دینے کے پیچھے دوسرا ناپاک ایجنڈا یہ تھا کہ عرب اپنے مذہب اور کلچر کی وجہ سے کبھی بھی مغربی استعمار کو برداشت نہیں کریں گے لہٰذا اسرائیل اور صیہونیوں کے ذریعے عربوں اور مشرق وسطیٰ کا بلاواسطہ قبضہ برقرار رہے گا جس سے مغربی استعمار کے مذموم عزائم کی تکمیل ہوتی رہے گی۔ فلسطینیوں کے علاقے پر احساس کے نام پر شب خون مارنے کا تیسرا مذموم ارادہ یہ تھا کہ فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام سے مشرق پر مغربی استعمار کا قبضہ برقرار رہے گا کیونکہ فلسطین کا علاقہ جیوپولیٹکل اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس کے ایک طرف پورا مشرق ہے اور دوسری طرف پورا مغرب اور یورپ کا علاقہ۔
مغربی طاقتوں نے ہمیشہ سے مشرق پر اپنا ناجائز قبضہ جمانے کی کوشش کی ہے۔ روم کی سلطنت ہو، مغربی کولونیل ازم ہو یا پھر اسرائیل کا وجود؛ سب مشرق پر مغربی تسلط جمانے کے شاخسانے ہیں۔ اس تناظر میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مشرق پر قدیم رومی یلغار کو اس وقت کی مشرق کی عظیم فارس کی سلطنت روکنے کی کوشش کرتی رہی اور یہ کیسا عجیب اور حیران کن اتفاق ہے کہ آج جب ترکی سمیت تقریباً تمام عرب اور مسلم ممالک اسرائیل کے آگے گھٹنے ٹیک چکے تھے اور اپنے مغربی آقاؤں کا حکم بجا لاتے ہوئے اور بعض اقتصادی فوائد کی آڑ میں اسرائیل کے ناپاک وجود کو نہ صرف تسلیم کر رہے تھے بلکہ ان کے ساتھ تجارتی اور سفارتی معاہدے بھی کر رہے تھے، تو اس وقت فلسطینی مزاحمت کو ایران اور اس کے اتحادیوں کی بے پناہ حمایت حاصل ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ ایران نے شام، لبنان، یمن اور اب حماس کے ذریعے سے صیہونی ریاست پر گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ کیا پاکستان کے محمد اقبال کا یہ خواب بھی سچ ہونے لگا ہے؛
تہران ہو گرعالم مشرق کا جنیوا
شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
عالمی سیاست کے تناظرمیں دیکھا جائے تو کچھ تنازعات ایسے ہوتے ہیں جو صدیوں کے عرصے پر محیط ہوتے ہیں اور ان تنازعات کے اندر بڑی جنگوں کے امکانات کے ساتھ ساتھ بڑی عالمی تبدیلی کا راز بھی پوشیدہ ہوتا ہے۔ ایسے تنازعات کبھی کبھی فرد واحد، ایک قوم اور ایک ریاست کا تنازعہ ہوتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ عالمی سیاست کا دھارا موڑ دیتے ہیں۔ فلسطین کا تنازعہ بھی ایک ایسا ہی تنازعہ ہے جو اب اقوام عالم کا مسئلہ بن گیا ہے۔ گلوبل ورلڈ کے اربوں افراد اور کئی ریاستیں اس مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھ رہے ہیں۔ گویا یوں دکھائی دے رہا ہے کہ جیسے فلسطین کا مسئلہ دنیا کو نظریاتی بنیادوں پر تقسیم کر رہا ہے جیسے حق اور باطل کا معرکہ ہو۔ مسئلہ فلسطین کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ یہ ایک نئے گلوبل ورلڈ آرڈر کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے جس میں مغربی استعمار کے بجائے مشرق کے اقدار کی جیت ہو گی۔
مسئلہ فلسطین کا حل ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام سے مشروط ہے کیونکہ یہ علاقہ کسی ایک خاص مذہب یا نظریے کے ساتھ منسلک نہیں کیا جا سکتا۔ اس علاقے پر یہودی، عیسائی اور مسلمان مختلف ادوار میں قابض ضرور رہے مگر یہ علاقہ فلسطین کے باسیوں کا رہا جو یہودی بھی ہوئے، عیسائی بھی ہوئے اور مسلمان بھی ہوئے مگر وہ فلسطینی رہے اور آج بھی فلسطینی ہی ہیں۔ اس مسئلے اور تنازعے کی آج بھی وہی حقیقت ہے جو 1192 میں تیسری صلیبی جنگ کے دوران سلطان صلاح الدین ایوبی نے انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیردل کے سامنے بیان کی کہ فلسطین اور یروشلم کا علاقہ علاقائی حساب سے عربوں کا علاقہ ہے جس پر مذہب کی بنیاد پر مغرب کے تسلط اور قبضے کا دعویٰ گمراہ کن اور حقائق کے منافی ہے۔ عالمی اور علاقائی امن کے لیے مغربی طاقتوں کو اس حقیقت کو تسیلم کرنا ہو گا۔