8 فروری کو انتخابات ضرور ہوں گے, کوئی شک و شبہ نہیں رہنا چاہیے: نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی

مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت چاروں صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر اس فریضے کو سرانجام دے گی۔ ہمارے آئین میں لکھا ہے کہ یہ ملک اس کے منتخب نمائندے چلائیں گے۔ اور اب وہ دن زیادہ دور نہیں ہے۔

8 فروری کو انتخابات ضرور ہوں گے, کوئی شک و شبہ نہیں رہنا چاہیے: نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی

نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور پارلیمانی امور مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ عام انتخابات 8 فروری کو ہی ہوں گے۔ اس کے انعقاد پر کوئی شک و شبہ نہیں رہنا چاہیے۔

کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ نگران حکومت آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کرانے کیلئے پرعزم ہے۔ لہٰذا نتخابات کے انعقاد کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ 8 فروری 2024 کو پورے ملک میں انتخابات ہوں گے۔ مسائل اور مشکلات ضرور ہیں لیکن الیکشن کمیشن کی مالی، انتظامی یا سیکیورٹی ضروریات پورا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت چاروں صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر اس فریضے کو سرانجام دے گی۔ ہمارے آئین میں لکھا ہے کہ یہ ملک اس کے منتخب نمائندے چلائیں گے۔ اور اب وہ دن زیادہ دور نہیں ہے۔

نگراں وزیر اطلاعات نے کہا کہ جس حالت میں ملک ملا ہے۔ اس سے بہتر حالت میں اگلی منتخب حکومت کے حوالے کریں گے۔ آج پاکستان اسٹاک ایکسچینج 100 انڈیکس 66 ہزار کی حد عبور کر چکا جب کہ ڈالر کی قدر میں بھی کمی ہوئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ لوگ افواہیں پھیلا رہے تھے کہ آئی ایم ایف کے اگلے بورڈ میں پاکستان کا کیس نہیں۔ بلومبرگ کی آج کی خبر ہے 11 جنوری کو پاکستان آئی ایم ایف بورڈ کے ایجنڈے پر ہے۔ ہمیں خوشی ہے ملک معاشی استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے۔

ایک ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے مرتضی سولنگی نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے جو سابق سربراہ ہیں وہ اس وقت جس جگہ اور جن حالات میں ہیں اس میں جو سہولیات ان کو پیش کی جارہی ہیں اس میں یہ سہولت موجود نہیں ہے ان کے لیے کہ وہ ٹویٹ کریں۔ تو مجھے یقین نہیں ہے کہ یہ ٹویٹ انہوں نے خود کی ہے یا ان کے مؤکلوں نے کی ہے لیکن اگر ہم یہ مان لیں کہ یہ ان کی دل کی آواز ہے تو میری خواہش یہ ہوتی کہ پاکستان کی جو 25 کروڑ عوام ہے ان کی مشکلات کے بارے میں بھی وہ گفتگو کرتے بجائے اس کے کہ وہ غیر قانونی طور پر افغان کی ترجمانی کرتے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو الزام اس ٹویٹ کے اندر ہے وہ بے بنیاد ہے صحافیوں سے بہتر یہ کون جاتا ہے کہ جو تقریبا 5 لاکھ لوگ گئے ہیں پاکستان سے ان کی اکثریت کو دھکے دے کر نہیں نکالاگیا ہے بلکہ اکثر لوگ رضاکارانہ طور پر گئے ہیں۔ چند ہزار لوگ ہی ایسے ہیں جن کو جبری یا غیر رضاکارانہ طور پر بھیجا گیا۔ ایک دو ہی کوئی زیادتی کے واقعات ہوئے ہوں گے اور اگر یہ ہوں گے تو انتظامیہ اس کا نوٹس لے گی اور ہم واپس جانے والوں کی انسانی اقدار کا خیال رکھیں گے۔ پاکستان کی شہرت مہمان نوازی کی ہے تذلیل کی نہیں ہے تو 80 کی دہائی سے سب سے زیادہ افغان مہاجرین ہمارے ملک میں ہی آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس ٹویٹ کی مدد سے ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ افغانستان کی وہ حکومت جس کو دنیا کا کوئی ملک سرکاری طور پر تسلیم نہیں کرتا۔ ان کی ہمدردی حاصل کی جائے اور بالواسطہ ان کے بھیجے ہوئے ٹی ٹی پی کے جولوگ ہیں ان کی ہمدردی حاصل کی جائے اور اگلے انتخابات میں ایسی صورتحال پیدا کی جائے جس میں ان کی جماعت کو ایک طرح سے فائدہ حاصل ہو دوسری سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں، اگر ایسا ہے تو یہ ایک افسوسناک بات ہوگی کیونکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ انتخابات میں تمام جماعتوں کو برابر سیکیورٹی کے مواقع حاصل ہوں گے۔

مرتضی سولنگی نے تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہوئے سوال کیا کہ یہ پوچھنے کی بات ضرور ہے کہ جب ان کی حکومت ختم ہوئی اس سے پہلے کتنے ہزار ٹی ٹی پی کے جو دہشتگرد ہیں ان کو کس معاہدے، کس پارلیمان کی مرضی سے کونسی نمائندگی کے ساتھ ان کو اجازت دی گئی؟ یہ پوچھنے کا حق ضرور لوگوں کو ہوگا کہ مسلم خان اور محمود خان جو سوات کے قصائی کے طور پر مشہور تھے ان کو کس نے معاف کیا؟تو یہ سوالات ٹویٹ کرنے والوں سے ضرور پوچھنا چاہیے۔