نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے سوات کے سینئر صحافی فیاض ظفر پرمبینہ تشدد اور حراست کا نوٹس لے لیا جس کے بعد صحافی کی گرفتاری کے حکم کو واپس لے لیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق نگران وفاقی وزیر اطلاعات نے جمعرات کو فیاض ظفر کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ پر متعلقہ حکام سے رابطہ کیا۔ وزیر اطلاعات نے فیاض ظفر پر تشدد اور گرفتاری کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
نگران وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ آئین کے مطابق میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔واقعے کی غیرجانبدارانہ تحقیق یقینی بنائی جائے۔ تمام تفصیلات مہیا کی جائیں۔ عہدے کی طاقت صحافیوں کی آواز دبانے کے لئے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔
مرتضی سولنگی نے کہا کہ فیاض ظفر کے معاملے میں پیش رفت پر نظر رکھیں گے۔ فیاض ظفر سے متعلق تمام حقائق سامنے آنے پر میڈیا کو آگاہ کریں گے۔
بعد ازاں، سوات ڈپٹی کمشنر کے آفس سے سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ جیل سیدو شریف سوات کو صحافی فیاض ظفر کو گرفتار کرنے کا فیصلہ واپس لینے کے لیے حکمنامہ جاری کیا گیا۔
تحریری حکمنامے کے مطابق ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن اور تحصیل بابوزئی کے معززین کی درخواست پر ویسٹ پاکستان مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس 1960 کے سیکشن 3 کے تحت فیاض ظفر کی گرفتاری کے لیے جاری کیے گئے حکم کو واپس لیا جاتا ہے۔ اور ملزم یعنی فیاض ظفر ولد ظفر ولد سیدو شریف ضلع سوات، کسی اور کیس میں ملوث نہ ہونے پر جیل سے رہا کیا جائے۔
واضح رہے کہ پولیس ذرائع کے مطابق صحافی فیاض ظفر کو سیدو شریف سے تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ فیاض ظفر سوشل میڈیا پر مسلسل سرگرم تھے اور اپنی پوسٹوں سے عوام کو اشتعال دلانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ڈپٹی کمشنر سوات آفس سے جاری تحریری حکم نامے کے مطابق فیاض ظفر کو گرفتار کرنے کا حکم ڈی پی او سوات کی رپورٹ کی روشنی میں دیا گیا۔ جس کے مطابق فیاض ظفر آزادی اظہار رائے کو غلط اور ذاتی شہرت کے لیے استعمال کر رہا تھا۔
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ صحافی فیاض ظفر سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف غلط خبریں پھیلا رہا تھا۔دوسری جانب صحافی فیاض ظفر کا مؤقف ہے کہ ڈی پی او سوات اور ڈپٹی کمشنر نے مجھے میرے دفتر سے گرفتار کروایا اور ڈی سی آفس میں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
ڈی سی کے حکم پر فیاض ظفر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تاہم ابھی تک پولیس یا ڈی سی نے گرفتاری کی تصدیق نہیں کی ہے اور نہ ہی مبینہ تشدد پر کوئی موقف آیا ہے۔