Get Alerts

نواز، زرداری، الطاف تو مائنس تھری ہو گئے، اب اس پلس تھری کی باری ہے

نواز، زرداری، الطاف تو مائنس تھری ہو گئے، اب اس پلس تھری کی باری ہے
آپریشن مائنس تھری ۔۔۔ اختتام شد ۔۔۔ فائل داخلِ دفتر۔ الطاف حسین، آصف زرداری اور نواز شریف سیاست سے فارغ اور اب ان کی باقی ماندہ عمر عدالتوں کے ساتھ سمن سمن اور وارنٹ وارنٹ کھیلتے گزرے گی۔ یا پھر جب وہ عوامی نظروں سے بالکل اوجھل ہو گئے تو جیل اور جلا وطنی جیسی قید بھی اُٹھ جائے گی۔ آپریشن مائنس تھری کامیاب تو ہو گیا لیکن کیا اس سے یہی سیاسی نتائج مطلوب تھے؟

بعض تصویریں تاریخی ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک تصویرنے پاکستانی سیاست کا رُخ موڑ دیا ہے۔ یہ تصویر چند روز قبل بلاول ہاؤس اسلام آباد سے جاری کی گئی۔ اس تصویر میں کُل چھ افراد افطار کی میزپربیٹھے دکھائے گئے ہیں۔ لیکن گمان ہے کہ دراصل یہ میز تین لوگوں کیلئے سجائی گئی تھی: بلاول، مریم اور محسن ڈاؤر۔ باقی تین افراد انتہائی قابلِ احترام لیکن اس تصویر میں ان سے ایکسٹراز کا کام لیا گیا، اصل مقصد خاموش پیغام پہنچانا تھا۔ مثلاً بلاول اور مریم کو درمیان میں اکٹھا بٹھانے سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی سیاسی جانشینی کا اعلان کر دیا گیا۔



یپلز پارٹی میں تو جانشینی کا جھگڑا ہی نہیں تھا لیکن اس تصویر کے ذریعے پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کی جانشینی کے جھگڑے پر اپنا فیصلہ سنا کر پاکستانی سیاست پر اسے تھوپ دیا ہے۔ اپنے فیصلے پر مزید مہر لگانے کے لئے حمزہ شہباز کو بھی اسی میز پر بٹھایا گیا ہے لیکن انہیں حاشیہ بردار بنانے کے لئے حاصل بزنجو کو استعمال کیا گیا ہے حالانکہ حاصل بزنجو علاوہ اس تصویر میں باقی سب اپنی اپنی پارٹیوں کے جانشینی کے امیدوار ہیں۔

میز کی دوسری جانب محسن داؤڑ کو بٹھا کر پیپلز پارٹی نے متسقبل کی پختون سیاست پر ایک دوسرا فیصلہ صادر کر دیا ہے۔ درمیان میں ایمل ولی خان کو ایکسٹرا کے طور پر بٹھائے جانے کا گمان ہوتا ہے۔

مریم، بلاول اور محسن ڈاؤر۔۔۔ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا۔۔۔ نئی سیاسی قیادت کا گلدستہ پیشِ خدمت ہے۔ مریم نے بالآخر پارٹی قیادت اپنے سر سجا لی ہے۔ نواز شریف پچھلے دور حکومت میں بطور وزیر اعظم ایک ایسے ریٹائرڈ  شخص کے طور پر سامنے آئے جس کی ساری کوشش ہوتی ہے کہ اس کا بچہ یا بچی نوکری پر لگ جائے۔ اس کیس میں نوکری دینے والوں کو یہ منظور نہیں تھا۔ حمزہ شہباز کا مریم کی گاڑی کی ڈرائیونگ کرنا تسلیم و رضا کی عکاسی کرتا ہے حالانکہ دل کا حال تصویروں میں صاف دیکھا جا سکتا ہے۔



مریم کی سیاست کی بنیاد بظاہر سویلین بالا دستی کے نعرے پر اُٹھائی گئی ہے لیکن پسِ پردہ اصل مقصد اندرونی جانشینی کے جھگڑے میں کامیابی تھا۔ آنے والے دنوں میں اگرچہ ان کی سیاست بظاہر جارحانہ نظر آئے گی بالکل اسی طرح جیسے بینظیر بھٹو نے ابتدا کی تھی لیکن جلد ہی اقتدار کے حصول کے لئے ڈیل ہوگی۔ وہ ڈیل زیادہ دیر تک چل پاتی ہے یا ڈیل دینے والے اس وقت تک اتنے بااختیار رہ پاتے ہیں، ان کا فیصلہ کافی "اگر مگر" کے بعد ہو گا۔

دوسری طرف بلاول نے بالآخر نہ صرف اپنی پارٹی بلکہ ملکی سیاست پر بھی اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔ مریم کے برعکس جس کی سیاست اپنے سیاسی مفادات سے آگے نہیں بڑھتی، بلاول اہم قومی مسائل خصوصاً وہ جنہیں نو گو ایریا قرار دیا گیا ہے، کو بھی قومی مباحثے کا حصہ بناتا ہے۔ اگرچہ اس کی سیاست بھی بظاہر جارحانہ ہو گی لیکن مطمع نظر ادھر بھی اقتدار اور ڈیل ہی رہے گا۔ بلاول کا اصل چیلنج پارٹی کو سندھ سے باہر لا کر دوبارہ قومی پارٹی میں تبدیل کرنا ہے جس کے لئے اس نے بڑی مہارت سے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنے مستقبل کے سیاسی حریفوں کا انتخاب کیا ہے۔



موجودہ سیاسی حالات میں اصل چیلنج مشترکہ خطرات کے پیشِ نظ سیاسی بقا تھا اس لئے مریم اور محسن داؤڑ جیسے ہم خیال سیاسی حریفوں کی معیت کارگر سمجھی جا رہی ہے۔  لیکن جیسے ہی مشترکہ خطرہ کم ہوتا ہے یا ڈیل ہو جاتی ہے تو کچھ دو اور کچھ لو کی پالیسی دوبارہ اپنائی جائے گی۔ اسی طرح نئی پختون قیادت تمام تر مشکلات اور چیلنجز کے باوجود اور بغیر اپنے مؤقف سے ہٹتے ہوئے قومی دھارے میں تیزی سے اپنی جگہ بنا رہی ہے۔

مستقبل کی سیاسی صف بندی واضح ہو رہی ہے۔ موروثی سیاست کے خلاف دلائل رد ہو چکے ہیں اور تابعداری کی سیاست کمزور پڑ رہی ہے۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور آئینی آزادیوں نے حال ہی میں بہت گہرے گھاؤ کھائے ہیں۔ بلاول کے افطار کے بعد بحثیت مجموعی مستقبل کا منظر نامہ امید افزا دکھائی دے رہا ہے۔